میجر طارق رحیم ذوالفقار علی بھٹو کے اے ڈی سی تھے، وہ ایک بہادر افسر تھے، 1974 میں بھٹوصاحب قبائلی علاقے کے دورے پر گئے، وزیراعظم جب ہیلی کاپٹر سے اترے تو جلسہ گاہ میں دھماکا ہوگیا، میجر طارق رحیم نے بھٹو صاحب کو دھکا دے کر نیچے گرایا اور خود ان کے اوپر لیٹ گیا، وہ خود زخمی ہوگیا جب کہ بھٹو صاحب مکمل طور پرمحفوظ رہے، بھٹو صاحب نے بعدازاں جلسے میں میجر طارق رحیم کو اسٹیج پر بلایا اور ہزاروں لوگوں کے سامنے اس کی بہادری اور وفاداری کی تعریف کی، بھٹو صاحب اس واقعے کے بعد میجر طارق رحیم کو بہت عزیز رکھنے لگے۔
مارچ 1977 میں الیکشن سے پہلے وزیراعظم نے میجر طارق رحیم سمیت اپنے ملٹری اسٹاف کو بلایا اور اس کو پیش کش کی " میں الیکشن کے بعد ہو سکتا ہے وزیراعظم نہ رہوں لہٰذا اگر تم لوگ کسی اور جگہ ٹرانسفر چاہتے ہو تو میں آج آرڈر کر سکتا ہوں" میجر طارق رحیم فارن سروس میں جانا چاہتا تھا، بھٹو صاحب اس کی اس خواہش سے واقف تھے لیکن اس نے جواب دیا "سر ہم اس نازک وقت میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے" اس آفر کے چند دن بعد 5 جولائی 1977 ہوگیا، جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا اور بھٹو صاحب کو گرفتار کرکے مری بھجوا دیا۔
وزیراعظم کا ملٹری اسٹاف ان کے ساتھ تھا، چند دن بعد جنرل ضیاء الحق بھٹو صاحب سے ملاقات کے لیے مری گئے، ملاقات اچھی ثابت نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود جنرل ضیاء نے بھٹو صاحب سے پوچھا "سر آپ کا کوئی ایسا کام جو ادھورا رہ گیا ہو میں وہ مکمل کرنے کے لیے تیار ہوں، یہ میرے لیے اعزاز ہوگا" بھٹو صاحب نے تلخی کے اس فیز میں بھی جنرل ضیاء سے درخواست کی" میں نے اپنے ملٹری اسٹاف سے ان کی پسندیدہ جگہوں پر پوسٹنگ کا وعدہ کیا تھا، آپ میجر طارق رحیم اور اے ڈی سی خالد کو فارن سروس میں پوسٹ کر دیں" جنرل ضیاء نے فوراً حامی بھر لی اور اگلے ہی دن دونوں افسروں کو فارن سروس پوسٹ کر دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد مرتضیٰ بھٹو نے کابل میں"الذوالفقار" کی بنیاد رکھی، تنظیم کے ایک کارندے اسلام اللہ ٹیپو نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مارچ 1981میں پی آئی اے کی کراچی سے پشاور جانے والی فلائٹ ہائی جیک کر لی، ٹیپو جہاز کو کابل لے گیا، میجر طارق رحیم اس وقت تہران کے پاکستانی سفارت خانے میں تعینات تھا، اس کے والد کا انتقال ہوگیا اور وہ تدفین کے لیے پاکستان آیا ہوا تھا، وہ بدقسمتی سے اسی جہاز میں سوار تھا، اسلام ٹیپو نے اسے جنرل رحیم الدین کا بیٹا سمجھ لیا، مرتضیٰ بھٹو طارق رحیم کو اچھی طرح جانتا تھا، یہ اے ڈی سی کی حیثیت سے بھٹو صاحب کے تمام بچوں کو پروٹوکول دیتا رہا تھا، یہ 70 کلفٹن اور گڑھی خدا بخش میں بھی وزیراعظم کے ساتھ جاتا تھا لہٰذا مرتضیٰ بھٹو اور ان کے بھائی شاہ نواز کے ساتھ اس کے بہت اچھے تعلقات تھے، وہ دونوں یہ بھی جانتے تھے۔
اس کا جنرل رحیم الدین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، میجر طارق نے جہاز سے مرتضیٰ بھٹو کو خط بھی لکھا اور اس میں انھیں اپنا پرانا تعلق یاد کرایا لیکن اس کے باوجود اسلام ٹیپو نے مرتضیٰ بھٹو کے حکم پر طارق رحیم کو 6 مارچ کو گولی مار کر اس کی نعش جہاز سے نیچے پھینک دی اور یہ منظر پوری دنیا کے میڈیا نے اپنے ناظرین کو دکھایا اور یوں بھٹو صاحب کا سابق اے ڈی سی، محسن اور بے گناہ شخص نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا۔
میں نے یہ واقعہ راجہ انور کی کتاب "دہشت گرد شہزادہ" میں پڑھا تھا اور یہ میرے ذہن میں چپک کر رہ گیا تھا، آپ قسمت کا ہیر پھیر ملاحظہ کریں، ایک اے ڈی سی نے اپنی جان داؤ پر لگا کر بھٹو صاحب کی جان بچائی اور بھٹو صاحب نے اپنی حکومت گرانے، مارشل لاء لگانے اور اپنی جان کے دشمن جنرل ضیاء الحق سے درخواست کرکے اسے وزارت خارجہ میں ٹرانسفر کرایا اور پھر وہ شخص اسی بھٹو صاحب کے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا، کیا اس سے بڑی کوئی بدقسمتی ہو سکتی ہے؟ اور اس بدقسمتی کو جس دردناک انداز سے راجہ انور نے تحریر کیا وہ صرف ان کا خاصا ہے۔
اب سوال یہ ہے راجہ انور کون ہے؟ راجہ انور مشہور اسٹوڈنٹ، لیڈر، سیاست دان، صحافی اور رائٹر تھے، یہ اب بھی ہیں، انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں کالج اور پنجاب یونیورسٹی سے سیاست کا آغاز کیا، بھٹو صاحب تک پہنچے اور ان کے مشیر بن گئے، مارشل لاء کے بعد یہ کابل چلے گئے، وہاں اس زمانے میں روس نواز نجیب اللہ کی حکومت تھی، مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز دونوں وہاں پناہ گزین تھے، راجہ انور ان کے ساتھ شامل ہو گئے، مرتضیٰ بھٹو نے الذوالفقار بنائی اور پاکستان میں دہشت گرد حملے شروع کر دیے، راجہ صاحب اس زمانے میں مرتضیٰ بھٹو کے دست راست تھے، یہ جب مرتضیٰ بھٹو کے قریب پہنچے تو انھیں ان کے کردار کی خامیاں نظر آنے لگیں، مرتضیٰ بھٹو کو اپنی ذات کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا، وہ شکی مزاج بھی تھے اور وہ کسی کو پھلتا پھولتا بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔
بہرحال اس دوران مرتضیٰ بھٹو سے ان کے اختلافات ہوئے اور انھوں نے نجیب اللہ کو کہہ کر راجہ انور کو کابل کی پل چرخی جیل میں بند کرا دیا، جیل کا وہ دور بہت درد ناک تھا، اسلام ٹیپو اور دوسرے انقلابی بھی بہت جلد مرتضیٰ بھٹو کا اعتماد کھو کر جیل پہنچ گئے، راجہ انور کو ان سے ملاقاتوں کا موقع ملا، وہ سب اپنی غلطیوں اور مرتضیٰ بھٹو پر اندھے اعتماد پر شرمندہ تھے، مرتضیٰ بھٹو نے اس دوران راجہ انور کے قتل کی خبر بھی جاری کرا دی، اس خبر سے قبل راجہ صاحب کی قبر بھی کھود دی گئی تھی اور انھیں اس کی "زیارت" بھی کرادی گئی، پاکستان میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ہوگئی اور خاندان اور دوستوں نے ان کی تعزیت بھی کر لی لیکن اللہ تعالیٰ کو ان کی زندگی عزیز تھی چناں چہ یہ بچ بھی گئے اور فرار ہو کر جرمنی بھی پہنچ گئے۔
وہاں انھوں نے سیاست اور انقلاب سے تائب ہو کر بزنس شروع کیا، شادی کی، بچے پیدا کیے اور ایک نارمل زندگی کا آغاز کیا، یہ 1988کے بعد پاکستان آئے اور اخبارات میں کالم لکھنا شروع کر دیے اور پورے ملک کو اپنا دیوانہ بنا لیا، اس دوران انھوں نے ٹیررسٹ پرنس" کے نام سے انگریزی میں کتاب لکھی، اس کا بعدازاں"دہشت گرد شہزادہ" کے نام سے ترجمہ ہوا اور اس کتاب نے ملک میں تہلکہ مچا دیا، راجہ صاحب نے اس کے بعد چھوٹی جیل سے بڑی جیل تک، قبر کی آغوش اور بن باس کے نام سے بھی کتابیں لکھیں، یہ کتابیں بھی کمال تھیں، میں نے طالب علمی کے زمانے میں ان کی کتاب "جھوٹے روپ کے درشن" پڑھی تھی اور ان کی سلاست، روانی اور قادر الکلامی کا دیوانہ ہوگیا تھا، اللہ تعالیٰ نے راجہ انور کو مطالعے، مشاہدے اور زبان کی قدرت دے رکھی ہے۔
یہ جب لکھتے ہیں تو معلومات، دلائل اور مشاہدات کا انبار لگا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ علم، مطالعہ اور مشاہدہ بہت لوگوں کو دیتا ہے لیکن ان کے ساتھ ساتھ جذبات اور احساسات کی دولت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، راجہ صاحب کو قدرت کی طرف سے یہ خوبی بھی ودیعت کی گئی، ان کی تحریریں پھیکی نہیں ہوتیں، ان میں احساسات اور جذبات کی چاشنی بھی موجود ہوتی ہے اور دھڑکتے، تڑپتے ہوئے دل کی دھک دھک بھی، میں ان کی کتابیں بے شمار مرتبہ پڑھ چکا ہوں، آپ یقین کریں یہ ہر بار میرے اوپر پہلے سے زیادہ اثر کرتی ہیں۔
میں نے چند دن قبل چوتھی مرتبہ دہشت گرد شہزادہ پڑھی اور میں نے راجہ انور صاحب کو فون کیا، یہ اس وقت برطانیہ میں مقیم ہیں، سال میں چند ماہ کے لیے پاکستان آتے ہیں اور پھر برمنگھم چلے جاتے ہیں، وہاں انھوں نے دو مکان خرید رکھے ہیں، ایک میں خود رہتے ہیں اور دوسرا کرائے پر چڑھا رکھا ہے، اس مکان کا کرایہ ان کی ضرورت کے لیے کافی ہے لہٰذا سارا دن پڑھتے، لکھتے رہتے ہیں اور واک کرتے رہتے ہیں، چند سال قبل ان کی شوگر ڈراپ ہوگئی جس کی وجہ سے ان کے دماغ پرا سٹروک ہوا اور ان کی یادداشت چلی گئی۔
یہ اب بحال ہو چکی ہے تاہم انھیں بولنے اور لکھنے میں دقت ہوتی ہے لیکن یہ اس کے باوجود ذہنی طور پر چست ہیں، پرویز رشید ان کے پیپلز پارٹی کے دور کے پرانے دوست ہیں، یہ انھیں ن لیگ میں لے آئے تھے مگر پارٹی ان سے کوئی کام نہیں لے سکی شاید ہماری پارٹیوں کو اب راجہ انور جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں رہی، ن لیگ میں بھی مریم اورنگ زیب اور عظمیٰ بخاری قابض ہو چکی ہیں، یہ تین کرسیوں پر خود بیٹھ جاتی ہیں اور باقی پر اپنے بیگ رکھ دیتی ہیں لہٰذا راجہ انور جیسے لوگوں کے لیے جگہ نہیں بچی، یہ وضع دار اور عزت نفس سے مالا مال انسان ہیں، یہ اپنی باری کے انتظار میں ہجوم میں کھڑے نہیں ہو سکتے چناں یہ اب حیرت سے کھیل ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
میرا آج کے نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کو مشورہ ہے یہ اگر سیاست کی سنگ دلی اور تاریخ کی بے رحمی کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ راجہ انور کی کتابیں ضرور پڑھیں، یہ کتابیں ان کی آنکھیں کھول دیں گی، یہ انھیں اس ماضی سے متعارف کرا دیں گی جس سے رابطے کے بغیرہمارا حال اچھا ہو سکتا ہے اور نہ مستقبل۔