Friday, 22 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Shaukat Khanum Ko Bachayen

    Shaukat Khanum Ko Bachayen

    میرے ایک دوست عبدالستار ایدھی کے خلاف ہیں، وہ ایک دن مجھ سے کہنے لگے ایدھی صاحب " فیئر " انسان نہیں ہیں، میں نے پوچھا، کیسے؟ وہ بولے، ایدھی صاحب مولانا کہلاتے ہیں لیکن یہ نماز نہیں پڑھتے، ان کے خیالات بھی باغیانہ اور اینٹی اسلام ہیں، یہ حسن پرست بھی ہیں، ایدھی صاحب نے بڑھاپے میں نوجوان لڑکی سے شادی کر لی، وہ ٹرسٹ کے کروڑوں روپے لے کر بھاگ گئی اور ایدھی صاحب نے اپنا پورا خاندان بھی فائونڈیشن میں کھپا رکھا ہے وغیرہ وغیرہ،

    میں نے اپنے دوست سے عرض کیا، آپ کے سارے اعتراضات درست ہوں گے لیکن عبدالستار ایدھی نے اس کے باوجود جو کمال کیا وہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ فیئر لوگ مل کر نہیں کر سکے، ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنائی، یہ سروس پورے ملک میں ہر شخص کو دستیاب ہے، ملک کے کسی کونے میں آگ لگ جائے، گاڑیاں ٹکرا جائیں، ٹرین اور بس کا تصادم ہو جائے، بم پھٹ جائے، سیلاب آ جائیں، زلزلہ آ جائے، سرکاری عمارت گر جائے یا پھر کوئی طیارہ تباہ ہو جائے عبدالستار ایدھی کی ایمبولینس سب سے پہلے وہاں پہنچتی ہے۔

    ایدھی صاحب نے اس کے علاوہ درجنوں یتیم خانے بھی کھول رکھے ہیں، انھوں نے پاگلوں کے لیے رہائش گاہیں بنا رکھی ہیں اور ان کے اولڈ ہومز میں ایسے بوڑھے رہ رہے ہیں جن کی اولاد تک انھیں چھوڑ گئی ہیں، عبدالستار ایدھی نے ایسے سولہ ہزار بچے پالے ہیں جنہیں ان کے والدین پیدا ہونے کے بعد کچرا گھروں اور مسجدوں کی دہلیز پر پھینک گئے تھے، ایدھی صاحب نے ایسے بچے پالنے کا کام اس وقت شروع کیا تھا جب کراچی کے ایک امام نے مسجد کی دہلیز پر پڑے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا فتویٰ جاری کر دیا تھا۔

    ایدھی صاحب نے یہ بچے پالے اور آج ان میں سے ایک بچہ پاکستان کے بہت بڑے بینک کا سینئر وائس پریذیڈنٹ ہے، ان میں سے بے شمار بچے ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور استاد بنے، ایدھی صاحب نے گندے نالوں میں اتر کر اٹھارہ ہزار نعشیں نکالیں، یہ وہ نعشیں تھیں جن کی بدبو کی وجہ سے ان کے اپنے ان کے قریب نہیں جاتے تھے، بیٹا باپ کی نعش دفن کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا، باپ بیٹے کی نعش کو ہاتھ لگانے پر رضامند نہیں ہوا اور بھائی بھائی کی تدفین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن عبدالستار ایدھی نہ صرف نالے میں اترتے بلکہ نعش کو نکال کر اپنے ہاتھ سے ایمبولینس میں بھی رکھا، اسے غسل بھی دیا، کفن بھی پہنایا۔

    جنازہ بھی پڑھایا اور اس بدبودار نعش کو اپنے ہاتھوں سے دفن بھی کیا، عبدالستار ایدھی کے علاوہ یہ اعزاز ملک کے کسی ایسے شخص کو حاصل نہیں ہوا جو مولانا بھی کہلاتا ہو، نمازیں بھی پڑھتا ہو، اس نے اپنے خاندان کو ٹرسٹ کا حصہ بھی نہ بنایا ہو اور جو حسن پرست بھی واقع نہ ہوا ہو، میرے دوست میری اس دلیل کے باوجود معترض تھے، میں نے ان سے عرض کیا ہم بدقسمتی سے ایک منفی قوم ہیں، ہم موم کے داغ فوراً دیکھ لیتے ہیں مگر ہمیں موم بتی کی روشنی دکھائی نہیں دیتی، ہمیں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا عبدالستار ایدھی نظر نہیں آتا لیکن ہم اس کی حسن پرستی فوراً بھانپ لیتے ہیں۔

    ہم ایدھی صاحب کو کبھی اٹھارہ ہزار بدبودار نعشوں کی تدفین پر مبارکباد پیش نہیں کریں گے لیکن ہمیں ان کی قضا ہوتی نمازیں فوراً نظر آ جائیں گی اور ایدھی صاحب نے پاکستان جیسے منفی، مشکل اور جہالت سے لبالب ملک میں جو کمال کیا ہے ہمیں یہ کمال نظر نہیں آئے گا لیکن ہم ان کے خاندان کو چند سیکنڈ میں فائونڈیشن میں گھسا ہوا دیکھ لیں گے، یہ ہے ہماری سوچ، یہ ہیں ہمارے رویے۔

    میرا دوست خاموش ہو گیا لیکن ہمارے قومی رویے آج تک چیخ رہے ہیں، ہم من حیث القوم کامیابی، ترقی اور ہیرو شپ کے خلاف ہیں، آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیجیے اور فیصلہ کیجیے، ہم میں سے کتنے لوگ دوسروں کی کامیابی اور ترقی کو برداشت کر پاتے ہیں، کیا ہم اپنی تمام صلاحیتیں باعزت لوگوں کو بے عزت کرنے میں صرف نہیں کر دیتے؟ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو ایدھی صاحب جیسا بڑا کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کوئی نہیں ! اور ہم میں ایدھی صاحب کی ٹانگیں کھینچنے والے کتنے لوگ ہیں؟ ہم میں سے یقیناً ہر شخص ایدھی صاحب کو بدنام کرنے اور ان کی فائونڈیشن کو ناکام ثابت کرنے کی پوری کوشش کررہا ہے۔

    یہ ممکن ہے ایدھی صاحب بھی غلطیاں کرتے ہوں، ان سے بھی کوتاہیاں ہوتی ہوں کیونکہ یہ انسان ہیں اور انبیاء اور صوفیاء کرام کے علاوہ ہر انسان غلطی اور کوتاہی کرتا ہے، ہماری بنیاد ہی غلطی سے پڑی تھی چنانچہ ایدھی صاحب بھی انسانی فطرت اور انسانی غفلت کی وجہ سے غلطی کر سکتے ہیں لیکن ان کی تمام غلطیاں ایک طرف اور نالے میں اتر کر نعش نکالنا اور اس کو اسلامی طریقے سے دفن کرنا دوسری طرف۔ ہم آج تک کسی زخمی کو ایمبولینس فراہم نہیں کر سکے جبکہ ایدھی صاحب لاکھوں زخمیوں کی مدد کر چکے ہیں، یہ اس لحاظ سے ہم سے بہت افضل ہیں اور ہمیں ان کے اس " تقویٰ" کا اعتراف کرنا چاہیے۔

    لیکن کیونکہ ہم ایک احسان فراموش اور منفی قوم ہیں چنانچہ ہم عبدالستار ایدھی کی ذات اور کام میں بھی کیڑے نکال لیتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک ملتا جلتا کارنامہ کل پاکستان مسلم لیگ ن نے شوکت خانم کینسر اسپتال کے معاملے میں سرانجام دیا، کل خواجہ آصف نے بھری پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا عمران خان نے شوکت خانم اسپتال کے 3 ملین ڈالر ملک سے باہر منتقل کیے تھے اور یہ رقم باقاعدہ کاروبار میں لگائی گئی، خواجہ آصف نے دعویٰ کیا یہ صدقات، خیرات اور زکوٰۃ کی رقم تھی، خواجہ آصف بلاشبہ پاکستان کے چند باعزت سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں۔

    لوگ پارٹی سے بالاتر ہو کر خواجہ آصف کی عزت کرتے ہیں، یہ پڑھے لکھے، مہذب اور دلیر انسان بھی ہیں، میں دل سے ان کا معترف ہوں لیکن لوگوں کو خواجہ صاحب کی یہ پریس کانفرنس پسند نہیں آئی، خواجہ صاحب کو یہ پریس کانفرنس نہیں کرنی چاہیے تھی، پاکستان مسلم لیگ ن کو یہ کام بھی رانا ثناء اللہ کو سونپ دینا چاہیے تھا یا پھر عابد شیر علی زیادہ مناسب بائولر تھے، خواجہ صاحب کو اس بائونسر کے لیے اپنی عزت داغ دار نہیں کرنی چاہیے تھی، یہ درست ہے شوکت خانم کینسر اسپتال نے 30 لاکھ ڈالرز بیرون ملک انویسٹ کر رکھے ہیں لیکن یہ انڈومنٹ فنڈ ہے۔

    دنیا کے تمام بڑے فلاحی ادارے اس نوعیت کا فنڈ قائم بھی کرتے ہیں اور یہ فنڈ انویسٹ بھی کیا جاتا ہے تا کہ ادارہ اس فنڈ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے، یہ چندے کے گرداب سے باہر آ سکے۔ شوکت خانم نے بھی انڈومنٹ فنڈ قائم کیا اور یہ ادارے کے کاغذات میں بھی شامل ہے اور یہ شوکت خانم کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ ن نے اس کو سیاست بازی کا ذریعہ بنا دیا، ہم عمران خان کی سیاست اور شخصیت پر ہزاروں انگلیاں اٹھا سکتے ہیں، ہم اس پر اعتراض بھی کر سکتے ہیں اور اس پر گندگی بھی اچھال سکتے ہیں کیونکہ یہ انسان بھی ہے اور سیاستدان بھی اور سیاست اور انسان دونوں ہر دور میں سوالیہ نشان رہے ہیں۔

    سیاست سفید کپڑے پہن کر تارکول کے کھلے ڈرموں کے درمیان سے گزرنے کا کھیل ہے جس میں آپ نے ہاتھ، پائوں اور منہ کے ساتھ ساتھ کپڑے بھی بچانا ہوتے ہیں لیکن جہاں تک شوکت خانم جیسے اداروں کا معاملہ ہے یہ سیاست بازی سے بالاتر ہونے چاہئیں، ہم عمران خان سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جہاں تک شوکت خانم کینسر اسپتال اور نمل یونیورسٹی کا معاملہ ہے عمران خان نے یہ ادارے قائم کر کے کمال کر دیا۔ پاکستان جیسے ملک جس میں لوگ کینسر کے مرض کے بعد علاج کے لیے باہر جاتے تھے یا پھر خود کو چپ چاپ موت کے حوالے کر دیتے تھے۔

    اس ملک میں کینسر کا خیراتی اسپتال بنانا مینڈک تولنے سے کم مشکل کام نہیں تھا مگر عمران خان نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ اس ملک میں درجن بھر سے زیادہ سیاسی جماعتیں، پچاس سے زائد بڑے لیڈر اور دو ہزار ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹرز ہیں لیکن ان میں سے کتنے لوگوں نے شوکت خانم اور نمل جیسے ادارے بنائے۔ ہمارے ملک میں حکومتیں تک ایسا اسپتال نہیں بنا سکتیں۔ عمران خان نے یہ کارنامہ سرانجام بھی دیا اور یہ 18 برسوں سے یہ اسپتال چلا بھی رہے ہیں، پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کو عمران خان کا مقابلہ سیاست کے میدان میں کرنا چاہیے۔

    آپ اس کی ذات پر جتنا چاہے کیچڑ اچھالیں، سیتا وائٹ کو بلیک اینڈ وائٹ کرنے کی کوشش کریں یا عمران خان سے اس کی آمدنی کے ذرایع پوچھیں، آپ اس کی حسن پرستی کے قصے بھی اچھالیں لیکن خدا را شوکت خانم اسپتال کو بدنام نہ کریں کیونکہ یہ ملک کے ہزاروں کینسر مریضوں کی امید گاہ ہے اور اگر یہ اسپتال بند ہو گیا تو ہزاروں لاکھوں مریض مر جائیں گے اور یہ گناہ آپ کی زندگیوں کا سکون چاٹ لے گا، آپ بد دعائوں کے اسیر ہو جائیں گے، عمران خان برا ہو سکتا ہے لیکن شوکت خانم کینسر اسپتال خراب نہیں، یہ کامیابی کی عظیم مثال ہے اور ہمیں اس مثال کا احترام کرنا چاہیے۔

    About Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.