Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Qaum Waqt Se Pehle Hi Pareshan Ho Gaye

Qaum Waqt Se Pehle Hi Pareshan Ho Gaye

آپ اندرا گاندھی کی مثال لیجیے، یہ بھارت کی پانچویں وزیراعظم تھیں، بھارت کے سب سے بڑے سیاسی خاندان نہرو فیملی سے تعلق رکھتی تھیں، یہ دو بار انڈیا کی وزیراعظم رہیں، یہ 31 اکتوبر 1984ء کو دہلی میں اپنے سکھ گارڈز ستونت سنگھ اور بیانت سنگھ کے ہاتھوں قتل ہو گئیں، یہ اندوہناک واقعہ تھا، اس واقعے پر جہاں پورے بھارت کے لوگ غمزدہ ہو گئے، وہاں دہلی، ممبئی اور دوسرے ہندو اکثریتی شہروں میں وسیع پیمانے پر سکھوں کا قتل عام شروع ہو گیا، دہلی شہر میں تین ہزار سکھ مار دیے گئے جب کہ سکھ آبادیوں کو جلا دیا گیا، عورتوں کو سر عام بے عزت کیا گیا اور مردوں کے گلوں میں ٹائر ڈال کر انھیں آگ لگا دی گئی، فسادات کے اس زمانے میں ہندوستان کے مسلمان علما نے اندرا گاندھی کو انتہائی دلچسپ ٹریبوٹ پیش کیا، علماء ہند نے اردو میں ایک کتابچہ شایع کیا اور کتابچہ پورے ہندوستان میں تقسیم کرا دیا، میں اس وقت طالب علم تھا، یہ کتابچہ بھارت سے اسمگل ہو کر پاکستان پہنچ گیا، میں نے اپنے ایک استاد کی میز پر یہ میگزین دیکھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے اس کتابچے کے سرورق پر اندرا گاندھی کی نعش کی تصویر چھپی تھی، اندرا گاندھی گردن تک سفید کفن میں ملبوس تھیں، صرف ان کا چہرہ ننگا تھا، ناک کے نتھنوں میں روئی کے پھاہے پھنسے ہوئے تھے۔

اس تصویر کے اوپر اردو کا ایک شعر لکھا تھا، مجھے وہ شعر آج تک یاد ہے "رتبہ شہید عشق کا گر جان جائیے?? قربان جانے والے کے قربان جائیے" اس شعر کے نیچے کفن میں لپٹی لاش کی تصویر تھی اور تصویر کے نیچے لکھا تھا " سیدہ اندرا گاندھی شہید" یہ کتابچہ ہندوستان کے ایک نامور دارالعلوم کی انتظامیہ نے شایع کیا تھا، میں فساد خلق کی وجہ سے اس دارالعلوم کا نام تحریر نہیں کر رہا، میں نے اپنے استاد سے اس ٹائٹل کے بارے میں پوچھا، انھوں نے مسکرا کر جواب دیا "اس میں کیا حرج ہے، عربی میں سید محترم اور سیدہ محترمہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جب کہ ہندوستان کے ہندو اندرا گاندھی کو شہید قرار دے رہے ہیں، مسلمان اس سے انکار کر کے ان کے جذبات کی توہین نہیں کرنا چاہتے" میرا ذہن بھی کچا تھا اور میں ان دنوں جلد بھڑک بھی جاتا تھا، میں نے ان سے عرض کیا " جناب ہندوستان کے علما کو یہ جھک مارنے کی کیا ضرورت تھی، آپ یہ کتابچہ شایع ہی نہ کرتے، پورا ہندوستان اندرا گاندھی کو فرشتہ کہتا یا شہید آپ بس خاموش رہتے" میرے استاد نے اس کے جواب میں لمبی چوڑی توجیہہ بیان کر دی مگر میں نے ان سے اتفاق نہ کیا، میرا خیال تھا، اندرا گاندھی تاریخ میں دفن ہو جائیں گی لیکن یہ کتابچہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔

مجھے بعض اوقات اپنے مذہب پر بہت ترس آتا ہے، دنیا میں اس وقت ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں اور ڈیڑھ ارب ہی شیخ الاسلام، مجدد، غوث، ابدال اور مفتی اعظم ہیں، آپ کسی مسلمان بھائی کے پاس بیٹھ جائیں آپ کو محسوس ہو گا پورے عالم اسلام میں اس سے بڑا کوئی مذہبی رہنما، کوئی صوفی اور کوئی مفتی نہیں، ہم شرابی کبابی بادشاہوں کو ظل الٰہی کا خطاب دینے والے لوگ ہیں، ہم سے بڑا دیالو کون ہوگا؟ ہم میں تو ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو (نعوذ باللہ) یہ دعویٰ تک فرما دیتے ہیں ہم روز اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے سوالوں کے جواب دیتا ہے اور سننے والوں کے پاس خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا، میرے پاس چند دن قبل ایک میاں بیوی تشریف لائے، بیوی کا دعویٰ تھا میرا خاوند امام مہدی (نعوذ باللہ) تعینات ہو چکا ہے، میں نے خاوند کی طرف دیکھا، وہ اس وقت سگریٹ کا لمبا کش لگا کر ناک سے دھواں نکال رہا تھا، میں نے امام مہدی (جعلی) سے پوچھا " آپ نے اسلام کی اب تک کیا خدمت کی" وہ فرمانے لگے " میں نے اوبامہ سمیت دنیا کے دس سربراہان کو خط لکھ دیے ہیں، تم مجھ پر فوراً ایمان لے آئو ورنہ میرا لشکر تم پر حملہ کر دے گا" میں نے استغفار پڑھا اور دونوں کو بڑی مشکل سے دفتر سے نکالا۔

نبی اکرمؐ آخری نبی ہیں، یہ ہمارا ایمان ہے اور کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک یہ اس بات پر ایمان نہ لے آئے مگر آپ نبی اکرمؐ کے ظہور سے لے کر آج تک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو عالم اسلام میں نہ صرف سیکڑوں جھوٹے نبی ملیں گے بلکہ آپ ان کے گرد لاکھوں عقیدت مندوں کا مجمع بھی دیکھیں گے، دنیا میں حضرت موسیٰ ؑ کے بعد یہودیوں میں کوئی دوسرا موسیٰ نہیں آیا، عیسائیوں میں کسی عیسیٰ ثانی نے جنم نہیں لیا مگر اسلام کے ٹھوس اور بے لچک قوانین کے باوجود جعلی نبیوں کا سلسلہ بند نہیں ہو رہا، عالم اسلام میں ہر دو تین سال بعد کوئی نہ کوئی جعلی نبی نکل آتا ہے اور لوگ اس کے ہاتھ پر بیعت بھی کر لیتے ہیں، دنیا کا کوئی عیسائی، کوئی یہودی حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کی زیارت کا دعویٰ نہیں کرتا مگر ہمارے علماء کرام جلسوں میں کھڑے ہو کر دعویٰ کر دیتے ہیں نبی اکرمؐ (معاذ اللہ) ہوائی سفر کا ٹکٹ مانگ رہے ہیں، آپ میں سے کوئی فرزند توحید ہے جو اپنے رسول ؐ کو ٹکٹ دے سکے، ہمیں تذکروں کی ہر دوسری تیسری کتاب میں نبی اکرمؐ کی زیارت اور ان سے مکالمات مل جاتے ہیں، آپ حد ملاحظہ کیجیے۔

جوش ملیح آبادی صاحب نے بھی اپنی اس کتاب میں زیارت کا دعویٰ فرما دیا تھا جس کتاب کو کوئی شریف اور نابالغ مسلمان نہیں پڑھ سکتا، میں ہرگز ہرگز ان واقعات کی صحت سے انکار نہیں کرتا، ہم میں یقینا ایسے صاحب کردار لوگ ہوں گے جنھیں آپؐ کی زیارت نصیب ہوتی ہو گی لیکن اس دعویٰ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور کیا ہم صرف ان دعوئوں کی بنیاد پر کسی شخص کے کردار سے آنکھ بند کر سکتے ہیں یقینا نہیں! مگر ہمارے علما آج تک ان دعوئوں اور ان جھوٹے نبیوں اور امام مہدیوں پر پابندی نہیں لگا سکے، یہ مذہب حقیقتاً مظلوم ہے کیونکہ آپ صرف اسلامی نام رکھ کر کوئی بھی فتویٰ جاری کر سکتے ہیں، آپ کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت سو پچاس حجوں اور دس پندرہ لاکھ نمازوں کا ثواب "عنایت" کر سکتے ہیں، آپ کسی بھی وقت کسی بھی حکمران کو مجاہد اسلام، کسی کو بھی خلیفۃ المسلمین، کسی کو بھی امام دوران اور کسی کو بھی مفتی اعظم ڈکلیئر کر سکتے ہیں اور سننے والوں کے پاس واہ واہ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا اور رہ گئی شہادت تو ہم میں سے کوئی بھی شخص، کوئی بھی سیاسی جماعت، کوئی بھی گروپ اور کوئی بھی ادارہ کسی بھی وقت کسی بھی شخص کو شہادت کا اعزاز دے سکتا ہے اور کسی کو اعتراض کی جرأت نہیں ہو سکتی، آپ ہمارا کمال ملاحظہ کیجیے۔

جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی، پاکستان پیپلز پارٹی کے مفتیوں نے بھٹو صاحب کو شہید قرار دے دیا، جنرل ضیاء الحق فضائی حادثے میں مارے گئے تو چند نامعلوم مفتیوں نے انھیں بھی شہید ڈکلیئر کر دیا، کسی نے بھٹو کی شہادت پر اعتراض کیا اور نہ ہی کسی نے جنرل ضیاء الحق کی شہادت کو چیلنج کیا، کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب کے صاحبزادوں نے الذوالفقاربنائی، یہ جس کو قتل کرتی تھی وہ بھی شہید تھا اور ریاست الذوالفقار کے جس "مجاہد" کو گولی مارتی تھی وہ بھی شہید ہوتا تھا، بلوچستان میں بغاوت کے دوران ریاست نے جن بلوچوں کو مارا وہ بھی شہید تھے اور بلوچوں کے ہاتھوں جو سرکاری اہلکار مارے گئے وہ بھی شہید تھے، بنگالیوں نے ہمیں مارا، ہم بھی شہید تھے اور ہم نے جن بنگالیوں کو مارا وہ بھی شہید تھے، میاں نواز شریف اور جنرل مشرف سمیت پاکستان کا ہر حکمران ڈھاکا میں مکتی باہنی کے ان شہداء کی یادگار پر بھی گیا اور وہاں اس نے پھولوں کی چادر بھی چڑھائی۔

پولیس کی گولی سے مرنے والا مرتضیٰ بھٹو بھی شہید تھا اور ان کے ساتھیوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے پولیس اہلکار بھی شہید، پولیس مقابلوں میں مرنے والے ڈاکو بھی شہید ہوتے ہیں اور ڈاکوئوں کی گولی کا شکار ہونے والے پولیس اہلکار بھی، ایم کیو ایم کے کارکن بھی شہید ہیں اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے چار سو پولیس اہلکار بھی شہید، نواب اکبر بگٹی کو سابق صدر زرداری بھی شہید کہتے ہیں اور میاں نواز شریف بھی اور دونوں کی نظر میں اکبر بگٹی کے ساتھ غار میں مرنے والے فوجی آفیسر بھی شہید تھے اور لال مسجد میں مرنے والی بچیاں اور ان کی حفاظت کے دوران مرنے والے بچے بھی شہید ہیں اور ان بچوں کی جوابی فائرنگ کا نشانہ بننے والے فوجی اہلکار بھی شہید، بے نظیر بھٹو بھی شہید ہیں اور ان کو شہید کرنے والے بھی شہید، ہمارے ملک میں جب شہادت کا ٹائٹل اتنا آسان، اتنا عام ہے تو پھر ہم سید منور حسن اور مولانا فضل الرحمن پر اعتراض کیوں کر رہے ہیں؟ ہم جب اس ملک میں کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت شہید کا درجہ دے سکتے ہیں تو پھر مولانا فضل الرحمن کتے کو بھی شہید کہہ سکتے ہیں، ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ ہم چیخ کیوں رہے ہیں؟ ۔

ہم بہت دلچسپ قوم ہیں، ہمارا ہر دوسرا معاہدہ صلح حدیبیہ یا میثاق مدینہ ہوتا ہے خواہ یہ این آر او، سی او ڈی یا مری ڈکلیئریشن ہی کیوں نہ ہو، ہماری ہرسیاسی معافی فتح مکہ کی عام معافی ہوتی ہے خواہ یہ سوئس اکائونٹس، حج کرپشن اور این آئی سی ایل کی معافی ہی کیوں نہ ہو، ہمارا ہر مرنے والا شہید ہوتا ہے خواہ یہ مسجدوں میں نمازیوں کو قتل کرتے ہوئے ہی کیوں نہ مارا جائے، ہمارا مفاد قومی مفاد ہوتا ہے خواہ یہ اٹھارہویں ترمیم ہی کیوں نہ ہو اور ہمارا ہر حکمران حضرت عمر فاروقؓ ثانی ہوتا ہے خواہ یہ جعلی ریفرنڈم یا پی سی او کی کوکھ ہی سے جنم کیوں نہ لے اور ہمارا ہر سرکاری عہدیدار مجاہد ہوتا ہے خواہ یہ باقی زندگی جیل ہی میں کیوں نہ سڑتا رہا ہو اور ہمارے ملک کا ہر داڑھی والا مولانا ہوتا ہے خواہ اس نے زندگی میں کوئی نماز نہ پڑھی ہو، ملک میں جب ٹماٹر، پیاز مہنگے اور دینی اعزاز سستے ہو جائیں گے تو پھر کتوں کو بھی شہید کہا جائے گا اور ریاست کے دشمنوں کو بھی شہادت کی مسند پر بٹھایا جائے گا، آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں، ہم نے تو ابھی گری ہوئی دیواروں، ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور شکستہ پلوں کو بھی شہادت کا درجہ دینا ہے، ہم نے تو ابھی ٹرین کے ڈبوں اور گرائونڈ ہوئے جہازوں کو بھی شہادت کے رتبے پرفائز کرنا ہے، قوم وقت سے پہلے ہی پریشان ہو گئی، آپ صبر کریں، شہادتوں کے ابھی بے شمار مقامات آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.