اللہ تعالیٰ نے عطاء الحق قاسمی صاحب کو مزاح کی دولت سے بے انتہا نواز رکھا ہے،
یہ جہاں بیٹھ جاتے ہیں وہاں پھلجھڑیاں بھی چھوٹتی ہیں اور قہقہے بھی گونجتے ہیں، آپ اگر بات کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو قاسمی صاحب کی شاگردی اختیار کرنا ہوگی کیونکہ یہ بڑی سے بڑی اور بری سے بری بات اس خوبصورتی سے کہہ دیتے ہیں کہ بری بات بری نہیں رہتی اور بڑی بات مزید بڑی ہو جاتی ہے، میرے ایک دوست نے قاسمی صاحب سے پوچھا " بوڑھی بیوی کے جوان خاوند کو کیا کرنا چاہیے" قاسمی صاحب نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا " بیرونی امداد" اسی طرح جب بھی کوئی بزرگ شخص خوبصورت خاتون کو دیکھ کر ماشاء اللہ کہتا ہے تو قاسمی صاحب کے منہ سے بے اختیار " انشاء اللہ" نکل جاتا ہے، یہ محبت، لگائو اور کشش کی کان بھی ہیں، آپ اگر ان کے لگائو کے دائرے میں آ گئے تو پھر یہ پوری زندگی ماں کی طرح آپ پر اپنی محبت نچھاور کرتے رہیں گے،
ہم زندگی میں بے شمار لوگوں کو دیکھتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ محض لوگ ہوتے ہیں، کچھ لوگ اچھے تخلیق کار، ہنر مند یا پرفارمر ہوتے ہیں اور کچھ محض پبلک ریلیشننگ کا شاہکار اور آپ کو ان کے قریب جا کر معلوم ہوتا ہے ان کی رنگین شخصیت محض سایہ تھی لیکن عطاء الحق قاسمی ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں آپ جن کا کام دیکھتے ہیں تو مبہوت ہو جاتے ہیں اور آپ جب ان کے حلقہ ارادت میں قدم رکھتے ہیں تو آپ کو ان کی شخصیت گنگ کر دیتی ہے، قاسمی صاحب کا کام ان کی شخصیت سے بڑا ہے اور شخصیت ان کے کام سے کہیں بلند، یہ زندہ لیجنڈ ہیں جن کے بغیر پاکستانی صحافت مکمل ہوتی ہے، نہ ادب اور نہ ہی محفل۔
عطاء الحق قاسمی پچھلے تین برسوں سے لاہور آرٹس کونسل کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین ہیں، تین برسوں سے ہی لاہور میں ادبی اور ثقافتی کانفرنس منعقد کر رہے ہیں، انھوں نے 12 سے 14 اکتوبر 2012ء کو تیسری ادبی اور ثقافتی کانفرنس کا اہتمام کیا، اس میں پاکستان بھر سے ادیب، شاعر، مصور، گلوکار، ایڈیٹر، کالم نگار، اینکر پرسنز، اداکار اور موسیقار جمع کیے، 14 اکتوبر کی سہ پہر "میڈیا کے ادب اور معاشرے پر اثرات" کے عنوان سے میڈیا کانفرنس تھی، اس میں چوٹی کے صحافی، کالم نگار اور اینکرز پرسنز شریک ہوئے، عوام نے کبھی اتنے نامور صحافیوں کو کسی ایک جگہ اکٹھے نہیں دیکھا، یہ قاسمی صاحب کی محبت اور تعلق کا کمال تھا ورنہ یہ وہ لوگ ہیں جو اکٹھے حج تک نہیں کر سکتے، عوام بھی الحمرا کے ہال سے لے کر لان تک جمع تھے،
میں قاسمی صاحب کے لاکھوں کروڑوں عقیدت مندوں میں سے ایک ہوں چنانچہ میں بھی اس محفل میں شریک تھا، یہ کانفرنس سنجیدہ موضوع پر سنجیدگی سے شروع ہوئی لیکن جلد ہی میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر اعتراضات میں تبدیل ہو گئی اور شرکاء نے اسٹیج پر بیٹھے حضرات کے ساتھ وہی سلوک شروع کر دیا جو یہ سوشل میڈیا پر روزانہ کرتے رہتے ہیں، وہی پرانے اعتراضات میڈیا یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ ہے، یہ لوگ چھوٹے ایشو کو بڑا بنا دیتے ہیں، یہ ہمیشہ برائی کو بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں، یہ لوگ سب کا احتساب کرتے ہیں لیکن کسی کو اپنا احتساب نہیں کرنے دیتے، یہ ریٹنگ کی دوڑ میں اخلاقیات، انسانیت اور مشرقیت کی حدود روندتے چلے جارہے ہیں، یہ عالمی ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں اور یہ جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ، عوام نے ملالہ کا ایشو بھی اٹھایا،
لوگوں کا کہنا تھا ملالہ ایک عام سی بچی تھی لیکن میڈیا نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اسے ہیروئن بنا دیا، یہ بھی کہا گیا ملالہ پر حملہ شمالی وزیرستان کے خلاف آپریشن کی سازش ہے وغیرہ وغیرہ اور ہم یہ اعتراضات سن سن کر مسکراتے رہے کیونکہ بدقسمتی سے اعتراضات اب ہماری ڈیلی روٹین کا حصہ بن گئے ہیں اور اعتراض اٹھانے والا کوئی شخص ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا، ہمیں لوگ ہمیشہ کہتے ہیں آپ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بات نہیں کرتے، میں ان لوگوں سے پوچھتا ہوں آپ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اس پر ہونے والے ظلم کی خبر کس نے دی تھی،
یہ ایک لمحہ سوچتے ہیں اور اس کے بعد بے بسی سے جواب دیتے ہیں "میڈیا نے" اور میں اس جواب پر ہنس پڑتا ہوں کیونکہ پاکستانی عوام 2004ء تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے نام سے بھی واقف نہیں تھے، یہ میڈیا تھا جس نے عین اس وقت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا پرچم اٹھایا جب جنرل پرویز مشرف کا اقتدار سوا نیزے پر چمک رہا تھا اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے لے کر مذہبی تنظیموں تک کوئی عافیہ صدیقی کا نام لینے کے لیے تیار نہیں تھا، میڈیا نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے اس قدر لکھا اور اس کے بارے میں اس قدر بات کی کہ امریکی حکام اسے بگرام سے امریکی عدالت میں لانے اور اسے امریکی قانون کے مطابق تمام مراعات دینے پر مجبور ہو گئے لیکن آج یہ میڈیا برا ہے اور وہ تمام لوگ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بھائی ہیں جو 2007ء تک عافیہ صدیقی کا نام تک نہیں لیتے تھے،
عوام کو ڈرون حملوں کی اطلاع کون دیتا ہے؟ پاکستان میں 18 جون2004ء میں پہلا ڈرون حملہ ہوا اور یہ یہود و نصاریٰ کا " ایجنٹ" میڈیا تھا جس نے ایک گھنٹے میں عوام کو اس ڈرون حملے اور اس میں شہید ہونے والے افراد کی شہادت کی اطلاع دی، پاکستان میں آخری ڈرون حملہ 11 اکتوبر2012ء کو ہوا اور ہم نے جون 2004ء سے 2012ء کے آخری حملے تک قوم کو اطلاع دی اور اس اطلاع کے لیے ہمیں دبائو کی کس کس چکی سے گزرنا پڑتا ہے، یہ ہم جانتے ہیں اور ہمارا خدا۔ پاکستان کا کون سا لیڈر، کون سا سیاسی اور مذہبی ورکر ہے جو ڈرون حملوں کے شکار لوگوں کے آنسو پونچھنے شمالی اور جنوبی وزیرستان گیا،
عوام میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے ڈرون کے شکار لوگوں کے جنازے پڑھے جب کہ میڈیا کے ورکرز ان علاقوں میں بھی پہنچے، انھوں نے جنازوں کی تصاویر اور فلمیں بھی بنائیں اور ملک کے ان مشکل ترین علاقوں میں پروگرام بھی کیے، آج جب پارلیمنٹ اور حکومت ڈرون حملے کی مذمت تک نہیں کرتی ہم لوگ آپ کو حملے کے چند سیکنڈ بعد اس کی اطلاع بھی دیتے ہیں اور قوم اور حکومت دونوں کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن قوم اٹک کا پل تک پار نہیں کرتی اور وہ لوگ جو گولیوں کی باڑ میں قوم کو اطلاع فراہم کرتے ہیں وہ برے بھی ہیں اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔
آپ مسنگ پرسنز کے ایشو کولیں، ہماری ایجنسیاں لوگوں کو غائب کر رہی ہیں، آپ کو یہ اطلاع کس نے دی اور یہ خبر روزانہ کون دے رہا ہے؟ مسنگ پرسنز کے کیمپس کی کوریج کون کر رہا ہے؟ وہاں کھڑے ہو کر پروگرام کون کر رہا ہے؟ آمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ 2005ء سے کون کھڑا ہے؟ بلوچستان کے مسنگ پرسنز کی بات کون کر رہا ہے؟ ہمارے ملک، جس میں وزیراعظم اور صدر تک ایجنسیوں کے خلاف منہ نہیں کھولتے، جس میں بڑے بڑے مذہبی اور سیاسی رہنما بھی آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کا نام نہیں لیتے میڈیا اس ملک میں پچھلے سات برسوں سے نہ صرف ان اداروں کا نام لے رہا ہے بلکہ ان پر براہ راست الزام بھی لگا رہا ہے،
اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک، جس میں مسنگ پرسنز کے لیے اٹھارہ ہزار لوگ گھروں سے نہیں نکلے، ہم چند مٹھی بھر لوگ اس ملک میں روزانہ بم کو ٹھوکریں ماررہے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود برے بھی ہیں اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔ پاکستان میں جس وقت صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کو ایبٹ آباد میں امریکی فوج کی آمد اور اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پر حملے کی اطلاع نہیں تھی ہم نے عوام کو اس وقت جلتا ہوا امریکی ہیلی کاپٹر دکھایا تھا، بھارتی حکومت اور میڈیا نے ممبئی اٹیکس کے بعد جس وقت پاکستان کے خلاف محاذ کھول دیا اور ملک کا کوئی شخص، کوئی ادارہ اس کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں تھا پاکستانی میڈیا اس وقت نہ صرف بھارتی پروپیگنڈے کے سامنے سینہ سپر ہوا بلکہ اس نے بھارتی حکومت اور انڈین میڈیا کو پاکستان سے معذرت کرنے پر مجبور کیا،
آپ یہ بھی چھوڑ دیجیے، آپ یہ بتائیے جنرل پرویز مشرف نے جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معطل کیا تو آپ کو یہ خبر کس نے دی اور عدلیہ نے جس وقت اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف جوڈیشل کمیشن قائم کر دیا افتخار محمد چوہدری کے ساتھ اس وقت کون کھڑا تھا اور آج جب چوہدری اعتزاز احسن اور علی احمد کرد تک افتخار محمد چوہدری کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اس وقت چیف جسٹس کے ساتھ کون کھڑا ہے اور جب افتخار محمد چوہدری کے صاحبزادے ارسلان افتخار کا اسکینڈل سامنے آیا تو چیف جسٹس کو کس نے اپنے صاحبزادے کے خلاف سوموٹو ایکشن لینے پر مجبور کیا اور جب ہمارے اپنے اینکرز ساتھیوں نے اسپانسر پروگرام کیا تو کس نے ٹیلی ویژن اسکرین پر آپ کو ان کی یہ غیر اخلاقی حرکت دکھائی اور جب لال مسجد پر فوجی آپریشن ہوا تو کیا یہود و نصاریٰ کا یہ " ایجنٹ" میڈیا نہیں تھا جو برستی گولیوں میں نہ صرف لال مسجد کے سامنے کھڑا تھا بلکہ یہ قوم کو مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید غازی کی آواز بھی سنا رہا تھا،
آپ آج بھی یو ٹیوب پر چلے جائیں آپ کو لال مسجد کے آپریشن کی ٹی وی رپورٹس بھی ملیں گی، شہداء کی آخری تقریریں بھی اور مظلوم بچیوں کی سسکیاں بھی اور ہم آپ کو یہ سب کچھ اس وقت دکھا رہے تھے جب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اکثر رہنما ملک سے باہرتھے، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن اس وقت لندن میں تھے اور خاموش تھے جب کہ عوام کو فیض آباد تک آنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی لیکن ہم لوگ اس وقت بھی ان بچیوں کے ساتھ کھڑے تھے ہمارے سیاستدان، ہماری سیاسی جماعتیں اور ہماری سپریم کورٹ جب فوج کے خوف سے لال مسجد کا نام نہیں لیتی تھی، میڈیا نے اس وقت آپ کو مدرسے کی بچیاں بھی دکھائیں اور مسجد کی زخمی ہوتی دیواریں بھی لیکن آج لال مسجد کے لیے فوج اور پولیس بھجوانے اور مولانا عبدالعزیز کو برقعہ پہنا کر ٹی وی اسٹیشن لانے والے اچھے ہیں اور میڈیا برا اور یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ، واہ کیا یہ ہے آپ کا انصاف۔
(جاری ہے)