Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sleeper Cell

Sleeper Cell

یہ ذمے داری بہرحال وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پر عائد ہوتی ہے، چوہدری نثار یقینااس بات سے اختلاف کریں گے لیکن میں بارہ بے گناہ لوگوں کا مقدمہ ان کی عدالت میں رکھتا ہوں اورفیصلہ ان پر چھوڑتا ہوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں 28 قائمہ کمیٹیاں ہیں، یہ کمیٹیاں مختلف اداروں کے نمایندوں کو بلا کران سے مختلف امور پر سوال پوچھتی ہیں اور ان جوابات کی روشنی میں حکومت کو پالیسیاں بنانے کی سفارشات کرتی ہیں، قومی اسمبلی نے داخلہ امور پر بھی قائمہ کمیٹی بنا رکھی ہے، اس کمیٹی میں 19 ارکان ہیں، اس کمیٹی کا 19 فروری کو اجلاس تھا، کمیٹی نے ڈی جی نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل طارق لودھی کو طلب کر رکھا تھا، طارق لودھی نے اس دن انکشاف کیا، اسلام آباد میں دہشت گردوں کے "سلیپر سیل"ہیں، یہ لوگ القاعدہ، طالبان اور لشکر جھنگوی سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ لوگ کسی بھی وقت ایکٹو ہو کر وفاقی دارالحکومت کا امن برباد کر سکتے ہیں، طارق لودھی کے اس انکشاف نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا، میڈیا نے اس خبر کو اٹھالیا، حکومت کو اس حق گوئی پر طارق لودھی کو شاباش دینی چاہیے تھی کیونکہ پچھلے بیس برسوں میں ہماری بیورو کریسی میں جتنے زوال آئے ہیں ان میں سب سے بڑا زوال جھوٹ بھی ہے، ہماری بیورو کریسی سچ بولنا بھول چکی ہے، ان کے سامنے میز پر سیب پڑا ہو اور آپ ان سے پوچھ لیں " یہ کیا ہے؟ " تو یہ مر جائیں گے لیکن آپ کو یہ نہیں بتائیں گے" یہ سیب ہے" ایک سیکریٹری صاحب نے ایک بار مجھے بتایا، ہم جب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں جاتے ہیں تو ہم کسی سوال کا جواب نہیں دیتے، ارکان ہم پر چیختے ہیں، لیکن ہم سرجھکا کر خاموش بیٹھے رہتے ہیں کیونکہ ہم نے طویل تجربے سے یہ سیکھا، سوال کا جواب ہاں ہو یا ناں اس کا نقصان بہرحال ہمیں اٹھانا پڑتا ہے، میں نے ان سے پوچھا، آپ وہاں جاتے کیوں ہیں؟

ان کا جواب تھا، قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے کمیٹیوں کے اجلاس میں حاضر ہونا ہماری مجبوری ہے چنانچہ ہم جاتے ہیں، حاضری لگاتے ہیں اور چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں، ہم قانوناً صرف حاضر ہونے کے پابند ہیں، جواب دینے کے نہیں لہٰذا یہ لوگ ہمیں خاموشی پر کوئی سزا نہیں دے سکتے، یہ معاملہ صرف ایک سیکریٹری تک محدود نہیں بلکہ 90 فیصد سرکاری عہدیدار کمیٹیوں کے اجلاس میں خاموش بیٹھ کر واپس چلے جاتے ہیں مگر طارق لودھی نے اس دن جرأت کا مظاہرہ کیا، یہ پورا ڈیٹا ساتھ لے کر گئے اور ان کے پاس جو معلومات تھیں وہ انھوں نے کمیٹی کے ارکان کے سامنے رکھ دیں، حکومت کو اس حق گوئی پر ان کی ستائش کرنی چاہیے تھی لیکن یہ سچ چوہدری نثار صاحب کی طبع نازک پر ناگوار گزرا اور انھوں نے نہ صرف طارق لودھی کی گوشمالی کر دی بلکہ 20فروری کو پریس کانفرنس بھی فرمادی، اس پریس کانفرنس کے ذریعے چوہدری صاحب نے اسلام آباد کو ملک کا محفوظ ترین شہر ڈکلیئر کر دیا، چوہدری نثار علی خان پورے یقین سے فرما رہے تھے، اسلام آباد میں کسی تنظیم کا کوئی سلیپر سیل نہیں، یہ شہر ہر قسم کی دہشت گردی سے محفوظ ہے، میں نے اس رات اپنے شو میں عرض کیا " یہ شہر آج تک محفوظ تھا لیکن چوہدری صاحب کے دعوے کے بعد یہ محفوظ نہیں رہا، دہشت گرد اب اس دعوے کو چیلنج کے طور پر لیں گے اور یہ اسلام آباد کے محفوظ ترین علاقے پر حملہ کریں گے" اور 3 مارچ کی صبح یہی ہوا، پیر کی صبح نو بجے دہشت گردوں نے اسلام آباد کچہری پر حملہ کر دیا، دو خودکش حملے ہوئے اور پندرہ منٹ تک مسلسل فائرنگ ہوتی رہی، ان حملوں اور فائرنگ سے 12 افراد شہید اور 29 زخمی ہو گئے، شہیدوں میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان بھی شامل تھے چنانچہ میں وزارت داخلہ کو اس حملے کا ذمے دار سمجھتا ہوں کیونکہ سیانے کہتے ہیں، آوارہ بیل کو کبھی سرخ رومال نہیں دکھانا چاہیے، جسم پر شہد مل کر زمین پر نہیں بیٹھنا چاہیے اور سیلاب کے موسم میں اپنی تیراکی کی ڈینگیں نہیں مارنی چاہئیں اور چوہدری صاحب سے یہ غلطی ہو گئی۔

ہمیں یہ ماننا ہو گا دہشت گردی کوئی پھوڑا نہیں ہم جس پر مرہم رکھ کر یہ مسئلہ حل کر لیں گے، یہ خون کی بیماری ہے اور یہ خون ہمارے پورے جسم میں پھیلا ہوا ہے، دہشتگردی ایک سوچ ہے اور یہ سوچ اس وقت پورے ملک میں موجود ہے، یہ سوچ کسی خاص خطے، فرقے یا طبقہ فکر کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی، ملک کے تمام طبقے اس سوچ کے حصار میں ہیں، یہ لوگ طالبان بھی ہیں، یہ لوگ وہ بھی ہیں جو شناختی کارڈ چیک کر کے شیعہ کو قتل کر دیتے ہیں یا سنیوں کی مسجد کو اڑا دیتے ہیں، اس سوچ میں ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے خواہش مند نوجوان بھی شامل ہیں، اس میں بلوچ لبریشن آرمی کے لوگ بھی شامل ہیں، سندھو دیش کے لوگ بھی اور وہ لوگ بھی جو کراچی کو سندھ سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی جو سکندر کی طرح صرف بریکنگ نیوز بننا چاہتے ہیں اور وہ بھی جو اپنی سوچ کو شریعت اور دوسروں کی نمازوں کو "کفر" قرار دیتے ہیں اور وہ بھی جن کی نظر میں ہر داڑھی والا اور ہر شلوار قمیض اور ہر پگڑی والا دہشت گرد ہے اور وہ بھی جو ہر جینز، ہر شرٹ اور ہر کلین شیو کو قابل گردن زنی سمجھتے ہیں اور وہ بھی جن کے امتحان میں نمبر کم آ جاتے ہیں اور وہ پورے شہر کو آگ لگانے کا اعلان کر دیتے ہیں اور وہ بھی جو بے روز گار ہیں اور وہ بھی جو غریب ہیں اور وہ بھی جنھیں پولیس اور عدالتیں انصاف فراہم نہیں کرتیں اور وہ بھی جن کے گھروں، دکانوں اور زمینوں پر دوسرے قابض ہیں اور وہ بھی جن کے بچوں اور بیویوں کو قتل کر دیا جاتا ہے یا اغواء کر لیا جاتا ہے اور ریاست ان کے آنسو تک نہیں پونچھتی اور وہ بھی جو اس آزاد ملک میں غلام ابن غلام چلے آ رہے ہیں اور وہ بھی جو روز اپنی جھگیوں میں بیٹھ کر اپنے اردگرد چمکتی، مہکتی اور ترقی کرتی زندگی دیکھتے ہیں اور وہ بھی جن کے پیارے ڈرون حملوں، فضائی حملوں، فوجی گولیوں اور پولیس کے شک کا شکار ہوتے ہیں اور، اور، اور وہ بھی جو طبقوں کی جنگ کے دوران اپنا توازن کھو بیٹھے ہیں، یہ سب شدت پسند بھی ہیں اور دہشت گرد بھی۔

آپ اگر ایک لمحے کے لیے غور کریں تو آپ کو لندن، نیویارک اور سعودی عرب میں پناہ گزین اعلیٰ خاندانوں کے چشم و چراغ اور افغان علاقوں میں چھپے طالبان میں کوئی فرق نہیں ملے گا، لندن میں بیٹھے سیاسی خاندانوں کے ارب پتی بچے بھی اس ملک سے نفرت کرتے ہیں اور قبائلی اور افغان علاقوں میں چھپے جنگجو بھی ملک سے بدلہ لے رہے ہیں، یہ ایک ہی سوچ ہے جو مختلف حلیوں، مختلف زبانوں، مختلف نسلوں اور مختلف طبقوں کی شکل میں ہمارے اردگرد گھوم رہی ہے اور اس سوچ کے حصار میں، میں بھی ہوں اور آپ بھی۔ ہم میں سے ہر دوسرا شخص دہشت کا سلیپر سیل ہے اور یہ سیل کس وقت ایکٹو ہو جائے ہم میں سے کوئی شخص نہیں جانتا، دہشت گردی کی ہزاروں وجوہات ہو سکتی ہیں مگر اس کی علامت صرف ایک ہوتی ہے اور وہ علامت ہے شدت پسندی۔

ہم جب شدت پسند ہو جاتے ہیں، ہم جب خود کو ٹھیک اور دوسروں کو غلط سمجھنے لگتے ہیں، ہم جب خود کو مظلوم اور دوسروں کو ظالم سمجھنے لگتے ہیں اور ہم جب خود کو مومن اور دوسروں کو کافر سمجھنے لگتے ہیں تو اس وقت ہم دہشت گردی کے دھانے پر پہنچ جاتے ہیں، ہم میں اور دہشت گردوں میں صرف بالشت بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے اور ہم میں کتنے لوگ ہیں جو روز اس کیفیت سے نہیں گزرتے؟ شاید یہ لوگ نوے فیصد ہوں اور یہ نوے فیصد لوگ دہشت گردی کے سلیپر سیل ہیں، ان میں سے کچھ اپنی نفرت کو کسی گروپ کے ہاتھوں فروخت کر چکے ہیں اور باقی اپنی نفرت، اپنے غصے اور اپنی شدت کے گاہک تلاش کر رہے ہیں، یہ بھی ہر وقت مرنے اور مارنے پر تیار رہتے ہیں، بس ان کا بس نہیں چل رہا۔

ہم جب تک سوچ نہیں بدلیں گے، ہم جب تک معاشرے میں انصاف اور میرٹ کے درخت نہیں لگائیں گے، ہم جب تک سماج میں برابری قائم نہیں کریں گے، ہم جب تک باصلاحیت اور ایماندار لوگوں کے لیے راستہ نہیں کھولیں گے، ہم جب تک مذہب، نسل، قبیلے اور زبان کو ذات تک محدود نہیں کریں گے، ہم جب تک عبادات کو پرائیویٹ معاملہ ڈکلیئر نہیں کریں گے، ہم جب تک عقائد کو عبادت گاہوں تک محدود نہیں کریں گے، ہم جب تک مساجد اور امام بار گاہوں کو ریاست کے دھارے میں نہیں لائیں گے، ہم جب تک حسد کو رشک میں تبدیل نہیں کریں گے، ہم جب تک ہنر کو علم اور ڈگری کا حصہ نہیں بنائیں گے، ہم جب تک اعلیٰ تعلیم کو مشکل ترین نہیں بنائیں گے، ہم جب تک ڈگری لیول پر پرائیویٹ تعلیم پر پابندی نہیں لگائیں گے، ہم جب تک معاشرے کو غیر مسلح نہیں کریں گے، ہم جب تک کھیل اور تفریح کو شخصی زندگی کا لازم حصہ نہیں بنائیں گے، ہم جب تک معاشرے میں کتاب کلچر کو فروغ نہیں دیں گے اور ہم جب تک ریاست کو سیکیورٹی اسٹیٹ سے ویلفیئر اسٹیٹ، جسٹس اسٹیٹ یا بزنس اسٹیٹ میں تبدیل نہیں کریں گے، ہمارے ملک سے اس وقت تک شدت پسندی اور دہشت گردی ختم نہیں ہو سکے گی، آپ آج ایک ویزے پر یورپ کے 25 ممالک میں گھوم سکتے ہیں، آپ اس یورپ کا تقابل 1940ء اور 1920ء کے یورپ سے کیجیے، آپ کو یقین نہیں آئے گا، یہ وہی لوگ ہیں جو دس دس سال ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے، جنہوں نے دنیا کی دوبڑی جنگیں لڑیں اور ان جنگوں میں دس کروڑ لوگ مارے گئے، یہ لوگ آج سے پچاس سال قبل جی ہاں صرف پچاس سال قبل ایک دوسرے کو نیست ونابود کر دینا چاہتے تھے لیکن صرف آدھی صدی بعد ان کی سرحدیں تک ختم ہو گئی ہیں، یہ کرنسی اور ویزہ تک ایک کر بیٹھے ہیں، کیسے؟

ان لوگوں نے صرف ایک کام کیا، انھوں نے شدت ختم کر دی، شدت ختم ہونے سے نفرت ختم ہوئی اور نفرت کے خاتمے کے ساتھ ہی قتل و غارت گری بھی ختم ہو گئی اور آج یورپ کے 25 ممالک کی چار سو نسلیں ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہ رہی ہیں مگر ہم نے ماضی میں نفرت کو کاروبار بنا لیا تھا، ہم نفرت کاشت کرتے تھے، نفرت بیچتے تھے اور نفرت خریدتے تھے اور یہ خرید وفروخت آج تک جاری ہے اور اس کا یہ نتیجہ ہے، ہم آج سلیپر سیلز کے رحم و کرم پر ہیں، ایک آج جاگ گیا ہے، دوسرا کل جاگ جائے گا اورتیسرے دن تیسرا آنکھ کھول لے گا، ہم کس کس سے لڑیں گے، ہم کس کس کا مقابلہ کریں گے، چوہدری صاحب ایک لمحے کے لیے اس پر بھی غور کیجیے، نفرت ختم کیجیے، یہ سلیپر سیل خود بخود ختم ہو جائیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.