Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pakistan Tehreek Insaf Ka Almiya

Pakistan Tehreek Insaf Ka Almiya

لاہور میں اس رمضان کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنمائوں نے عوامی افطاری کا بندوبست کر رکھا تھاجس میں شاہ محمودقریشی اور میاں اظہر نے خطاب کرنا تھا۔

عوام افطار پارٹی میں شریک ہوئے، منتظمین نے کھانے پینے کا سامان لگانا شروع کر دیا، افطار میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا، عوام نے کھانے پینے کا سامان دیکھا تو یہ بپھر گئے اور انھوں نے کھانا "لوٹنا" شروع کر دیا، یہ ٹرے، دیگ اور دیگچوں میں ہاتھ ڈال کر کھانا نکالنے لگے، یہ ایک دوسرے سے الجھ بھی رہے تھے، ایک دوسرے کو گالیاں بھی دے رہے تھے اور ایک دوسرے کے کپڑے بھی پھاڑ رہے تھے، کھانے کی لوٹ مار میں شامل لوگوں نے اس دوران کھانا بھی شروع کر دیا یوں افطار سے پندرہ بیس منٹ پہلے تحریک انصاف کی افطاری شروع ہو گئی اور مغرب کی اذان کے وقت جب لاہور کے شہریوں نے پہلی کھجور اٹھائی تو پاکستان تحریک انصاف کی افطاری نقطہ انجام کو پہنچ چکی تھی۔

یہ عوامی بدنظمی کا پہلا واقعہ نہیں تھا، اس سے قبل 20 دسمبر 2011ء کو عوام قصور کے جلسے میں جلسہ گاہ کی 30 ہزار کرسیاں اٹھا کر لے گئے، یہ کرسیاں خورشید محمود قصوری نے منگوائی تھیں اور ان کا مقصد عوام کو کھڑے رہنے کی دقت سے بچانا تھا، قصوری صاحب افورڈ کر سکتے ہیں چنانچہ انھوں نے 30 ہزار کرسیاں خریدیں اور اپنے حلقے کے عوام کو باعزت طریقے سے بیٹھنے کے لیے فراہم کر دیں لیکن عین جس وقت عمران خان قوم سے خطاب کر رہے تھے عوام کرسیاں لوٹ رہے تھے اور آپ اسی طرح راولپنڈی کے 27مئی 2012ء کے جلسے کی صورتحال بھی دیکھئے۔

یہ جلسہ بھی عمران خان کے کامیاب ترین جلسوں میں شمار ہوتا ہے لیکن جلسے کے دوران عمران خان کے متوالوں نے اپنی عمر بھر کی محرومیوں کا بدلہ لیاقت باغ سے لینا شروع کر دیا، انھوں نے پارک کے پودے، درخت، لائیٹس اور گملے توڑ دیئے، انھوں نے مری روڈ پر بھی تباہی مچادی، یہ تینوں واقعات باقاعدہ رپورٹ بھی ہوئے اور پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلز نے اٹھارہ کروڑ عوام کو براہ راست بھی دکھائے، آپ اس وقت بھی یو ٹیوب پر ان کی " زیارت" کر سکتے ہیں اور عمران خان کی پوری پارٹی کے پاس ان حملوں کا کوئی جواز نہیں۔

یہ حقیقت ہے عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے، یہ تیسری پارٹی بن کر ابھری ہے اور اس وقت تیسری جماعت کی شدید ضرورت ہے اور اگر پاکستان تحریک انصاف ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو " ری پلیس" کر لیتی ہے تو پاکستان کے سنبھلنے اور ترقی کرنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے، یہ بھی حقیقت ہے عمران خان ان تھک، بے خوف اور اسٹریٹ فارورڈ شخص ہیں، یہ معاشی لحاظ سے کرپٹ بھی نہیں ہیں، ان کا انٹرنیشنل ایکسپوژر بھی ہے اور یہ میاں برادران اور زرداری خاندان کی طرح کسی ایسی لمبی چوڑی فیملی کے مالک بھی نہیں ہیں جو اقتدار میں آ کر تباہی پھیلا دے گی۔

یہ بھی حقیقت ہے پاکستان کا نوجوان طبقہ تیزی سے عمران خان کے گرد جمع ہو رہا ہے، عمران خان نے نوجوانوں کو ووٹ بنوانے کا حکم دیا تو دس سے پندرہ ہزار نوجوانوں نے روزانہ اپنا ووٹ رجسٹر کروایا، یہ بھی حقیقت ہے اگر عمران سمجھ داری سے چلے تو یہ اس الیکشن میں دونوں جماعتوں میں "ڈنٹ" ڈالیں گے اور اگلا الیکشن " کلین سویپ" کر جائیں گے اور یہ بھی حقیقت ہے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے صاف ستھرے لوگ، یہ خواہ رضا ربانی ہوں، ذوالفقار مرزا ہوں، مہتاب عباسی ہوں، خواجہ آصف ہوں یا پھر ہمایوں اختر ہوں یہ اگلے چند برسوں میں عمران خان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے عمران خان کو اگر مستقبل میں کسی سے خطرہ ہے تو یہ اس کے متوالے ہیں اور عمران خان کو ابھی سے ان کے بارے میں کوئی پالیسی بنانا پڑے گی۔

پاکستان تحریک انصاف نوجوانوں میں مقبول ہے، پاکستان تحریک انصاف میں دوسری جماعتوں کے مقابلے میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں کی باقاعدہ تربیت نہیں ہوئی، پاکستان میں ایوب خان کے بعد نوجوانوں کی تربیت کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا، پوری قوم بچوں کو تعلیم دینے میں جت گئی لیکن یہ بھول گئی اگر تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو تعلیم قوموں کے بحران میں اضافہ کر دیتی ہے چنانچہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کو " بی ہیو" کرنا نہیں آتا، یہ آرگومنٹ کو بدتمیزی تک لے جاتے ہیں، یہ اختلاف کو دشمنی سمجھ لیتے ہیں اور یہ گالی دینے، توڑ پھوڑ کرنے اور ہاتھ گریبان تک لے جانے کو آزادی سمجھتے ہیں اور عمران خان ان جذباتی اور بے تربیت لوگوں میں پھنس چکے ہیں اور ان نوجوانوں کی جذباتیت اور حرکتوں کی وجہ سے ان کی پارٹی مذاق بنتی جا رہی ہے۔

آپ اس کا مظاہرہ پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں میں بھی دیکھ رہے ہیں اور انٹرنیٹ پر بھی۔ عمران خان کے چاہنے والے فیس بک، ٹیوٹر اور بلاگز میں پاکستان تحریک انصاف سے اختلاف کرنے یا عمران خان کو مشورے دینے والوں کو ماں بہن کی گالی دیتے ہیں اور یہ گالی دینے والے عام، جاہل یا کم پڑھے لکھے نوجوان نہیں ہیں، یہ پاکستان کے ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جن کے پاس کمپیوٹر بھی ہے، جو انٹرنیٹ کا بل بھی ادا کر سکتے ہیں، جنہوں نے اپنے موبائل میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی ایکٹو کرا رکھی ہے، جنھیں انگریزی پڑھنی اور لکھنی بھی آتی ہے اور جو سوشل میڈیا کی رسائی اور طاقت سے بھی واقف ہیں۔

اب سوال یہ ہے اگر یہ پڑھے لکھے نوجوان عمران خان کو سامنے رکھ کر کالم نگاروں، اینکر پرسنز اور عمران خان سے اختلاف کرنے والے سیاستدانوں کو ماں بہن کی گالیاں دیں گے تو اس سے عمران خان کے امیج کو کس قدر ٹھیس پہنچے گی؟ یہ عوام میں کس قدر بدنام ہوں گے آپ اس کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ میرا فیس بک پیج پاکستان کا تیسرا یا چوتھا بڑا پیج ہے، اس میں اڑھائی لاکھ لوگ ہیں، میں اپنے پیج پر روزانہ" اعلیٰ تعلیم یافتہ "نوجوانوں کے تاثرات پڑھتا ہوں، نوجوان نسل کے مستقبل پر ماتم کرتا ہوں اور ساتھ ہی عمران خان کے انجام سے ڈر جاتا ہوں کیونکہ عمران خان جب ان نوجوانوں کے ووٹ سے ملک کے حکمران بنیں گے تو یہ لوگ چھ ماہ بعد ان کے ساتھ وہ سلوک کریں گے جو انھوں نے لاہور کی افطاری، قصور کے جلسے اور راولپنڈی کی ریلی میں کھانے، کرسیوں اور درختوں، پودوں اور مری روڈ کے ساتھ کیا تھا اور جو یہ سوشل میڈیا پر عمران خان کے ہمدردوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

یہ رویہ انتہائی نامناسب ہے لیکن میں اس میں نوجوانوں کو زیادہ ذمے دار نہیں سمجھتا، یہ بے چارے ہیں کیونکہ انھیں آج تک کسی نے تربیت ہی نہیں دی، یہ اسکول میں بھی تربیت سے محروم ہیں اور گھر اور معاشرے میں بھی۔ ہم لوگ بچوں کوبات کرنے، اختلاف کرنے اور ملک کی چیزوں کو سنبھالنے کی ٹریننگ ہی نہیں دیتے، ہم نے آج تک انھیں بتایا ہی نہیں آپ جلسہ گاہ سے ایک کرسی اٹھا کر لے جائیں تو آپ کو پانچ چھ سو روپے کا فائدہ ہو گا لیکن ملک کا کروڑوں اربوں روپے کا امیج خراب ہو جائے گا اور آپ جب کسی کو گالی دیتے ہیں تو آپ پورے معاشرے کو بیمار کر دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

یہ بے چارے ان باتوں اور ان حرکتوں کے رد عمل سے واقف ہی نہیں ہیں، ہماری حکومتوں نے تربیت پر توجہ نہیں دی چنانچہ آج حالات یہ ہو گئے ہیں ملک میں ہر شخص کے منہ پر دس دس گالیاں لکھی ہیں اور ہماری زبانیں شعلے اگل رہی ہیں، یہ لوگ عمران خان کو دل سے چاہتے ہیں چنانچہ اگر عمران خان ان لوگوں کی تربیت پر توجہ دیں، یہ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اپنی مدد آپ کے تحت ٹریننگ سینٹر بنا ئیں، یہ سینٹر ان کے پہلی، دوسری اور تیسری صف کے لیڈر چلائیں اور یہ لوگ وہاں نوجوانوں کو تہذیب اور شائستگی کے دو دو ہفتے کے تربیتی کورسز کروائیں، یہ انھیں جاب حاصل کرنے، چھوٹے کاروبار کرنے، تہذیب کے ساتھ گفتگو کرنے اور دوسروں کے خیالات کی قدر کرنے کی تربیت دیں تو ملک میں بھی انقلاب آ سکتا ہے اور عمران خان کی پارٹی کی جڑیں بھی مضبوط ہو سکتی ہیں۔

عمران خان کی پارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے پاس پڑھے لکھے لوگ ہیں، خان صاحب ان لوگوں کو یہ ٹاسک دے سکتے ہیں، یہ اپنے کارکنوں سے یہ حلف بھی لے سکتے ہیں ہم میں سے کوئی شخص گالی دے گا، ہم کسی چیز پر حملہ کریں گے اور نہ ہی ہم کوئی چیز توڑیں گے، میں سمجھتا ہوں اگر عمران خان اس قوم کو قطار بنانے کا طریقہ سکھا دیں، یہ اپنی پارٹی کے کارکنوں کو قائل کر لیں، ہمارا ہر کارکن قطار میں کھڑا ہو گا خواہ یہ قطار ایک آدمی پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو اور ہم بارشوں اور بہار کے موسم میں پورے ملک میں کروڑوں پودے لگائیں گے اور ان پودوں کی حفاظت بھی کریں گے اور ہم میں سے ہر شخص گلی محلے میں صفائی رکھے گا تویقین کیجیے عمران خان واقعی ملک میں سوشل سونامی لے آئیں گے لیکن عمران خان بدقسمتی سے اس پر توجہ دینے کی بجائے سیاست کی اس پٹڑی پر چڑھ رہے ہیں جس نے پرانی پارٹیوں کو برباد کر دیا اور یہ روایتی سیاست پاکستان تحریک انصاف کا المیہ بن رہی ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.