Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Raye (2)

Raye (2)

میری رائے میں دوسری تبدیلی 2001ء میں آئی، میں 2001ء تک کاروباری طبقے، صنعت کاروں، سرمایہ کاروں اور دولت مندوں سے نفرت کرتا تھا، میں انھیں ظالم بھی سمجھتا تھا، میں سمجھتا تھا یہ لوگ پرافٹ کے لیے ظلم کی تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے معاشرہ منقسم ہو رہا ہے، غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر، امیر سے امیر تر۔ میں اس اس زمانے میں امراء کے درو دیوار ہلا دینا چاہتا تھا اور دہقان کے رزق کے راستے میں حائل گندم کے تمام خوشے جلا دینا چاہتا تھا لیکن پھر 2001ء میں مجھ سے ایک غلطی ہو گئی اور اس غلطی نے سرمایہ کاری اور سرمایہ کاروں کے بارے میں میری رائے بدل دی اور مجھے اس طبقے سے نفرت کی بجائے ہمدردی ہو گئی، میں نے 2001ء میں کاروبار شروع کیا۔

میرے بھائی نے یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران ایک چھوٹی سی کمپنی بنائی، دفتر کھولا اور مجھے " تبرکاً" اس کا چیف ایگزیکٹو بنا دیا، میں دفتر جانے لگا اور مجھے اس وقت معلوم ہوا، پاکستانی معاشرے میں پیسہ کمانا بالخصوص رزق حلال کمانا انتہائی مشکل ہے، آپ سسٹم، سرکاری محکموں اور معاشرے کی اپروچ کو ایک طرف رکھ دیں، آپ صرف ہیومن ریسورس کا ایشو لے لیں، آپ کو صرف یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے کم از کم دو زندگیاں چاہئیں، ہمارے تعلیمی ادارے طالب علموں کو صرف ڈگری دے رہے ہیں، یہ ان میں صلاحیت پیدا نہیں کرتے، یہ انھیں کام کی عادت بھی نہیں ڈالتے اور یہ انھیں نوکری کرنے کا فن بھی نہیں سکھاتے چنانچہ آپ نوجوانوں کی ڈگریاں، پوزیشنیں اور نمبر دیکھ کر انھیں ملازم رکھ لیتے ہیں مگر انھیں کام نہیں آتا، آپ ان پر محنت کرتے ہیں، آپ انھیں کام سکھاتے ہیں اور یہ کام سیکھتے ہی مخدوم ہو جاتے ہیں، انھیں گاڑی بھی چاہیے ہوتی ہے، ڈرائیور بھی، چپڑاسی بھی، اسسٹنٹ بھی، اے سی بھی، ہیٹر بھی، لمبی چھٹیاں بھی، چھ ہندسوں میں تنخواہ بھی، میڈیکل انشورنس بھی اور مکمل اختیارات بھی، آپ انھیں یہ سب کچھ دے دیتے ہیں لیکن ایک دن اچانک فون آتا ہے اور یہ آپ کو اطلاع دیتے ہیں، مجھے نئی نوکری مل گئی ہے اور میں کل سے آفس نہیں آ رہا۔

یہ اطلاع بھی پانچ فیصد لوگ دیتے ہیں، پچانوے فیصد مہربان اطلاع تک دینے کا تکلف نہیں کرتے، یہ چھٹی لے کر غائب ہو جاتے ہیں اور آپ کو دس پندرہ دن بعد کوئی دوسرا شخص بتاتا ہے آپ کا فلاں ملازم فلاں کمپنی میں کام کر رہا ہے، آپ پریشان ہو کر اسے فون کرتے ہیں تو دوسری طرف سے آواز آتی ہے " آپ کا مطلوبہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں " اور آپ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، آپ کے ملازم دو، دو ماہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھے رہیں گے لیکن آپ کو جوں ہی کوئی آرڈر ملے گا یا کام کا وقت آئے گا یہ لوگ بیمار ہو جائیں گے، ان کی بہن یا بھائی کی شادی آ جائے گی یا ان کی بیوی زچگی کے عمل سے گزرنے لگے گی یا ان کی گاڑی خراب ہو جائے گی یا پھر یہ تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیں گے اور آپ اپنے ہاتھ پر "چک" مارنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے۔

ہماری فیکٹریوں، دفتروں اور ورک پلیسز پر سہولتوں کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے، وہ بھی انتہائی تکلیف دہ ہے، آپ ملازمین کے لیے اے سی لگواتے ہیں، یہ اے سی چلتا چھوڑ کر گھر چلے جاتے ہیں، آپ کا کوئی ورکر اے سی بند کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرے گا، ہیٹر جلتے جلتے پگھل جاتے ہیں مگر کوئی انھیں بند نہیں کرتا، واش روم کی ٹوٹیاں کھلی چھوڑ دیں گے، کیچڑ والے بوٹ لے کر قالین پر پھریں گے، کوئی شخص لائٹس آف نہیں کرے گا، کمپیوٹر چلتے رہیں گے، دفتر کے ٹی وی آن رہیں گے، اگر بارش کا پانی اندر آ رہا ہے تو کوئی اٹھ کر کھڑکی بند نہیں کرے گا، آپ اگر دفتر میں چائے، کافی یا کھانے کی مفت سہولت دے رہے ہیں تو کچن میں لڑائیاں شروع ہو جائیں گی، پورا دفتر کچن کے ملازمین سے بدتمیزی کرے گا، لوگ منرل واٹر سے منہ دھوئیں گے اور دیوار پر ہاتھ رکھ کر سیڑھیاں چڑھیں گے، آپ پاکستان کے کسی دفتر کی سیڑھیاں اور بجلی کے بٹن دیکھئے آپ کو کسی سیڑھی کی دیوار اور بجلی کے بٹن صاف نہیں ملیں گے اور یہ تمام گند دفتر کے پڑھے لکھے ملازم مچاتے ہیں، آپ دفتر میں جنریٹر لگا دیتے ہیں تو کوئی شخص اس کا آئل تبدیل نہیں کرے گا، آپ ملازمین کو گاڑیاں دیتے ہیں تو یہ انھیں دو مہینے میں کھنڈر بنا دیں گے، ڈرائیور گاڑی کے پارٹس تک بیچ دیں گے، آپ اگر شو روم چلا رہے ہیں تو آپ کے سیلز مین گاہکوں کے ساتھ بدتمیزی کریں گے، اوور بلنگ کریں گے، ان کا سامان چوری کر لیں گے اور آپ کے گوداموں سے مال غائب کریں گے اور آپ کے پاس رونے دھونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔

آپ اب سسٹم کی طرف آئیے، آپ اگر کوئی چیز امپورٹ کر رہے ہیں تو آپ 35 محکموں کے 35 سو قصابوں کے ہتھے چڑھ جائیں گے، آپ کو مال خریدنے، پاکستان لانے اور کسٹم کلیئر کرانے کے لیے اپنے جیسے دس لوگ چاہئیں، آپ کا مال پورٹ پر پڑا پڑا ایکسپائر ہو جائے گا اور آپ کے پاس بلڈ پریشر کی دوائیں کھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا، آپ مال کلیئر کرا لیں تو آپ کو ٹرک اور ٹرالر نہیں ملتے، یہ مل جائیں تو کوئی نہ کوئی لانگ مارچ یا سیلاب انھیں روک کر بیٹھ جاتا ہے، مال کارخانے میں پہنچ جائے تو بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع ہو جاتی ہے، آپ اس کا بندوبست کر لیں تو ملازمین ہڑتال پر چلے جاتے ہیں، آپ انھیں منا لیں تو یہ کوالٹی نہیں دیتے، کوالٹی مل جائے تو آرڈر لیٹ ہو چکا ہوتا ہے۔

آپ یہ مسئلہ بھی حل کر لیں تو مال کو بیرون ملک یا مارکیٹ تک پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے اور آپ اگر یہ بھی کر لیں تو لوگ آپ کے پیسے دبا کر بیٹھ جاتے ہیں، آپ کو وصولیاں کرنے کے لیے جوتے گھسیٹنا پڑ جاتے ہیں، آپ اگر اس مرحلے سے بھی گزر جائیں تو ٹیکس کے محکمے ٹوکے لے کر آپ کے سر پر کھڑے ہو جاتے ہیں، آپ قانون اور قاعدے کے مطابق چلنا چاہیں تو یہ آپ کو اسپتال یا پاگل خانے تک لے جاتے ہیں اور آپ اگر ان تمام مراحل سے بچ جائیں تو آپ کی کامیابی کو صفر کرنے کے لیے آپ کا کوئی سالہ، کوئی بہنوئی، کوئی بیٹا یا کوئی نالائق بھائی سامنے آ جائے گا، آپ کی غیر موجودگی میں کوئی ایک رشتے دار کوئی اندھی ڈیل کرے گا اور آپ کا تورا بورا بن جائے گا۔

ہم لوگوں نے شروع میں گورنمنٹ سیکٹر کے ساتھ کام شروع کیا، پتہ چلا اس کے لیے عمر خضر چاہیے، آپ چالیس چالیس پریذنٹیشن دیتے ہیں لیکن کام کا فیصلہ کسی اور جگہ ہوتا ہے، میں نے ماحولیات کی وزارت میں سترہ میٹنگز بھگتائیں، اس دوران تین سیکریٹری تبدیل ہو گئے لیکن کام شروع نہیں ہوا اور یہ کام بھی غیر ملکی امداد سے ہونا تھا، ہماری حکومت کا اس میں ایک دھیلا خرچ نہیں ہونا تھا، وزیر بھی کام کرنا چاہتا تھا مگر فائلیں مکمل نہیں ہو رہی تھیں چنانچہ اس دوران ڈونر مایوس ہو کر بھاگ گیا، ہم نے گورنمنٹ سیکٹر کا کام بند کر دیا، ہم پرائیویٹ سیکٹر میں چلے گئے، وہاں کے حالات بھی مختلف نہیں تھے، یہ لوگ بھی چلا چلا کر مار دیتے تھے، تین تین ماہ تک پے منٹس نہیں ہوتی تھیں، آپ ٹیم پوری کرتے تھے تو آپ کا ایگری منٹ کینسل ہو جاتا تھا چنانچہ ہم نے پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ بھی کام بند کر دیا اور ہم پاکستان میں انٹرنیشنل فرموں اور غیر ملکی کمپنیوں کو سروسز دینے لگے، ہم باہر کے اداروں کے لیے ڈیزائن اور سافٹ ویئر بنانے لگے اور یوں ہماری ٹینشن پچاس فیصد کم ہو گئی لیکن آج بھی جب صبح آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے فلاں ورکر بھاگ گیا ہے اور ساتھ ہی دو گورے کلائنٹس بھی لے گیا ہے اور ہمیں اب وصولی کے لیے فلاں ملک میں وکیل کرنا پڑے گا یا پھر فلاں مہربان نے کمپیوٹر نیٹ ورک میں وائرس پھینک دیا ہے اور ہمیں سسٹم کو دوبارہ ٹریک پر لانے کے لیے دو دن چاہئیں یا پھر ڈیزائن اور سافٹ ویئر چوری ہو چکے ہیں اور آپ چور کو نہیں پکڑ سکتے کیونکہ اس کا چچا ایف آئی اے میں ہے اور اس نے یہ حرکت چچا کی مرضی سے کی چنانچہ ہم پچھلے بارہ برسوں سے ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس کی ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی۔

ہم روز اپنے آپ سے اپنا قصور پوچھتے ہیں اور ہمیں کوئی جواب نہیں ملتا، ہم اپنے کام کو مختصر سے مختصر کرتے جا رہے ہیں، ہم صرف ٹینشن سے بچنے کے لیے اپنے ملازمین اور کام میں اضافہ نہیں کرتے، ان بارہ برسوں کے تجربے نے صنعت کاروں، سرمایہ داروں، دولت مندوں اور کاروباری طبقے کے بارے میں میری رائے تبدیل کر دی، یہ مجھے اب مظلوم نظر آتے ہیں اور میں ان سے نفرت کرنے والے ہر شخص کو مشورہ دیتا ہوں آپ صرف دو لوگوں کو ملازم رکھ لیں، آپ کو اگر دو ماہ میں ملک کے تمام سرمایہ کار مظلوم دکھائی نہ دیے تو آپ میرا نام بدل دیجیے گا اور میں ساتھ ہی ساتھ ان تمام کاروباری شخصیات سے بھی ملتا ہوں جو ملک میں مدتوں سے کاروبار کر رہے ہیں، میں ان سے ملازمین کی تعداد پوچھتا ہوں، اس کے بعد ان سے پوچھتا ہوں آپ کو کتنے ہارٹ اٹیکس ہو چکے ہیں، آپ کتنے عرصے سے بلڈ پریشر کے مریض ہیں اور آپ کو پاگل پن کے دورے کتنے عرصے سے پڑ رہے ہیں اور اگر وہ مسکرا کر خود کو صحت مند قرار دے دے تو میں اس کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیتا ہوں کیونکہ اس ملک میں کاروباری ہونا، دولت مند ہونا اور اس کے بعد صحت مند ہونا یہ کمال ہے اور یہ کمال کرنے والے نشان حیدر کے حق دار ہیں، یہ زندہ شہید ہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.