حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے، لوگ ان کی غزلیں ان کا مذاق اڑانے کے لیے سنتے تھے لیکن پھر محلے میں"شاخ بنات" نام کی ایک طوائف آئی اور حافظ شیرازی اسے اپنا دل دے بیٹھے، وہ بالائی طبقے کی طوائف تھی جب کہ حافظ انتہائی غریب اور نالائق شاعر تھے لہٰذا وہ بھی مذاق اڑانے والوں میں شامل ہوگئی، حافظ یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکے اور ایک دن اٹھ کر شیراز کے مضافات میں کسی درگاہ پر بیٹھ گئے، وہاں کسی درویش نے انہیں ایک چلہ سکھا دیا اور وہ لمبے چلے میں غرق ہو گئے۔
چلہ کشی کے دوران ایک رات حضرت علیؓ ان کے خواب میں آئے، انہیں اپنے ہاتھ سے چند لقمے کھلائے اور کہا "جا بیٹا تم پر سارے علوم کے دروازے کھل گئے" اگلی صبح ہوئی اور حافظ شیرازی دنیا کے عظیم شاعر بن چکے تھے، انہوں نے غزل لکھی اور شہر واپس آگئے، لوگوں نے حسب دستور مذاق میں کلام سنانے کی فرمائش کی، حافظ نے غزل سنائی اور اہل شہر نے اسے ان کا کلام ماننے سے انکار کر دیا، اس کے بعد شرط لگ گئی، لوگ انہیں طرح دیتے تھے اور وہ کھڑے کھڑے شعر کہہ دیتے تھے۔
ایک آدھ مہینے میں پورا شیراز ان کے قدموں میں بیٹھ گیا، حافظ خود پوری زندگی شاخ بنات کا شکریہ ادا کرتا رہا جس نے انہیں شاعر بنا دیا، حافظ کا کلام الہامی سمجھا جاتا تھا، وہ روح، محبت اور ایمان کے باریک سے باریک نقطے چلتے پھرتے کھول دیتے تھے، ان کے دیوان کو آج بھی الہامی سمجھا جاتا ہے اور لوگ اس سے فال نکالتے ہیں، ان کی شہرت پورے سنٹرل ایشیا اور ہندوستان تک پھیل گئی، راجوں مہاراجوں نے ان کے وظیفے لگا دیے، امیر تیمور چل کر ان سے ملاقات کے لیے آیا، حافظ پوری زندگی شیراز میں رہے، شہر سے باہر نہیں گئے، فیاض تھے جو کچھ ملتا تھا لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے، شیراز کی حسینائوں کے دیوانے تھے۔
سارا سارا دن ان کی تعریف کرتے رہتے تھے، ان کا زیادہ تر وقت سیرگاہ مصلی میں گزرتا تھا، شاعری میں بھی اس کا بار بار ذکر کیا، 1390ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو اہل شہر نے انہیں سیر گاہ مصلی میں دفن کر دیا، وہ ایک وسیع باغ تھا جو اب صرف حافظ کا مدفن بن چکا ہے اور اہل ایران اسے خاک مصلی کہتے ہیں، پوری دنیا میں مزارات اور روضوں پر ہاتھ اٹھا کر دعا کی جاتی ہے لیکن لوگ حافظ شیرازی کی قبر پر شہادت کی انگلی رکھ کر دعا کرتے ہیں اور ان کی دعائیں قبول بھی ہو جاتی ہیں۔ مزارکی عمارت وسیع تھی۔
اسے فرنچ آرکی ٹیکٹ آندرے گوڈارڈنے 1935ء میں ڈیزائن کیا تھا، قبر دور سے بارہ دری محسوس ہوتی تھی، لوگ قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر دیوان حافظ پڑھ رہے تھے، گائیڈ لوگوں کو حافظ کے بارے میں بتا رہے تھے جب کہ احاطے کے باہر فال نکالنے والے کھڑے تھے، یہ ریال لے کر فال نکالتے تھے، وہاں طوطا فال بھی تھی، طوطے نوٹ لے کر لوگوں کے مقدر کا کارڈ نکالتے تھے، مزار پر خواتین کا جمگھٹا تھا، شاید قدرت حافظ شیرازی کو انتقال کے بعد بھی شیراز کی ماہ رخوں کی کمپنی میں رکھنا چاہتی تھی، مزار پر کیمروں کے سٹینڈ اور ٹرائی پوڈ منع تھے، ہم نے وجہ پوچھی تو بتایا گیا نوجوان لڑکیاں مزار پر آ کر حافظ کی غزلوں کے ساتھ لائیو ڈانس کرتی ہیں چناں چہ انتظامیہ نے بانسری سے بچنے کے لیے بانس پر پابندی لگا دی۔
ہم چند لمحے حافظ کی سیر گاہ مصلی میں گزار کر باہر آ گئے، ہماری اگلی منزل سعدی شیرازی کا مزار تھا، سعدی شیرازی کا اصل نام مشرف الدین تھا، وہ بچپن میں یتیم ہو گئے تو شیراز کے ایک امیر سعد بن زنگی نے ان کی پرورش کی، سعدی نے اس کا یہ احسان اپنے آپ کو سعدی ڈکلیئر کرکے اتارا لہٰذا یہ اپنے محسن کی وجہ سے مشرف الدین سے سعدی شیرازی ہو گئے، سعدی نے اپنی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا، پہلے 30سال جی بھر کر تعلیم حاصل کی، شیراز سے بغداد تک کوئی درس گاہ نہیں چھوڑی، تعلیم کے بعد 30 سال جی بھر کر سیاحت کی، یہ سعودی عرب، خراسان، ترکی، بصرہ، کوفہ اور ازبکستان گئے، فلسطین میں عیسائیوں نے انہیں پکڑ کر غلام بنا لیا، ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو یہ وہاں موجود تھے اور جنگ کا شکار بھی ہوئے۔
سومنات کے مندر میں بھی رہے اور ان کے ہاتھوں ایک پنڈت بھی قتل ہوگیا، حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی، متنوع شخصیت کے مالک تھے، بیک وقت حسن پرست، پرہیز گار، شرابی، واعظ اور عابد شب زندہ دار تھے، مسافرت کے دوران سینکڑوں اہم اور غیراہم لوگوں سے ملاقات کی، شہزادوں کے دستر خوانوں پر بھی بیٹھے اور رندوں کی محفل میں بھی لڑھکتے رہے، ہزاروں تباہ حال بستیاں دیکھیں اورسونے چاندی کے محل بھی دیکھے، درویشوں کی محفلیں بھی نصیب ہوئیں اور ڈاکوئوں کے گھوڑے بھی پالے غرض سعدی نے ان 30برسوں میں زندگی کا ہر رنگ دیکھ لیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنے آخری تیس سال لکھنے، پڑھنے اور درویشی میں گزار دیے، ہلاکو کا وزیر خواجہ شمس الدین ان کا بہت بڑا فین تھا، اس نے انہیں بوریوں کے حساب سے سونے کے سکے دیے، سعدی نے شہر سے باہر زمین خریدی، اس میں ایک وسیع باغ اور اپنی رہائش گاہ بنائی اور اسے عوام کے لیے عام کر دیا، سعدی کے باغ سے ایک نہر گزرتی تھی، اس زمانے میں لوگوں کو کپڑے دھونے کی بہت دقت تھی۔
سعدی نے اپنے باغ میں کپڑے دھونے کے حوض بنا دیے لہٰذا پورا شہر وہاں کپڑے دھوتا تھا، سعدی کی دو کتابیں گلستان اور بوستان نے عالمی درجہ حاصل کیا، یہ دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں ترجمہ ہوئیں، ہندوستان میں یہ کتابیں چھ سو سال تک نصاب بنی رہیں، میں نے بھی بچپن میں یہ دونوں کتابیں پڑھی تھیں، سعدی شاعر بھی تھا لہٰذا یہ اپنے ہر سبق کا آغاز کسی نہ کسی واقعے سے کرتا تھا اور آخر میں شعر کی شکل میں"لیسن آف دی سٹوری" دیتا تھا، ان کا کلام اس قدر پراثر تھا کہ امیر تیمورسعدی کی دو لائنیں پڑھ کر امیر تیمور بن گیا، سعدی نے لکھا تھا انسان کو زندگی میں بے تحاشا پیسہ کمانا چاہیے اور بے انتہا علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ عالم لوگ اس کے پاس بیٹھ کر بے عزتی محسوس نہ کریں اور دولت مند اس کی طرف حقارت سے نہ دیکھیں، امیر تیمور نے یہ حکایت پڑھی اور اس کے بعد بے انتہا کشور کشائی کی، دولت کے انبار لگائے اور ساتھ بے تحاشا علم حاصل کیا۔
سعدی شیرازی کی محبت میں اس نے شیراز فتح کیا اور پورے شہر کو استاد کی وجہ سے امان دے دی، وہ جب مزار پر آیا تو قبر اور باغ کی حالت ٹھیک نہیں تھی، تیمور نے باغ اور مزار دونوں تعمیر کرائے، ہم جب سعدی کے مزار پر پہنچے تو وہاں زیادہ رش نہیں تھا، مزار کی رینوویشن چل رہی تھی شاید اس لیے زائرین نہیں تھے، سعدی کی ندی اب ایک چھوٹی سی نالی بن چکی ہے تاہم مزار کی عمارت خوب صورت تھی مگر ہم اندر نہیں جا سکے، رینوویشن کی وجہ سے مزار کے دروازے بند تھے لہٰذا ہم نے دور سے دعا کی اور باہر کی طرف چل پڑے۔
شیراز کا بازار وکیل دیکھنے لائق ہے، یہ بازار شیراز کے حکمران کریم خان زند سے منسوب ہے، وہ بہت انسان دوست اور عوام سے محبت کرنے والا حکمران تھا، لوگ اسے وکیل رعایا کہا کرتے تھے چناں انہوں نے شہر کے مرکزی علاقے کو بازار وکیل اور زندیہ کا نام دے دیا، زندیہ ایک بڑا چوک ہے جس کے دائیں بائیں دکانیں، ریستوران اور کافی شاپس ہیں، شیراز کا کورڈ بازار بھی زندیہ میں ہے، پورا شہر شام کے وقت یہاں جمع ہوجاتا ہے، سیاح بھی آتے ہیں اور کافی اور چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
شیراز کے لوگ بالخصوص خواتین بہت خوب صورت ہیں، ان کے نین نقش، اٹھنے بیٹھنے کے طریقے اور طرز تکلم میں حافظ اور سعدی کے شعروں کی مٹھاس ہے، حافظ شیرازکی خواتین کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی کہتا تھا، وہ غلط نہیں تھا، شیرازی خواتین کا سراپا واقعی سعدی اور حافظ کی شرح تھا، یہ تہذیب میں بھی بہت آگے ہیں، ہم دیر تک بازار وکیل میں پھرتے رہے، ہم کورڈ بازار بھی گئے، شیراز میں خواتین حجاب کی زیادہ پابندی نہیں کرتیں بالخصوص نوجوان لڑکیاں جینز اور شرٹس میں نظر آتی ہیں اور ان کے بال بھی کھلے ہوتے ہیں، اولڈ سٹی میں درجنوں بوتیک ہوٹلز، ریستوران اور کیفے ہیں، یہ سب پرانی عمارتوں میں بنے ہیں اور ان میں انار کے درخت، انگور کی بیلیں اور فوارے ہیں، اصفہان اور کاشان کی طرح شیراز کے گھر بھی باہر سے سادہ لیکن اندر سے محل نما ہیں۔
نوجوانوں میں نشے کا رجحان بڑھ رہا ہے، یہ "گل" نام کی ایک بوٹی حقے میں ڈال کر پیتے ہیں، ہمیں شیراز کی گلیوں میں نشئی بھی دکھائی دیے، شیرازی کھانوں کا اپنا ذائقہ ہے، یہ زعفرانی حلوہ(حلوای بہار نارنج) بناتے ہیں جو حقیقتاً مزے دار ہوتا ہے، میں شوگر کے باوجود یہ حلوہ کھا گیا اور میرے حلق میں آج تک اس کا ذائقہ موجود ہے، ہم دوسرے دن کریم خان زند کے محل بھی گئے، محل میں مالٹے کے درخت، فوارے اور بارہ دریاں تھیں، محل بڑا تھا مگر زیادہ شاہانہ نہیں تھا، ایران کے محلات زیادہ امپریسو نہیں ہیں، ایران کے شاہی خاندانوں میں بھی ہر دور میں سادگی رہی اور یہ سادگی محلات میں نظر آتی ہے۔
شیراز سے سو کلو میٹر کے فاصلے پر سائرس اور داروش کے محلات اور قبریں ہیں، سائرس ایران کا پہلا بادشاہ تھا جس نے اس خطے کو پرشیا یا فارس کا نام دیا تھا، قرآن مجید نے اسے ذوالقرنین کے نام سے مخاطب کیا، وہ پورے سینٹرل ایشیا کا حکمران تھا، اس نے547 قبل مسیح میں یونان پر حملہ کرکے ایتھنز کے محلات جلا دیے تھے، سکندر اعظم 334قبل مسیح میں ایران آیا اور اس نے سائرس کا پورا دارالحکومت اور محلات جلا دیے، اس زمانے میں داروش ایران کا بادشاہ تھا، ہم اسے دارہ کہتے ہیں۔
سکندر کی دارہ سے لڑائی ہوئی اور سکندر نے ایران فتح کر لیا، عراق کا شہر بابل اس زمانے میں دارہ کا دارالحکومت ہوتا تھا، بہرحال دارہ مارا گیا اور سکندر نے اس کی لاش سائرس کے محلات کے مضافات میں دفن کر دی، یہ پورا علاقہ تخت جمشید کہلاتا ہے، ایران کے آخری بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے 1971ء میں یہاں ایرانی بادشاہت کا 2500 واں جشن منایا تھا مگر وہ اس جشن کے 9سال بعد ماضی کی کتاب میں جذب ہوگیا، میں نے کوشش کی مگر تخت جمشید نہیں دیکھ سکا لیکن ان شاء اللہ اگلی مرتبہ۔