Friday, 22 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Raikot Se Fairy Meadow Tak

    Raikot Se Fairy Meadow Tak

    ہم چلاس کی گرم اور بے آرام رات کے بعد اگلی صبح رائے کوٹ برج روانہ ہو گئے، رائے کوٹ برج چلاس سے 58 کلومیٹر دور ہے لیکن سڑک کی خرابی کی وجہ سے ہم نے یہ فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا، راستے میں وہ مقام بھی آیا جہاں 28 فروری 2012ء کو نامعلوم لوگوں نے بس روک کر مسافروں کو نیچے اتارا، ان کے شناختی کارڈ چیک کیے، ان میں سے اہل تشیع کو الگ کیا، ایک قطار میں کھڑا کیا اور گولی مار دی، اس سانحے میں 18 لوگ مارے گئے، حملہ آوروں نے اس کے بعد گاڑیوں کو آگ لگائی اور انھیں دھکا دے کر دریا میں پھینک دیا، ہم نے اپنی آنکھوں سے جلی ہوئی بس کا ڈھانچہ دریا کے کنارے گرا ہوا دیکھا۔

    ہم سڑک کے اس موڑ سے گزرتے ہوئے حیران تھے، انسان نظریاتی اختلافات میں کہاں تک چلا جاتا ہے؟ یہ قتل کو عبادت سمجھ لیتا ہے، مجھے یقین ہے یہ لوگ جن مقدس ہستیوں کے نام پر قتل و غارت گری کر رہے ہیں وہ ہستیاں بھی ان سے خوش نہیں ہوں گی کیونکہ مذہب انسان کو درندگی سے انسانیت کی طرف لاتا ہے لیکن جو انسان اسے دوبارہ درندگی کی طرف لے جاتے ہیں وہ انسان اللہ اور اس کی برگزیدہ ہستیوں کے مقرب نہیں ہو سکتے، ہم بہرحال جلی گاڑیوں کے موبل آئل کے نشانوں اور ٹوٹے ہوئے شیشوں کی کرچیوں کے قریب سے گزرتے ہوئے رائے کوٹ برج پہنچ گئے، شاہراہ قراقرم رائے کوٹ کے مقام سے دیوہیکل پل کے ذریعے دائیں پہاڑوں سے بائیں پہاڑوں کے بدن پر منتقل ہو جاتی ہے اور دریائے سندھ بھی اس کے ساتھ ہی دائیں طرف شفٹ ہو جاتا ہے۔ یہ مقام فیری میڈوز کا بیس کیمپ ہے، یہاں سے اصل سفر شروع ہوتا ہے۔

    رائے کوٹ برج پر درمیانے درجے کے چند ہوٹل اور ریستوران بھی موجود ہیں اور یہاں کرائے پر گیراج بھی مل جاتے ہیں، عام گاڑیاں یہاں سے اوپر نہیں جا سکتیں چنانچہ لوگ اپنی گاڑیاں یہاں چھوڑ جاتے ہیں اور باقی سفر مقامی جیپوں پر طے ہوتا ہے، ہم نے اپنی گاڑیاں واپس چلاس بھجوا دیں اور سامان مقامی جیپوں پر رکھ دیا، رائے کوٹ برج پر مقامی لوگ دوسری جنگ عظیم کی پرانی جیپوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، یہ لوگ فیری میڈوز اور تاتو گائوں سے تعلق رکھتے ہیں، اس سڑک پر ان کا ہولڈ ہے، آپ ان کی مدد اور رضامندی کے بغیر فیری میڈوز نہیں جا سکتے، یہ لوگ اس سڑک کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں چنانچہ آپ رائے کوٹ برج پر ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، ان لوگوں نے جیپوں کی آمد و رفت کا باقاعدہ سسٹم بنا رکھا ہے، یہ اپنی اپنی باری پر مسافر اٹھاتے ہیں، یہ اس باری کو "نمبر" کہتے ہیں،

    انھوں نے ریٹس بھی طے کر رکھے ہیں، یہ چودہ کلومیٹر سفر کا فی جیپ چھ ہزار روپے چارج کرتے ہیں، ہمیں شروع میں یہ ریٹ زیادہ لگا لیکن ہم جب تاتو گائوں پہنچے تو ہمیں یہ لوگ اس کرائے کے حق دار محسوس ہوئے، رائے کوٹ برج سے تاتو گائوں تک سڑک کے نام پر ایک پل صراط ہے جس پر زندگی اور موت کے درمیان صرف آدھ انچ کا فاصلہ ہوتا ہے، یہ سڑک ہزاروں فٹ اونچے پہاڑوں کے درمیان چھوٹے بڑے پتھروں کا خوفناک راستہ ہے، آپ کے دائیں ہاتھ پر آسمان تک پہاڑ ہوتے ہیں، بائیں جانب ہزاروں فٹ کی گہرائی میں طوفانی نالا بہتا ہے اور اس نالے کے بعد دوسرا ہزاروں فٹ اونچا پہاڑ شروع ہو جاتا ہے اور آپ کی قدیم جیپ پتھروں پر ہچکولے لیتی ہوئی اوپر کی طرف سرکتی ہے، سفر کے دوران پتھر ٹائروں کے نیچے آتے ہیں، اپنی جگہ چھوڑتے ہیں اور ہوا میں اچھلتے ہوئے ہزاروں فٹ تک ٹھوکریں کھاتے ہوئے نالے کی جھاگ میں گم ہو جاتے ہیں، یہ بے آب و گیاہ پہاڑ ہیں جن پر سبزے، پانی اور سائے کا دور دور تک کوئی نشان نہیں، آپ پانی کو دور پہاڑوں کے قدموں میں بہتا ہوا دیکھ سکتے ہیں لیکن آپ اس تک پہنچ نہیں سکتے، آپ کے اوپر تیز گرم جھلستا ہوا سورج چمکتا ہے،

    نیچے چھوٹے چھوٹے پتھر جیپ کے ٹائروں سے الجھتے ہیں اور بائیں ہاتھ موت آپ کے ساتھ ساتھ دوڑتی ہے اور آپ خوف کے اس میدان جنگ میں قدیم جیپ اور بے حسی کی حد تک لاپرواہ ڈرائیور کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، ہم دو جیپوں میں سوار آگے پیچھے اس سڑک پر رواں دواں تھے اور ہمارے دل سینے کے پنجرے سے آزاد ہونے کے لیے پسلیوں پر مسلسل ٹھوکریں مار رہے تھے اور ہم ان ٹھوکروں کی صدا کنپٹیوں تک میں محسوس کر رہے تھے، یہ میری زندگی کا خطرناک ترین سفر تھا، میں نے اس سفر کے دوران سکون اور اطمینان کا ایک سانس تک نہیں لیا، میں بار بار اپنی جیپ اور اپنے آگے چلتی دوسری جیپ کی طرف دیکھتا تھا اور سوچتا تھا، میں کتنا بے وقوف ہوں، میں پورے خاندان کے مردوں کو لے کر موت کے اس تنے ہوئے رسے پر آ گیا ہوں، یہ سوچ ہر دوسرے منٹ بعد میری ریڑھ کی ہڈی پر آبشار کی طرح اوپر سے نیچے بہتی تھی اور میں سیٹ پر بے چینی سے کروٹیں بدلتا تھا لیکن ہمارا ڈرائیور ہر قسم کے خوف سے آزاد جیپ آسمان کے رخ پر چڑھاتا جا رہا تھا۔

    رائے کوٹ سے تاتو گائوں تک تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے، تاتو اس سفر کا واحد اسٹاپ اوور ہے، یہ چھوٹا سا گائوں ہے جو سلفر کے گرم چشمے کی وجہ سے تاتو (گرم) کہلاتا ہے، مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے گائوں میں ایک ایسا گرم چشمہ ہے جس کے پانی میں اگر انڈہ رکھا جائے تو یہ پانچ منٹ میں ابل جاتا ہے، طوفانی نالہ تاتو پہنچ کر گائوں کے لیول پر آ جاتا ہے یا پھر گائوں چڑھائی چڑھ کر نالے کے لیول پر آباد ہے۔ بہرحال جو بھی ہے تاتو خوف کے سفر میں امن کا بہت بڑا جزیرہ ہے اور ہم نے اس جزیرے پر پہنچ کر اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ دنیا کی یہ خطرناک ترین سڑک بریگیڈیئر اسلم نے بنوائی تھی اور مقامی آبادی اپنے وسائل سے اس کی نگہداشت کر رہی ہے، یہ خود ہی پتھر جوڑ کر شکستہ سڑک کی مرمت کر لیتے ہیں، 2001ء میں اس علاقے میں زلزلہ آیا تھا

    جس کے نتیجے میں تاتو گائوں، سڑک اور پل ٹوٹ گئے تھے اور دنیا سے علاقے کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا، یہ رابطہ کئی سال تک منقطع رہا بعدازاں یونیورسٹی آف لاہور نے تاتو گائوں کے نزدیک پل بنا دیا اور یوں مسافروں کی فیری میڈوز تک دوبارہ رسائی شروع ہو گئی، تاتو گائوں سے دس منٹ بعد سڑک ختم ہو جاتی ہے، ہماری جیپوں نے ہمیں وہاں اتار دیا، ہمارا آدھا سفر ابھی باقی تھا، یہ سفر اب ذاتی پائوں اور ٹانگوں پر طے ہونا تھا، سڑک کے " اینڈ پوائنٹ" پر پورٹر اور گھوڑے دستیاب تھے لیکن گھوڑوں کا سفر پیدل سفر سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اگلا راستہ صرف دو فٹ چوڑا ہے اور گھوڑے کی معمولی سی غلطی آپ اور گھوڑے دونوں کو ہزاروں فٹ گہری کھائی کا رزق بنا سکتی ہے، ہم نے سامان پورٹرز کو اٹھوایا اور اپنے اپنے "ریک سیک" اٹھا کر اس پتلے راستے پر چلنا شروع کر دیا، یہ راستہ جیپ ٹریک سے بھی زیادہ خطرناک اور مشکل تھا، یہ سیدھی چڑھائی تھی، فضا میں آکسیجن کی کمی تھی، دائیں بائیں ہولناک پہاڑ تھے، نیچے کھائی تھی، کھائی میں نالہ بہہ رہا تھا اور نالے کی شوریدہ آواز ماحول میں مزید خوف گھول رہی تھی، میں مستقل ایکسرسائز کرتا ہوں اور میرا خیال ہے میرا اسٹیمنا بہت اچھا ہے لیکن وہ چڑھائی میری اوقات سے کہیں زیادہ تھی چنانچہ میری ٹانگیں اور میرے پھیپھڑے دس منٹ میں جواب دے گئے اور میں باقی سفر بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر طے کرنے پر مجبور ہو گیا۔

    میرے بیٹے نے میرا بیگ بھی اٹھا لیا، یہ دو بیگ اور مجھے تینوں کو گھسیٹنے پر مجبور ہو گیا، یہ مشکل سفر تھا لیکن سفر کے مناظر انتہائی خوبصورت تھے، ہم جنگل میں پہنچ چکے تھے، ہمارے دائیں بائیں چیڑھ اور پائن کا جنگل تھا، ہمارے بایاں پہاڑ وادی کی شکل اختیار کر رہا تھا اور یہ وادی اور پہاڑ کی اترائی پر بھی گھنا جنگل تھا، ہمیں دور آسمان کی سرحدوں پر نانگا پربت کی چوٹی بھی نظر آ رہی تھی، ماحول میں خنکی بھی آ چکی تھی اور ہمارے راستے میں جگہ جگہ پانی کے جھرنے بھی تھے، یہ جھرنے دائیں جانب کے پہاڑوں سے نکل کر بائیں جانب گہرائی میں گر رہے تھے، ہم بائیں جانب کے پہاڑوں سے بھی آبشاریں گہرائی میں گرتی ہوئی دیکھ رہے تھے، ماحول کی خوبصورتی آہستہ آہستہ خوف کی جگہ لے رہی تھی اور ہم پریشانی سے تحیر کی دنیا میں اتر رہے تھے،

    ہم جنت کے دروازے پر کھڑے تھے، زمین کی اس جنت کے دروازے پر جس کو ان انگریزوں نے پریوں کی چراگاہ (فیری میڈو) کہا تھا جن کا ہر شہر، ہر وادی اور پہاڑ کا ہر بیس کیمپ انسانی صناعی کا شاہکار ہے، جنہوں نے اپنی زمین کے ہر ٹکڑے کو جنت بنا رکھا ہے، یہ لوگ اگر غربت، بیماری، جہالت اور گندگی کے شکار ہمارے ملک کے ایک حصے کو فیری میڈو کا خطاب دے رہے ہیں تو پھر یقیناً اس جگہ میں کوئی ایسی خوبی ضرور ہو گی جو یورپ میں نہیں اور جس نے انگریزوں تک کو مبہوت کر دیا تھا اور یہ لوگ بھی بے تاب ہو کر اسے پریوں کا مسکن کہنے پر مجبور ہو گئے تھے، وہ خوبی کیا تھی اس سوال کا جواب ایک موڑ کے فاصلے پر تھا اور ہم بڑی تیزی سے اس موڑ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ (جاری ہے)

    About Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.