ہم افطاری کے وقت ولنگٹن پہنچ گئے، شام لال تھی، فضا میں خنکی تھی، ہم گاڑی سے باہر نکلتے تو ٹھنڈی یخ ہوا، محبوبہ کی طرح جسم سے لپٹ جاتی تھی، چہرہ، گردن، ہاتھ اور ٹخنے برف ہو جاتے تھے، ہم واپس بھاگ کر گاڑی میں پناہ لے لیتے تھے، ولنگٹن نیوزی لینڈ کا دارلحکومت اور دوسرا بڑا شہر ہے، شہر پہاڑیوں پر بنا ہے، پہاڑیاں سبز بھی ہیں، ٹیڑھی میڑھی بھی اور طوفانی بھی، یخ تیز ہوا ہر وقت شہر پر دستک دیتی رہتی ہے، شہر کے پاؤں میں ٹھنڈا سمندر ہچکولے لیتا رہتا ہے۔
یہ شمالی نیوزی لینڈ کا آخری شہر بھی ہے، اس کے بعد سمندر ہے اور سمندر کے دوسرے سرے پرنیوزی لینڈ کا جنوبی حصہ۔ بحری جہاز دونوں سروں کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ ہیں، ہم آخری فیری پکڑنا چاہتے تھے اور ہم اس میں کامیاب ہو گئے، فیری بڑی تھی، نچلے حصے میں گاڑیاں، ٹرک اور بارہ بارہ پہیوں والے ٹرالر کھڑے تھے جب کہ دوسری منزل پر مسافروں کے بیٹھنے کی جگہ تھی، فیری میں ڈنر اور کافی کا اچھا اہتمام تھا۔
دنیا کے ہر شہر کی ایک خوشبو، ایک احساس ہوتا ہے، میں اسے "فِیل" کہتا ہوں، شہر لوگوں کی طرح ہوتے ہیں، یہ آپ کو اچھے بھی لگتے ہیں، یہ آپ کو برے بھی لگتے ہیں، یہ آپ کو دھوکا بھی دیتے ہیں، یہ آپ سے وفا بھی کرتے ہیں اور یہ آپ کو اپنے اپنے بھی محسوس ہوتے ہیں، ولنگٹن میں اپنائیت تھی، یہ دل کو کھینچ رہا تھا لیکن ہمارے پاس اس کی دلبری سے لطف اٹھانے کا وقت نہیں تھا چنانچہ ہم فیری میں گھس گئے، ہماری فیری ولنگٹن سے نکلی تو دونوں اطراف عمارتیں تھیں اور عمارتوں کی روشنیاں تھیں، فیری، پانی، یخ ہوائیں، ولنگٹن اور تڑپتی مچلتی عکس چھوڑتی روشنیوں نے مجھے اداس کر دیا، یہ اداسی کھرنڈ کی خارش جیسی تھی، یہ غم سے زیادہ مزہ دے رہی تھی اور میں اور مظہر بخاری دونوں کھرنڈ سہلا رہے تھے اور بھیگتی ہوئی اداسی کا لطف لے رہے تھے۔
فیری تین گھنٹے پانی پر چلی، پانی کے اس چینل کو شارک اور سیلز کا گھر کہا جاتا ہے، ہمارے جہاز کے گرد بھی سیل ہوں گی لیکن ہم اندھیرے کی وجہ سے انھیں دیکھ نہیں پا رہے تھے، پکٹن (Picton) ہماری اگلی منزل تھا، یہ جنوبی نیوزی لینڈ کا پہلا شہر ہے، ہم رات کے لیے یہاں رک گئے، رات بہت ٹھنڈی تھی، درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کم تھا، کھڑکی سے باہر کہرا تھا اور ٹھندی ہوا تھی۔
نیوزی لینڈ میں سردیوں کے لیے خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے، ہوٹلوں کے کمرے گرم ہوتے ہیں، یہ لوگ الیکٹرک کمبل بھی استعمال کرتے ہیں، یہ کمبل عام مل جاتے ہیں، آپ اسے بستر پر بچھاتے ہیں، اس کا سوئچ آن کرتے ہیں اور یہ آپ کا بستر گرم کر دیتا ہے، یہ اچھی اور سود مند ایجاد ہے، ہمیں بھی یہ سردیوں میں گھروں میں استعمال کرنی چاہیے، یہ سستی بھی ہے، بجلی بھی کم استعمال ہوتی ہے اور یہ بستر کو بھی جلد گرم کر دیتی ہے۔
ہم نیوزی لینڈ میں جہاں بھی گئے ہمیں یہ کمبل ملے اور ہم نے یہ استعمال کیے، پکٹن کی صبح اچھی تھی، گھاس پر برف کی تہہ جمی تھی جب کہ فضا ٹھٹھری ہوئی تھی، ہمارا سفر شروع ہو گیا، پکٹن نیوزی لینڈ کی "وائین ڈسٹرکٹ، کہلاتا ہے، شہر کے باہر "ہائی وے، کے دونوں اطراف انگوروں کے سیکڑوں باغات ہیں، آپ کو دور دور تک انگوروں کے باغات اور وائین فیکٹریاں دکھائی دیتی ہیں۔
پاکستان میں اس وقت انگور پک رہے ہیں جب کہ نیوزی لینڈ میں بیلوں پر ابھی تک پتے نہیں آئے، یہاں سردیاں ہیں، یہ انگوروں کا موسم نہیں، یہاں انگور دسمبر جنوری میں پکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اگر مہلت دی تو میں انشااللہ نیوزی لینڈ کی گرمیوں میں بھی یہاں آؤں گا، باغات کے مالکان نے پودوں کو برف، مکھیوں اور پرندوں سے بچانے کے لیے خصوصی اہتمام کر رکھا تھا، کھیتوں پر بڑی بڑی جالیاں لگی تھیں، یہ جالیاں کھل جاتی تھیں اور پورے کھیت کو اپنے حصار میں لے لیتی تھیں، انگوروں کے یہ باغات نو سو کلومیٹر تک ہمارے ساتھ چلتے رہے، یہ کہیں کم ہو جاتے تھے اور کہیں زیادہ لیکن یہ غائب نہیں ہوتے تھے، ہم نے صبح کے وقت سفر شروع کیا تھا۔
ہم رات تک ڈرائیو کرتے رہے، ہمارے سارے سفر کے دوران سورج ہماری دائیں جانب رہا، یہ ہمارے سر سے گزر کر بائیں جانب نہیں آیا، یہ ایک غیر معمولی بات تھی، یہ ثابت کرتی تھی، نیوزی میں سورج مشرق سے مغرب کی طرف نہیں جاتا، یہ سروں اور چھتوں کے اوپر سے نہیں گزرتا، یہ دائیں بازو پر طلوع ہوتا ہے اور دائیں بازو ہی غروب ہو جاتا ہے، ہم نے اللہ کے اس معجزے کی زیارت کی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، راستے میں مختلف جگہوں پر "سیل، سمندر سے نکل کر چٹانوں پر بیٹھی تھیں، ان کے بچے بھی ان کے ساتھ تھے، سیل عجیب مخلوق ہے، یہ بیک وقت پانی اور خشکی کا جانور ہے، یہ بھینس نما مچھلی ہوتی ہے، یہ پانی میں بھی رہتی ہے اور خشکی پر بھی، بچوں کو دودھ پلاتی ہے، انسانوں سے خائف نہیں ہوتی، یہ ہم سے جلد مانوس ہو جاتی ہے، یہ ذہنی لحاظ سے انسان کے قریب ہے چنانچہ یہ انسانی حرکتیں اور اشارے سیکھ جاتی ہے۔
میں نے دنیا کے مختلف حصوں میں "واٹر شوز" میں سیل دیکھیں لیکن انھیں یوں کھلے آسمان تلے دیکھنے کا موقع پہلی بار ملا، ہم نے انھیں چٹانوں پر چڑھتے بھی دیکھا اور اترتے بھی، یہ چل کر سڑک کے کنارے تک آجاتی تھیں، ہم تصویریں بنانے کے لیے ان کے قریب پہنچے تو یہ ہمیں تھوتھنی اٹھا کر غور سے دیکھنے لگیں، یہ ہم سے خائف نہیں تھیں اور ہم ان سے خوفزدہ نہیں تھے، کیوں؟ ہمیں اس کی وجہ سمجھ نہیں آئی، راستے میں شیویٹ Cheviot کا گاؤں بھی آیا اور ایش برٹن کا قصبہ بھی۔ یہ گاؤں شیویٹ فیملی نے 1890ء میں آباد کیا تھا، یہ لوگ برطانیہ سے آئے، زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا اور اس کی آباد کاری میں مصروف ہو گئے، گاؤں میں آج بھی ان کی نسل آباد ہے، لوگوں نے بزرگ کے نام پر ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی بنا رکھا ہے، یہ پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک ایسا خوبصورت گاؤں ہے جو ہم کیلنڈروں، ویوکارڈز اور فلموں میں دیکھتے ہیں، ہم چند لمحوں کے لیے گاؤں میں رک گئے۔
سڑک کی دوسری طرف چھوٹا سا چرچ تھا، میں نے چرچ کا دروزہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا، اندر خنکی، سناٹا اور اداسی تھی، میں چرچ کے بینچ پر بیٹھ گیا اور سوچا میں شاید اس چرچ کاپہلا مسلمان ہوں، یہ سوچتے ہی میرے اندر ایک عجیب جذبہ ہچکولے لینے لگا، میں اٹھا، قربان گاہ پر چڑھا اور سورت فاتحہ کی تلاوت شروع کر دی، میں نے یہ کیوں کیا؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، ایشن برٹن اس روڈ کا آخری قصبہ تھا، ایش برٹن کے بعد پہاڑی سلسلہ شروع ہو گیا، ایش برٹن بھی ایک خوبصورت ٹاؤن تھا، تمام شہری سہولتوں سے آراستہ پرسکون ٹاؤن۔ قصبے کے بعد ہمارا خطرناک سفر شروع ہو گیا، ہم نے چڑھائی چڑھنا شروع کر دی اور چڑھائی کے ساتھ ہی برفیلا علاقہ شروع ہو گیا، ہمارے دائیں بائیں برف پوش پہاڑ تھے، برف تازہ تھی، نیوزی لینڈ میں رات کا سفر خطرناک ہوتا ہے، رات کے وقت درجہ حرارت گرنے سے سڑک پر برف کی باریک تہہ جم جاتی ہے، مقامی لوگ اسے "بلیک آئس" کہتے ہیں۔
یہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ یہ ٹائرز کی سڑک پر گرفت کمزور کر دیتی ہے اور گاڑیوں کے سلپ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، ہم نے جب ایش برٹن کراس کیا تو ہمیں چند گاڑیاں آگے جاتی نظر آئیں، ہم نے بھی ہمت پکڑی اور ان کے پیچھے چل پڑے، ہمیں آگے جا کر اندازہ ہوا ہم ٹھیک ٹھاک رسک لے چکے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ہمارے آگے جانے والی گاڑیاں جیپیں بھی تھیں اور یہ لوگ بھی مقامی تھے جب کہ ہم کار چلا رہے تھے اور ہمیں راستوں کا علم بھی نہیں تھا لیکن ہم چل پڑے اور سوچل پڑے۔ حکومت نے ہر چڑھائی اور اترائی پر بجری اور نمک کی کنکریاں پھینک رکھی تھیں، یہ کنکریاں آخر تک ہمارے ساتھ رہیں، یہ گاڑیوں کو پھسلنے سے بچا رہی تھیں، یہ حکومت کی طرف سے خصوصی بندوبست تھا، حکومت اس سارے علاقے پر نظر رکھتی ہے، برفباری بالخصوص صبح کے وقت جب سڑک پر بلیک آئس ہوتی ہے۔
حکومت روڈ ٹریفک کے لیے بند کر دیتی ہے اور یہ روڈ اس وقت تک نہیں کھلتا جب تک سڑک کلیئر نہیں ہو جاتی، حکومت سڑکوں سے برف بھی ہٹاتی رہتی ہے جب کہ خطرناک اترائیوں اور چڑھائیوں پر کنکریاں بھی ڈال دی جاتی ہیں، ہم ایک ایسی روڈ پر چل رہے تھے جس کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے برف تھی اور برف سے ذرا سے فاصلے پر اندھیرا تھا، ہماری ہم سفر گاڑیاں ایک ایک کر کے ہمارا ساتھ چھوڑتی گئیں، یہ راستے کے ہوٹلوں اور موٹلوں میں رکتی چلی گئیں لیکن ہم آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ سڑک پر صرف ہم رہ گئے، اب وہاں کیا تھا؟ وہاں اب برف تھی، تیز یخ ہوا تھی، اندھیرا تھا اور خوف تھا اور برف کے اس خوفناک ریگستان میں ہماری گاڑی جگنو بن کر چمک رہی تھی اور شہتوت کے کیڑے کی طرح آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی، شیشے کی دوسری طرف برف کا طوفان تھا اور ہم دونوں بزدل بہادر بنے کبھی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے اور کبھی باہر برف کے طوفان کو متوحش نظروں سے تکتے تھے۔
ہم دونوں سفیدی کے اس جہنم میں بہادر بھی تھے اور بزدل بھی۔ ہم بہاد کیوں تھے؟ ہم بہادر اس لیے تھے کہ ہم نے ہمت نہیں ہاری، ہم آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے اور ہم بزدل کیوں تھے؟ ہم بزدل اس لیے تھے کہ خوف سے ہماری بری حالت تھی، ہم دل ہی دل میں اس سفر کو اپنا آخری سفر سمجھ رہے تھے، ہمارے خوف میں اس وقت اضافہ ہو جاتا تھا جب ہم سڑک کے کنارے کھڑی تباہ حال گاڑیاں دیکھتے یا پھر سڑک کے کنارے آویزاں وارننگ پڑھتے، مظہر بخاری اچھا ڈرائیور ہے لیکن راستہ بھی اجنبی تھا، ملک بھی ہمارا نہیں تھا، سردی بھی تھی، برف بھی تھی، رات بھی اندھیری تھی، ہم بھی مسلسل آٹھ گھنٹے سے ڈرائیونگ کر رہے تھے اور ہمارے آگے پیچھے بھی کوئی گاڑی نہیں تھی، ہم نے اگلے پڑاؤ پر ڈیرے ڈالنے کا فیصلہ کر لیا، ہمیں سامنے ایک چھوٹا سا گاؤں نظر آیا، گاؤں کا نام اوماراما تھا۔
سڑک پر موٹل تھا، ہم نے موٹل میں کمرہ لے لیا، موٹل تقریباً برف میں دفن ہو چکا تھا لیکن کمرے بہت گرم تھے، استقبالیہ پر کھڑی خاتون نے بتایا کل رات یہاں کا درجہ حرارت منفی بیس تھا، گاؤں کا سارا پانی جم گیا تھا، ہمارے پاس پینے تک کا پانی نہیں بچا تھا، گاؤں میں صرف تین سو لوگ رہتے ہیں، گرمیاں اچھی ہوتی ہیں لیکن سردیوں میں گاؤں میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے، ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا، کمرے میں داخل ہوئے اور ہمارے منہ سے موٹل بنانے والے کے لیے دعائیں نکلنے لگیں، کیوں؟ کیونکہ موٹل کے مالک نے کمروں میں نہ صرف تمام سہولتیں رکھی تھیں بلکہ اس نے گاہکوں کے آرام کے لیے کمروں کے ہیٹر جلا رکھے تھے، کمرہ گرم تھا، ہم نے وہ رات اوماراما میں بسر کرنا تھی، کیوں؟ کیونکہ کوئینز ٹاؤن ابھی دو سو کلو میٹر دور تھا۔ "ہنوز کوئینز ٹاؤن دور است"۔