وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے پاس دو آپشن تھے، یہ لندن کے نسلی فسادات کو اپوزیشن اور میڈیا کے کھاتے میں ڈال دیتے، آگ بجھاتے، ملزموں کو گرفتار کرتے، فوجی عدالتوں میں مقدمے چلاتے اور دوبارہ نندی پور جیسے منصوبوں میں چھلانگ لگا دیتے یا پھر یہ مسئلے کو سیریس لیتے اور اس کا کوئی مستقل حل تلاش کرتے، ڈیوڈ کیمرون کیونکہ اچھے اور کامیاب وزیراعظم نہیں تھے چنانچہ انھوں نے فسادات کو اپوزیشن اور میڈیا کے نامہ اعمال میں ڈالا اور نہ ہی فوجی عدالتیں بنائیں۔
وہ مسئلے کے مستقل حل کی طرف چلے گئے اور مسئلے کا مستقل حل لندن کے بجائے نیویارک میں تھا، ڈیوڈ کیمرون نے فوراً ولیم جوزف بریٹن کو فون کیا اور اسے لندن آنے کی دعوت دے دی، یہ ولیم جوزف بریٹن کون ہے، ڈیوڈ کیمرون نے اسے لندن کیوں بلایا اور لندن کے نسلی فسادات کب اور کیوں ہوئے، ہمیں یہ جاننے کے لیے 2011ء میں جانا ہو گا، لندن پولیس نے 4 اگست 2011ء کو 29 برس کے ایک سیاہ فام نوجوان مارک ڈوگن کو ٹوٹن ہام کے علاقے میں گولی مار دی، مارک ڈوگن کی لاش برطانیہ کے بدترین فسادات کا باعث بن گئی۔
برطانیہ کے سیاہ فام باشندے باہر نکلے اور انھوں نے لندن، برمنگھم، ناٹنگھم، مانچسٹر، لنکولن اور بریسٹول میں آگ لگا دی، اربوں روپے کی املاک، سرکاری عمارتیں اور گاڑیاں جل کر راکھ ہو گئیں، سرکاری نظام مفلوج ہو گیا، پولیس غائب ہو گئی اور شہر بلوائیوں کے کنٹرول میں چلے گئے، ڈیوڈ کیمرون اس وقت اٹلی میں اپنی فیملی کے ہمراہ دوہفتوں کی چھٹیوں پر تھے، یہ فوری طور پر لندن پہنچ گئے، یہ فسادات 6 اگست سے 11 اگست 2011ء تک چلتے رہے، ان فسادات میں پانچ لوگ ہلاک، 16 سویلین اور 186 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے، حالات کنٹرول میں آنے کے بعد حکومت نے سی سی ٹی کیمروں کی مدد سے تین ہزار لوگ گرفتار کیے، بسوں کے اندر خصوصی عدالتیں قائم ہوئیں، ججوں نے دن رات مقدمات چلا کر ہزاروں مجرموں کو سزا سنا دی۔
فسادات کے دوران تباہ ہونے والی اربوں پاؤنڈ کی پراپرٹی کے کیس بھی نبٹا دیے گئے، وزیراعظم نے مقدموں سے فارغ ہونے کے بعد فسادات کا تفصیلی جائزہ لیا، ریسرچ کی، پتہ چلا ولیم جوزف بریٹن نام کا ایک ریٹائر پولیس آفیسر نیویارک میں رہتا ہے، یہ 1990-91ء میں نیویارک کا پولیس چیف جب کہ جنوری 1994ء سے اپریل 1996ء تک نیویارک سٹی پولیس کا کمشنر رہا" ولیم بریٹن سے قبل نیویارک دنیا میں نسلی فسادات اور اسٹریٹ کرائم کا سب سے بڑا گڑھ تھا، ولیم بریٹن آیا، اس نے نیویارک کی گلیوں میں کام کیا اور ڈیڑھ سال میں نیویارک کو نسلی فسادات اور جرائم سے پاک کر دیا، نیویارک میں امن قائم ہو گیا، ولیم بریٹن اپریل 1996ء میں ریٹائر ہو گیا لیکن اس کا قائم کردہ امن آج تک برقرار ہے اوراسی ولیم بریٹن کو یکم جنوری 2014ء سے ایک بار پھر کمشنر نیویارک پولیس تعینات کردیاگیا ہے۔
ولیم بریٹن نے نیویارک شہر کے لیے ایک فارمولہ بنایا تھا، یہ فارمولہ بریٹن فارمولہ کہلاتا ہے، ڈیوڈ کیمرون نے وہ فارمولہ پڑھا اور اسے فوراً فون کر دیا، ولیم جوزف بریٹن کو لندن بلا لیا گیا، وزیراعظم اسے لندن کا پولیس چیف بنانا چاہتا تھا لیکن ان کے ماتحت ادارے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اجازت نہ دی، ہوم ڈیپارٹمنٹ کا کہنا تھا، قانون کے مطابق صرف برطانوی شہری پولیس چیف بن سکتا ہے، ڈیوڈ کیمرون قانون کے سامنے بے بس ہو گیا، برطانوی وزیراعظم نے یقینا اس وقت یہ سوچا ہو گا کاش میں برطانیہ کی سابق کالونی پاکستان کا وزیراعظم ہوتا تو میں ایک خط کے ذریعے قانون بھی بدل دیتا اور چند سیکنڈ میں ولیم جوزف بریٹن کو شہریت بھی عنایت کر دیتا لیکن برطانیہ پاکستان تھا اور نہ ہی ڈیوڈ کیمرون یوسف رضا گیلانی یا میاں نواز شریف چنانچہ وہ ولیم بریٹن کو لندن سٹی کا پولیس چیف نہ بنا سکا تاہم وہ امریکی شہری کو اپنا مشیر بنا سکتا تھا۔
ڈیوڈ کیمرون نے ولیم جوزف بریٹن کواگست 2011ء میں اپنا خصوصی مشیر بنا لیا، برطانیہ نے اس کے تجربے سے بھرپور فائدہ اٹھایا، ولیم بریٹن نے انھیں ایسی پالیسیاں بنا کر دیں جن کے نتیجے میں برطانیہ کا لاء اینڈ آرڈر مضبوط ہو گیا، آج اس واقعے کو چار سال گزر چکے ہیں، برطانیہ میں ان چار برسوں میں 2011ء جیسے فسادات دوبارہ نہیں ہوئے، آپ آگے بڑھنے سے قبل یہ بھی جان لیجیے، برطانیہ میں اس وقت 150 اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں، ان میں 12 یونیورسٹیاں سو عظیم یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل ہیں، ان تمام یونیورسٹیوں میں لاء اینڈ آرڈر کے ڈیپارٹمنٹس بھی ہیں اور ایکسپرٹس بھی۔
برطانیہ میں اس وقت بھی قانون اور پولیسنگ کے ہزاروں ماہرین موجود ہیں، برطانیہ ہر سال دنیا کے ہزاروں پولیس، ملٹری، پیراملٹری اور لاء آفیسرز کو ٹریننگ بھی دیتا ہے لیکن جب لندن پر برا وقت آیا تو حکومت نے نئے تجربات کے بجائے ایسے شخص کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا جس کے پروفائل میں کامیابی کی ایک کہانی موجود تھی، حکومت نے ولیم بریٹن کو مشاورت کی فیس دی اور بریٹن نے اپنے تجربات کی روشنی میں لندن کو چار ماہ میں محفوظ بنا دیا۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا ہم اس وقت ٹیکنو کریٹس کی دنیا میں رہ رہے ہیں، آج کی دنیا کے سمجھ دار لوگ اپنے مسئلے حل کرنے کے لیے نئے تجربات کے بجائے تجربہ کار لوگوں کی مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، آپ کے لیے شاید یہ بات انکشاف ہو گی، شریف فیملی کی کاروباری اور سیاسی دونوں کامیابیوں کے پیچھے ایک برطانوی اور ایک جرمن ٹیکنو کریٹ کا ہاتھ تھا، نواز شریف کے والد میاں محمد شریف سات بھائی تھے، یہ سات بھائی پاکستان بننے سے قبل ریلوے روڈ لاہور پر صرف ایک بھٹی کے مالک تھے، 1945ء میں ایک انگریز گاہک نے میاں شریف کو بتایا، کراچی میں ایک گورا انجینئر کاسٹ آئرن (دیگی لوہے) کا ماہر ہے، آپ لوگ اگر اسے ملازم رکھ لیں تو آپ لوہے کے کاروبار میں آسمان کو چھو لیں گے۔
میاں شریف کو آئیڈیا پسند آیا، وہ کراچی گئے، انگریز انجینئر کو منہ مانگا معاوضہ دیا، انگریز انجینئر لاہور آیا، اس نے کاسٹ آئرن کی بھٹی لگوائی اور اتفاق گروپ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کا دوسرا بڑا گروپ بن گیا، یہ ٹیکنو کریٹ شریف خاندان کا پہلا محسن تھا، شریف فیملی کا دوسرا محسن ایک جرمن سفارت کار تھا، وہ سیاسی امور کا ماہر تھا، لاہور میں جرمنی کا قونصل جنرل تھا، ذوالفقار علی بھٹو نے جب 1972ء میں اتفاق گروپ کو قومیا لیا تو شریف فیملی ایک ہی رات میں عرش سے فرش پر آگئی، میاں محمد شریف باہمت انسان تھے، انھوں نے حوصلہ نہ ہارا، محنت کی اور گروپ کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کر دیا۔
جرمن قونصل جنرل نے اس دور میں میاں شریف کو مشورہ دیا "آپ اگر مستقبل میں سیاسی حادثوں سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی توجہ دیں " یہ مشورہ بھی میاں شریف کے دل کو لگا، وہ اٹھے، اپنے بڑے بیٹے میاں نواز شریف کا ہاتھ پکڑا اور انھیں اصغر خان کی تحریک استقلال میں چھوڑ آئے، تحریک استقلال بھٹو صاحب کے دور کی پاکستان تحریک انصاف تھی، ہم کہہ سکتے ہیں میاں برادران کی کاروباری کامیابیاں ہوں یا سیاسی معرکہ آرائیاں ان دونوں کے پیچھے ٹیکنو کریٹس ہیں۔
اب سوال یہ ہے ٹیکنو کریٹس اگر اتنے اہم ہوتے ہیں کہ یہ 310 روپے کی ایک عام سی بھٹی کو 15 سال میں ملک کا بڑا صنعتی گروپ اور ایک عام سے کاروباری خاندان کو ایشیا کی کامیاب ترین "پولیٹیکل فیملی" بنا سکتے ہیں اور برطانوی وزیراعظم آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کے نوبل انعام یافتہ ماہرین کو چھوڑ کر ولیم جوزف بریٹن جیسے ٹیکنو کریٹ پولیس آفیسر کو مشیر بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو پھر ہم نندی پور پراجیکٹ، ایل این جی اور میٹرو جیسے اربوں روپے کے منصوبوں کے لیے ٹیکنو کریٹس کی خدمات حاصل کیوں نہیں کرتے؟
ہم باہر سے ماہرین اور تجربہ کار لوگوں کو بلا کر انھیں اپنا مشیر کیوں نہیں بناتے؟ دنیا میں نندی پور جیسے ہزاروں پراجیکٹ کے سیکڑوں تجربہ کار ماہرین موجود ہیں، آپ صرف افغانستان سے ملائیشیا تک دیکھ لیں، آپ کو انٹرنیٹ پر درجنوں ماہرین مل جائیں گے، دنیا میں ایل این جی کا سب سے بڑا خریدار جاپان ہے، یہ ہر سال 4194 بلین کیوبک فٹ گیس درآمد کرتا ہے، جنوبی کوریا 1755 بلین کیوبک فٹ، بھارت 724 بلین اور چین 706 بلین کیوبک فٹ گیس درآمد کرتا ہے، دنیا کے 19 ممالک ایل این جی برآمد کر رہے ہیں، آپ کو ایل این جی برآمد کرنے والے 19 اور درآمد کرنے والے دس ممالک میں ولیم جوزف بریٹن جیسے درجنوں ماہرین مل جائیں گے، دنیا میں سو سال سے میٹرو بھی بن رہی ہیں، ہمارے سامنے احمد آباد میں تین ملین ڈالر، ڈالیان میں ساڑھے چار ملین ڈالر اور استنبول میں میٹرو پر فی کلو میٹر 10 ملین ڈالر خرچ ہوئے جب کہ ہم نے لاہور میں فی کلو میٹر 11 ملین ڈالر اور اسلام آباد میں 20 ملین ڈالر خرچ کیے، ہم سستی اور معیاری میٹرو کے لیے غیر ملکی ماہرین کی مدد لے سکتے تھے۔
یہ لوگ چند لاکھ ڈالر لے لیتے اور یہ ہمیں نندی پور میں 58 ارب روپے جھونکنے سے بچا لیتے، یہ ہمیں سستی گیس خرید دیتے اور یہ ہمیں حسین داؤد کو روزانہ دو لاکھ 72 ہزار ڈالر کا تاوان دینے سے بھی بچا لیتے، آج کے دور میں جب برطانوی وزیراعظم لاء اینڈ آرڈر کے لیے نیویارک کے سابق پولیس چیف کی مدد لیتے ہوئے نہیں شرماتے تو ہم ماہرین سے کیوں شرماتے ہیں، جب اتفاق گروپ اور میاں برادران کی سیاست دونوں ٹیکنو کریٹس کے مشوروں کا نتیجہ ہے تو پھر میاں برادران نندی پور، ایل این جی، میٹرو بس، ڈیمز، احتساب اور کوئک ریسپانس فورس کے لیے غیر ملکی ماہرین کی مدد کیوں نہیں لیتے؟
یہ لوگ اگر صرف اپنے کاروباری منصوبوں کا جائزہ لے لیں اور یہ سوچ لیں کیا یہ ان منصوبوں کے لیے غیر ملکی کمپنیوں اور ماہرین کی مدد نہیں لیتے؟ کیا یہ اپنے کاروبار کے لیے ٹیکنو کریٹس بھرتی نہیں کرتے؟ اگر جواب ہاں ہو تو پھر یہ لوگ بتائیں، یہ نندی پور کے 58 ارب روپے کیپٹن محمد محمود اور میٹرو کے 50 ارب روپے کیپٹن زاہد سعید جیسے ناتجربہ کار لوگوں کے حوالے کیوں کر دیتے ہیں؟ کیا یہ تضاد نہیں، آپ نے ذاتی جیب سے عینک بھی خریدنی ہو تو آپ ماہرین کی مدد لیتے ہیں لیکن جب قوم کے سرمائے کا معاملہ آتا ہے تو آپ کھربوں روپے نااہلوں کے حوالے کر دیتے ہیں، اپنے معاملے میں اتنی سمجھ داری اور قوم کے معاملے میں اتنی سنگ دلی کیوں؟ آخر کیوں؟
قوم آپ کے جواب کی منتظر ہے۔