آپ اگر دنیا کا نقشہ سامنے بچھائیں اور اس میں نیوزی لینڈکو تلاش کریں تو یہ آپ کو قطب جنوبی کی سمت میں دنیا کے آخر میں نقطے کی صورت میں ملے گا، یہ قطب جنوبی کی طرف آخری انسانی آبادی ہے، اس کے بعد اندھیرا ہے، برف ہے اور موت ہے، زندگی یہاں پہنچ کر اجنبی ہو جاتی ہے، نیوزی لینڈ دو حصوں میں تقسیم ہے، شمالی نیوزی لینڈ اور جنوبی نیوزی لینڈ، دونوں کے درمیان سمندر حائل ہے، آپ کو شمالی نیوزی لینڈ سے جنوبی نیوزی لینڈ جانے کے لیے بحری جہاز کی مدد لینا پڑتی ہے، آپ گاڑی سمیت بحری جہاز میں داخل ہو جاتے ہیں۔
آپ کو دنیا بھر میں شمالی حصہ جنوبی حصے کے مقابلے میں سرد محسوس ہوتا ہے لیکن نیوزی لینڈ میں ایسا نہیں ہوتا، آپ یہاں جوں جوں شمال سے جنوب کی طرف بڑھتے ہیں، سردی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، آپ اگر نیوزی لینڈ کو غور سے دیکھیں تو آپ کو شمالی حصے کے آخر میں گزبورن (Gisborne) نام کا چھوٹا سا قصبہ ملے گا، یہ قصبہ دنیا کا مشرق ہے، سورج روزانہ یہاں سے اپنا سفر شروع کرتا ہے، سورج کی پہلی کرن اس قصبے میں آنکھ کھولتی ہے، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے، نیوزی لینڈ میں طلوع کے دو گھنٹے بعد آسٹریلیا میں صبح ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں سات گھنٹے بعد صبح کی اذان ہوتی ہے۔
سورج گز بورن سے سفر کرتا ہوا چوبیس گھنٹے بعد سامو آ میں غروب ہو جاتا ہے، ساموآ نیوزی لینڈ کے ہمسائے میں ایک چھوٹا سا امریکی جزیرہ ہے، گزبورن اور ساموآ میں زیادہ فاصلہ نہیں لیکن دونوں میں مشرق اور مغرب جتنی دوری ہے، ساموآ میں سورج غروب ہوتا اور چند منٹ بعد گزبورن میں طلوع ہو جاتا ہے چنانچہ آپ اگر ساموآ اور گزبورن کے درمیان پیسیفک اوشین (بحرالکاہل)میں کھڑے ہوں تو آپ اپنی آنکھوں سے اپنے ایک بازو میں سورج کو غروب ہوتے اور دوسرے بازو سے طلوع ہوتے دیکھ سکتے ہیں، یہ خطہ جس میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں، یہ باقی دنیا سے چھ ماہ پیچھے ہے، جون اور جولائی میں جس وقت پاکستان میں درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے عین اس وقت آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں سردیاں جوبن پر ہوتی ہیں۔
نیوزی کے جنوبی حصے میں اس وقت برف باری ہو رہی ہے جب کہ نومبر، دسمبر اور جنوری میں جب باقی دنیا رضائیوں اور جیکٹوں میں گھس جاتی ہے، اس وقت نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں گرمیاں شروع ہو جاتی ہیں، آپ قدرت کا حیران کن معجزہ دیکھئے، فجی، ساموآ اور ٹونگا تینوں جزائر نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے ہمسائے میں واقع ہیں، یہ یہاں سے ایک، دو اور تین گھنٹے کی فضائی دوری پر ہیں لیکن وہاں سردی نہیں آتی، وہاں ہر وقت گرمی رہتی ہے شاید اسی لیے انگریزوں نے اکتوبر 1874ء میں فجی پر قبضہ کر کے وہاں وسیع پیمانے پر گنا کاشت کیا، شوگر ملز لگائیں اور پورے خطے کو چینی سپلائی کرنے لگے۔
آک لینڈ ہماری پہلی منزل تھا، میں اور مظہر بخاری آک لینڈ کے ائیر پورٹ پر اترے تو ہماری زندگی سے دو گھنٹے غائب ہو چکے تھے، ہم دنیا سے مزید دو گھنٹے پیچھے آگئے، شہر تین اطراف سے سمندر میں گھرا تھا، آپ جہاز کی کھڑکی سے باہر جھانکیں تو آپ کو محسوس ہو گا جہاز شاید پانی پر اتر رہا ہے لیکن پھر اچانک رن وے آجاتا ہے، شہر کا پہلا تاثر اچھا ہے، سرسبز پہاڑیاں ہیں، آک لینڈ صاف ستھرا خوبصورت شہر ہے، شہر کے دو اطراف سمندر ہے، پہاڑیوں پر سڑکیں اور مکان بنے ہیں، پولوشن بالکل نہیں، آپ کو دور دور تک سمندر، افق اور ستارے نظر آتے ہیں۔
یہ شہر بلکہ پورا ملک ریٹائر منٹ کے لیے بہترین جگہ ہے، آپ اگر خوش حال ہیں اور آپ زندگی کا آخری حصہ آرام سے گزارنا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے نیوزی لینڈ دنیا کا بہترین ملک ثابت ہو گا کیونکہ ملک چھوٹا ہے، موسم شاندار ہے، امیگریشن بہرحال سخت ہے، ہمیں ائیرپورٹ پر دقت کا سامنا کرنا پڑا، ملک میں ساڑھے سات ہزار پاکستانی ہیں، اکثر پاکستانی پڑھے لکھے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں، اسٹوڈنٹس کی تعداد زیادہ ہے، یہ لوگ پی ایچ ڈی کرنے آتے ہیں اور مستقل یہاں رہ جاتے ہیں، حلال گوشت بآسانی مل جاتا ہے، وجہ؟ نیوزی لینڈ ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کا حلال گوشت عرب ممالک کو سپلائی کرتا ہے چنانچہ ملک میں حلال گوشت کی فراوانی ہے۔
ڈیری مصنوعات بڑی ایکسپورٹ ہیں، ملک کی کل آبادی 45 لاکھ70 ہزار ہے لیکن بھیڑیں ایک کروڑ 40 لاکھ ہیں، آپ جدھر نظر اٹھائیں آپ کو بھیڑیں ہی بھیڑیں نظر آئیں گی، بھیڑوں کی اون بھی ملک کی بڑی پراڈکٹ ہے، یہ اون پوری دنیا میں بکتی ہے، ہمیں آک لینڈ میں خالد بلوچ ملے، یہ کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں اور گزشتہ 15 برس سے نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں، ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ ہیں، یہ ہر قسم کے مظاہرے میں پہلی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں، یہ پاسپورٹ کی وجہ سے پریشان تھے، ان کا کہنا تھا پاکستانی سفارت خانے میں مشین ریڈایبل پاسپورٹ کی سہولت نہیں، نیوزی لینڈ میں مقیم پاکستانیوں کو پاسپورٹ کے لیے آسٹریلیا جانا پڑتا ہے جس پر ان کے ڈیڑھ دو ہزار ڈالر خرچ ہو جاتے ہیں۔
یہ پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ظلم ہے، حکومت اگر کوئی ایسا بندوبست کر دے جس کے ذریعے لوگوں کی بائیو میٹرک یہاں ہو جائے اور پاسپورٹ آسٹریلیا سے بن کر آ جائے تو اس سے تین ہزار خاندانوں کا بھلا ہو جائے گا، یہ مطالبہ درست ہے چنانچہ میری جناب سرتاج عزیز سے درخواست ہے آپ مہربانی کریں اور یہ مسئلہ حل کرا دیں۔ آک لینڈ کبھی آتش فشانوں کی سرزمین ہوتا تھا، آج بھی شہر میں آتش فشاں کے گڑھے موجود ہیں، ہم بھی ایک گڑھے کی "زیارت، کے لیے پہاڑ کی چوٹی پر چلے گئے۔
یہ مائونٹ ایڈم تھی، پہاڑی کے گرد خوبصورت مکان بنے تھے اور اوپر چوٹی پر آتش فشانی گڑھا تھا، گڑھے کے گرد ٹریک تھا، لوگ ٹریک پر گڑھے کا طواف کرتے ہیں اور تصویریں بنواتے ہیں۔ آک لینڈ کے مضافات میں تین بڑی تفریح گاہیں ہیں، ماٹا ماٹا شہر آک لینڈ سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے، اس شہر سے بیس منٹ کے فاصلے پردی لارڈ آف دی رنگز اوردی ہوبٹ جیسی معرکۃ الآراء فلموں کے سیٹ ہیں، یہ فلمیں ہالی ووڈ کے مشہور فلم ساز پیٹر جیکسن نے 2001ء اور 2012ء میں بنائیں، فلم کے لیے اصلی لوکیشن تلاش کی گئی۔
یہ ماٹا ماٹا کے جاگیردار الیگزینڈر کا فارم ہائوس تھا، یہ جگہ حقیقتاً جنت کا ٹکڑا محسوس ہوتی ہے، فارم ہائوس کے دائیں بائیں سرسبز پہاڑیاں ہیں، پہاڑیوں کے درمیان ہزاروں سال پرانے بلند و بالا درخت اور ندیاں ہیں، آپ کو دور دور تک کھلا آسمان اور کائنات کی وسعت بھی دکھائی دیتی ہے اور بادلوں اور قوس قزح کے مٹتے بنتے رنگ بھی۔ پیٹر جیکسن نے یہ لوکیشن بڑی محنت کے بعد تلاش کی اور پہاڑوں کے درمیان بونوں کی پوری بستی آباد کر دی، پہاڑوں میں بونوں کے گھر، کھیت اور باغ بنائے گئے، جھیل کے کنارے پن چکی لگائی گئی اور پن چکی کے ساتھ مشہور زمانہ گرین ڈریگن بار بنایا گیا، فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی تو اڑھائی ہزار لوگوں کا اسٹاف ماٹا ماٹا آیا اور یہاں پورا شہر آباد ہو گیا، فلم بنی اور اس نے تہلکہ مچا دیا، پیٹر جیکسن چلا گیا لیکن سیٹ رہ گیا، یہ سیٹ اب سیاحوں کی شاندار تفریح گاہ ہے۔
ماٹا ماٹا سے گائیڈڈ ٹور ملتا ہے، سیاح بسوں میں بیٹھ کر یہاں آتے ہیں، سیٹ دیکھتے ہیں اور پیٹر جیکسن کے کام کی تعریف کرتے ہیں، پیٹر جیکسن نے "دی لارڈ آف دی رنگز" سے 871 ملین ڈالر کمائے لیکن نیوزی لینڈ کی حکومت سیاحوں کو یہ سیٹ دکھا دکھا کر ہر سال کروڑوں ڈالر کما رہی ہے، ماٹا ماٹا کے بعد "روٹروا" کا شہر آتا ہے، یہ شہر اپنے زندہ آتش فشانوں، گندھک کے گرم چشموں اور غاروں میں چمکنے والے کیڑوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، لوگ یہاں آتے ہیں اور سارا دن گندھک کے گرم چشموں کے گرم پانیوں میں لیٹے رہتے ہیں، شہر کے مضافات میں ایسے غار بھی ہیں جن میں ایسے لاکھوں کیڑے ہیں جو اندھیرے میں جگنو کی طرح روشنی دیتے ہیں اور دیکھنے والوں کو "اللہ اکبر" کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ "روٹروا" کے بعد ٹاپو کا شہر آتا ہے، یہ شہر ٹاپو جھیل کے کنارے آباد ہے، یہ وسیع جھیل ہے۔
ہم نے جب یہ جھیل دیکھی تو ہم شروع میں اسے سمندر سمجھتے رہے لیکن یہ جھیل جھیل ہی نکلی، جھیل کے گرد پہاڑیاں ہیں، پہاڑیوں پر برف گری تھی، دور دور تک جنگل اور سبزے کے قطعات نظر آتے تھے، بھیڑیں بھی تھیں، سیاہ گائے بھی اور اس وسیع پینٹنگ میں ٹاپو کا خوبصورت قصبہ تھا، جھیل کے گرد ہوٹلوں اور ریستوران کی طویل قطار تھی، میں نے بے شمار صبحیں طلوع ہوتی دیکھی ہیں لیکن ٹاپو کی صبح میں ایک عجیب سحر تھا، پانی کے اوپر دھند کی چادر تھی، دھند سے اوپر برف پوش پہاڑ تھے، پہاڑ کی اترائیوں پر گھنے جنگل تھے، جنگلوں کی بغلوں میں سبز چرا گاہیں تھیں، چرا گاہوں میں بھیڑیں چھوٹے چھوٹے نقطوں کی طرح جڑی تھیں اور ان نقطوں کے دائیں بائیں ٹھنڈی یخ ہوائیں ہلکورے لے رہی تھیں، درجہ حرارت منفی میں تھا، یہ منظر صرف منظر نہیں تھا، یہ ایک تصویر تھی۔
ایک افق سے دوسرے افق تک پھیلی تصویر، ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک وسیع تصویر اور میں اس تصویر کے سامنے کھڑا تھا، میرے سامنے سورج نے کہر سے جنم لیا، جھیل کے دھند میں لپٹے پانی کو آگ لگی، بھیڑوں کے منجمد وجود میں حرکت پیدا ہوئی، ہوائوں کی چال بدلی، درختوں نے بے تابی سے دائیں بائیں دیکھنا شروع کیا اور برف پوش پہاڑوں کے چہروں پر حیا کی لالی دوڑ گئی، مشرق مشرق ہو گیا، سچا اور کھرا مشرق، وہ لمحہ میری زندگی کا لازوال لمحہ تھا، ایک ایسا لمحہ جب انسان کے اندر ایک نیا انسان جنم لیتا ہے۔
جب فرد سیپ بن جاتا ہے اور اس سیپ کے اندر سیکڑوں موتی چمکنے لگتے ہیں، میں سورج کے دیس میں ایک بار پھر جنم لے رہا تھا، اپنی جلی بجھی راکھ میں دوبارہ سر اٹھا رہا تھا، قفس کی طرح، راگوں کی آگ میں جلے بجھے پرندے کی طرح دوبارہ پیدا ہو رہا تھا، کھڑکی سے باہر یخ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں اور کھڑکی کے اندر پرانے، پھٹے اور بودار انسان کے اندر سے ایک نیا نکور انسان نکل رہا تھا۔