پاکستان بنا تو ملک میں دو ہی کاروبار تھے، پراپرٹی کلیم اور پرمٹ۔ بھارت سے آنے والے پاکستانی کراچی اور لاہور میں بحالیات کے محکمے میں جاتے، بھارت میں موجود اپنی پراپرٹی کے جھوٹے سچے کلیم جمع کراتے تھے اور حکومت کلیم کی روشنی میں انھیں پاکستان میں زمین جائیداد الاٹ کر دیتی تھی، یہ جائیداد انڈیا نقل مکانی کرنے والے ہندوئوں، سکھوں اور پارسیوں کی متروک املاک ہوتی تھی، یہ اس دور کا مقبول ترین کاروبار تھا اورلاکھوں لوگوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا، لوگوں نے جعلی کلیم میں یہ تک لکھ کر دے دیا " ہمارے رام پور میں پودینے کے باغ تھے" اور حکومت نے اس دعوے کے بدلے انھیں اصلی باغ الاٹ کر دیے، اس دور میں کلیم بنانے، کلیم کی تصدیق کرنے اور بیان حلفی تک لکھنے والے لکھ پتی ہو گئے، دوسرا کاروبار لومز کے پرمٹ تھا، برطانوی دور سے دھاگے اور کپڑے کی صنعت پر حکومت کی اجارہ داری تھی، حکومت لومز لگانے کے باقاعدہ پرمٹ جاری کرتی تھی، یہ پرمٹ بازار میں ہزاروں روپے میں بک جاتے تھے، 1947ء کے ایک ہزار روپے آج کے دس لاکھ روپے کے برابر تھے، آپ اس دور میں پانچ دس ہزار روپے میں صدر کے علاقے میں بڑے سائز کا مکان خرید سکتے تھے۔
اس دورمیں صنعت کار پرمٹوں کے لیے سارا سارا دن وزراء اور سیکریٹریوں کے دفتروں کے سامنے بیٹھے رہتے تھے، قدرت اللہ شہاب اس دور میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہے، یہ اپنے دوستوں کو پرمٹ جاری کراتے رہتے تھے، شہاب صاحب نے درجنوں لوگوں کو لومز کے پرمٹ جاری کرائے، شہاب صاحب نے ایک بار دعویٰ کیا " مجھے پرمٹ لینے والوں میں سے صرف ایک شخص ملا جس نے یہ پرمٹ واپس کیا، وہ شخص میرے پاس آیا، پرمٹ میرے سامنے رکھا اور کہا، شہاب صاحب میں لوم نہیں لگا سکتا چنانچہ میں یہ پرمٹ حکومت کو واپس کرنا چاہتا ہوں " شہاب صاحب اس ایمانداری پر حیران رہ گئے اور یہ اس واقعے کی وجہ سے پوری زندگی اس شخص کا احترام کرتے رہے، وہ شخص اس وقت غربت، بے روزگاری اور مسائل کے انتہائی مشکل دور سے گزر رہا تھا، وہ اگر چاہتا تو وہ یہ پرمٹ بازار میں بیچ کر ہزاروں روپے کما سکتا تھا مگر غربت اور ہجرت کے باوجود اس کے ضمیر نے گوارہ نہ کیا اور وہ پرمٹ واپس کرنے کے لیے سرکاری دفتر پہنچ گیا، شہاب صاحب نے اس سے پرمٹ واپس لے لیا مگر اپنی دوستی کاہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا اور یہ ہاتھ پھر کبھی واپس نہیں آیا۔
وہ پرمٹ واپس کرنے والے شخص ملک کے نامور لکھاری مرحوم اے حمید تھے، پاکستان میں بے شمار لکھاری گزرے ہیں، گزر رہے اور گزرتے رہیں گے لیکن ان میں اے حمید صاحب جیسا کوئی شخص ہوا اور نہ ہی ہو گا، وہ ان تھک لکھنے والے تھے، وہ روز لکھتے تھے اور روز کمال کر دیتے تھے، ہم لوگ بھی لکھتے ہیں مگر ہم اپنی تحریر میں نمی، خوشبو، ٹرین کے ڈبوں کی ٹھک ٹھک اور گرامو فون کی ہلکی مہین سی چی چی پیدا نہیں کر سکتے مگر اللہ تعالیٰ نے اے حمید صاحب کو جزئیات نگاری کا یہ پرفیکٹ فن ودیعت کر رکھا تھا، آپ کو ان کی تحریر میں گرتی ہوئی برف کی ٹھنڈک، آسمان کو چومتے ہوئے چیڑھ کے درختوں کی نم ہوائیں، لنکا کے گھنے جنگلوں کی صبحیں، بنگال کی گہری سیاہ آنکھوں میں ٹوٹتے خوابوں کی سسکیاں، سفید براق شرٹ پر کوئلے کی استری کی مہک، سماوار میں ابلتی ہوئی کشمیری چائے کے بلبلوں کی پھک پھک، تازہ کشمیری کلچوں کی دم توڑتی حدت اور ریڈیو سلون پر مناڈے کی آواز سے قبل ہلکی ہلکی سی ٹیں ٹیں اپنے اردگرد انگڑائیاں لیتی محسوس ہوتی تھی، دنیا کا ہر رائیٹر تحریر میں منظر کشی کرتا ہے لیکن اے حمید صاحب کی منظر کشی کا کوئی جواب نہیں تھا۔
قاری کو یوں محسوس ہوتا تھا یہ منظر کسی رائیٹر نے تخلیق نہیں کیا بلکہ اس منظر نے مصنف کو جنم دیا ہے، میں آج تک امرتسر نہیں گیا، میں نے سلون کے گھنے جنگلوں میں گرتی ہوئی بارش کی آواز بھی نہیں سنی، میں نے گرم ساحلوں کی ریت پر پکے ہوئے ناریل کو گرتے ہوئے بھی نہیں سنا، میں نے جنگلوں سے گزرتی ہوئی ٹرین کے پائیدان پر کھڑے ہو کر ٹھنڈی ہوائوں کو اپنے جسم سے لپٹتے اور لپٹ لپٹ کر گھاس میں بکھرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا، میں نے بنگال کے سیاہ لمبے سانپ اور بنگالنوں کی سانپوں جیسی لمبی لمبی چوٹیاں بھی نہیں دیکھیں، میں کشمیری چائے کو بھی اپنا معمول نہیں بنا سکا، میں نے کبھی تنور سے نکلے ہوئے گرم کشمیری کلچے بھی نہیں کھائے اور میں کشمیری ختائیوں کے خستہ پن سے بھی محروم رہا ہوں لیکن اس کے باوجود یہ سارے ذائقے، یہ سارے سواد میرے حافظے کا حصہ ہیں اور شاید اگر میری یادداشت بھی چلی جائے تو بھی یہ ذائقے میرے حافظے کی دیواروں سے چپکے رہیں گے، بالکل اس طرح جس طرح پرانے مندروں اور کائی کا رشتہ متروک ہونے کے باوجود بھی قائم رہتا ہے اور یہ اے حمید صاحب کی تحریروں کا کمال تھا، یہ جو بھی لکھتے تھے اور جو بھی ان کو پڑھتا تھا وہ ان دیکھے دیسوں کا باسی ہو جاتا تھا اور وہ اس کے بعد امرتسر، سلون اور بنگال کو اپنے اندر سے نکال نہیں سکتا تھا۔
اے حمید صاحب سیلانی طبیعت کے مالک تھے، یہ جوانی میں ان دیکھے دیسوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، پاکستان بننے کے بعد ان کا سفر ختم ہو گیا مگر تلاش جاری رہی، مرحوم نے اس تلاش کو اپنا فن بنا لیا اور اس فن نے ملک میں سیکڑوں لکھاری بھی پیدا کیے اور ہزاروں لاکھوں فن نواز بھی۔ اے حمید کی تحریروں نے چار نسلوں کے ذوق کی آبیاری کی، پاکستان بننے سے قبل کی نسل، پاکستان بنانے والی نسل، پاکستان کو بگاڑنے والی نسل اور ہم جیسی کنفیوز نسل۔ یہ پاکستان کے ان چند لکھاریوں میں شامل تھے جو آٹھ سال سے لے کر 80 سال تک کے لوگوں کے لیے لکھتے تھے، اے حمید صاحب کے تین جنون تھے، لکھنا، روز لکھنا، چائے اور کشمیری کلچے کھانا اور اپنی بیگم ریحانہ سے عشق کرنا، اے حمید صاحب اپنی بیگم سے عشق کرتے تھے، انھوں نے پوری زندگی اپنی بیگم کو ہتھیلی کی مہندی بنا کر رکھا، ایک بار میرے دوست عرفان جاویداور اے حمید صاحب کسی ریستوران میں بیٹھے تھے، حمید صاحب گفتگو کر رہے تھے، انھوں نے اچانک گھڑی کی طرف دیکھا اور اٹھ کھڑے ہوئے، عرفان نے وجہ پوچھی تو حمید صاحب نے مسکرا کر جواب دیا "میں پانچ بجے اپنی بیگم کے ساتھ چائے پیتا ہوں، پانچ بجنے والے ہیں، ریحانہ میرا انتظار کر رہی ہو گی، میں گھر واپس جا رہا ہوں " اور وہ چند سیکنڈ بعد باہر نکل گئے، ہم سب اپنی بیویوں کا احترام کرتے ہیں، ہم میں سے کچھ لوگ اپنی بیوی سے محبت بھی کرتے ہوں گے لیکن اے حمید صاحب اپنی بیگم کے عاشق تھے اور یہ عشق آخری وقت تک قائم رہا۔
اے حمید صاحب 29 اپریل 2011ء کو انتقال کر گئے، ان کی آخری زندگی مشکل میں گزری، اگر پنجاب حکومت مہربانی نہ کرتی تو شاید اے حمید صاحب علاج اور دواء کے بغیرہی فوت ہو جاتے، پنجاب حکومت نے ان کے علاج کی ذمے داری اٹھا لی چنانچہ یہ آرام سے دنیا سے رخصت ہو گئے مگر ان کے جانے کے بعد ان کی بیگم عسرت اور مالی پریشانیوں میں زندگی گزاررہی ہیں، یہ علیل بھی ہیں اور بڑی حد تک تنہا بھی، یہ غربت اور یہ بیماری اس ملک کے ہر اس دانشور، اس لکھاری اور اس عالم کے خاندان کا مقدر ہے جس نے بہتی گنگائوں میں ہاتھ نہیں دھوئے، جس نے پرمٹ اور کلیم واپس کر دیے اور جس نے اس ملک میں دکانداری اور تجارت کے بجائے لکھنے، پڑھنے اور پڑھانے کو ذریعہ عزت بنایا، اے حمید صاحب اگر لکھنے پڑھنے کے بجائے لاہور میں کشمیری چائے یا کشمیری کلچوں کی دکان کھول لیتے تو شاید آج ریحانہ آنٹی بہتر زندگی گزار رہی ہوتیں، ریحانہ آنٹی کو تین غلطیوں کی سزا مل رہی ہے، ان کے خاوند نے 1947ء میں پرمٹ واپس کر دیا تھا، حمید صاحب نے پوری زندگی کسی صاحب اقتدار عقیدت مند کی عقیدت سے فائدہ نہیں اٹھایا اور تین، اے حمید سچے اور کھرے لکھاری تھے اور اس ملک میں لکھاری بھی بھوکے مرتے ہیں اور سچے اور کھرے لوگ بھی اور مرحوم سچے بھی تھے، کھرے بھی اورلکھاری بھی چنانچہ ان کی بیوہ اس سلوک کی انتہائی حق دار ہے۔
مجھے کل ایک دوست نے ریحانہ آنٹی کی صورتحال بتائی تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے، حمید صاحب نے لاکھوں صفحے لکھے تھے، اگر ان کے خاندان کو صرف ایک ہزار صفحوں کی رائیلٹی مل جاتی تو حمید صاحب کا یہ حال نہ ہوتا، یورپ اور امریکا کے لکھاری ایک کتاب لکھ کر جزیرے خرید لیتے ہیں مگر ہمارے ادیب پوری زندگی لکھنے کے باوجود اپنی دواء کا خرچ پورا نہیں کر سکتے، ہمارے ملک میں ان پڑھ کھلاڑی ہیرو اور جعلی ڈگری ہولڈر قانون ساز ہیں جب کہ اے حمید صاحب جیسے لوگ نشانہ عبرت ہیں، کیا ہم اپنے ضمیر کو اپنا منہ دکھا سکتے ہیں؟ میری میاں شہباز شریف سے درخواست ہے، آپ ریحانہ آنٹی کے لیے چند لمحے نکالیں، آپ ان کے پاس جائیے، ان کی بات سنیے اور ان کی اتنی مدد کر دیجیے جس سے ان کی آخری زندگی آرام سے گزر سکے اور یہ اس معاشرے، اس ملک کو بددعائیں دیتے ہوئے دنیا سے رخصت نہ ہوں، ادیب معاشرے کا ادب بھی ہوتے ہیں اور احترام بھی اور جو معاشرے اے حمید جیسے ادیبوں کو احترام اور ادب نہیں دیتے ان معاشروں کو اوباما اور گورڈن برائون جیسے لوگوں کے سامنے کشکول پھیلانا پڑتے ہیں کیونکہ علم، قلم اور کتاب اللہ کا انعام ہوتی ہے اور اس انعام کی قدر نہ کرنے والے معاشروں کی سزا بھیک ہوتی ہے، وہ معاشرے بھکاری بن کر در در پھرتے ہیں اور ہم در در پھر رہے ہیں۔