یہ پرانی بات ہے، میاں نواز شریف کا اقتدار ختم ہو چکا تھا، یہ وزیراعظم سے ملزم بن چکے تھے، ان پر طیارہ ہائی جیک کرنے کا الزام تھا، یہ جنرل پرویز مشرف کی عدالتوں میں پیش ہوتے تھے اور یہ ملک کی مختلف جیلوں میں بھجوائے جاتے تھے، میاں صاحب کو2000ء کے شروع میں راولپنڈی جیل سے لانڈھی جیل کراچی منتقل کیا گیا، میاں صاحب جیل پہنچے تو ان کے ساتھ وہاں انتہائی توہین آمیز سلوک کیا گیا، قواعد کے مطابق پولیس ملزموں اور مجرموں کو جیل کے عملے کے حوالے کرتی ہے، ملزمان کی وصولی کا یہ فریضہ عموماً اسٹنٹ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ادا کرتے ہیں، یہ کاغذات وصول کرتے ہیں، ملزم سے اس کا نام اور جرم پوچھتے ہیں، رجسٹر میں لکھتے ہیں اور ملزم کی وصولی کی رسید جاری کر دیتے ہیں، یہ قاعدہ عام ملزموں کے لیے ہے، وی وی آئی پی یا سیاسی قیدیوں کو جیل میں تکریم دی جاتی ہے، ان سے صرف دستخط لیے جاتے ہیں، ان سے تصدیقی سوال نہیں پوچھے جاتے لیکن میاں نواز شریف کو اس عمل سے بھی گزارا گیا، میاں صاحب کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے سامنے پیش کیا گیا، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کرسی پر بیٹھا تھا، اس نے رجسٹر کھولا اور نہایت بدتمیزی سے کہا " نام بتاؤ" میاں صاحب نے جواب دیا "میاں محمد نواز شریف" سپرنٹنڈنٹ کا اگلا سوال تھا "والد کا نام بتاؤ" میاں صاحب نے بتایا " میاں محمد شریف" اس سے اگلی بات انتہائی نامناسب تھی، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے کہا " سوچ کر بتاؤ" میاں نواز شریف یہ بات پی گئے، میاں صاحب کی جیب میں پین تھا، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے ہاتھ بڑھا کر وہ پین میاں صاحب کی جیب سے نکالا اور کہا " تم یہاں پیپر دینے آئے ہو" میاں صاحب نے اس کی طرف غور سے دیکھا مگر خاموش رہے۔
مجھے یہ واقعہ مخدوم جاوید ہاشمی نے سنایا تھا، یہ سناتے ہوئے ہاشمی صاحب کا گلہ روند گیا تھا جب کہ میرا دل بوجھل ہو گیا تھا، آپ بھی اس وقت کو تصور میں لائیے، آپ کو بھی یقینا افسوس ہو گا، میاں نواز شریف دوسری بار ملک کے وزیراعظم بنے تھے، یہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے جو دو تہائی اکثریت لے کر ایوان میں پہنچے اور انھیں صرف اس "غلطی" کی سزا مل رہی تھی کہ انھوں نے 22 ویں گریڈ کے ایک افسر جنرل پرویز مشرف کو عہدے سے ہٹانے کی جرأت کی تھی، میاں صاحب کے اس جرم کی پاداش میں منتخب حکومت کو گھر بھجوا دیا گیا، شریف خاندان کو گرفتار کر کے جیلوں میں پھینک دیا گیا، اسمبلیاں توڑ دی گئیں اور ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔
کیا یہ واقعی اتنا بڑاجرم تھا کہ ملک کو مارشل لاء کے اندھیروں میں بھی دھکیل دیا جاتا اور ملک کے منتخب وزیراعظم کو اٹک کے اس قلعے میں بھی رکھا جاتا جس میں دن کے وقت بھی سانپ رینگتے رہتے تھے، یہ سلوک صرف یہاں تک محدود نہیں تھا، میاں نواز شریف کو اٹک قلعے سے نکال کر ملک کی مختلف جیلوں کی سیر بھی کرائی گئی، انھیں ائیر ٹائیٹ بکتر بند گاڑیوں میں عدالت لایا جاتا، طیارے میں ان کا بازو سیٹ سے باندھ دیا جاتااور ان کی ساری پراپرٹی ضبط کر کے انھیں پورے خاندان سمیت جلا وطن کر دیا گیا اور یہ وہاں سے واپس آئے تو انھیں دھکے دے کر، ان کے کپڑے پھاڑ کر، انھیں طیارے میں پھینک کر واپس سعودی عرب بھجوا دیا گیا، کیا کسی جمہوری لیڈر کے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہیے؟
لیکن میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ یہ ہوا اور یہ سلوک بھی ریاستی اداروں نے جنرل پرویز مشرف کی ایما پر کیا، میاں نواز شریف کو اس دور میں جنرل محمود کے لہجے نے زیادہ تکلیف دی تھی، جنرل محمود بارہ اکتوبر 1999ء کو راولپنڈی میں کورکمانڈر تھے، یہ میاں نواز شریف سے استعفیٰ لینے کے لیے ان کے پاس گئے تھے، میاں صاحب نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا، جاوید ہاشمی کے بقول جنرل محمود نے میاں نواز شریف کو دھمکی بھی دی۔
میاں صاحب جلا وطنی کے دوران اس سلوک پر بہت دل گرفتہ تھے، وہ جنرل محمود اور ان کے لہجے کو کبھی فراموش نہیں کر سکے، جنرل عزیز اس وقت ڈی جی ملٹری آپریشن تھے، میاں نواز شریف کو ان کے رویئے پر بھی افسوس تھا، جنرل عزیز کارگل کی جنگ میں بھی ملوث تھے، ان کی غلط پالیسی کی وجہ سے پاک فوج کے تین ہزار جوان اور آفیسر شہید ہوئے، میاں نواز شریف جنرل مشرف کے ساتھ ان کا کورٹ مارشل بھی کرنا چاہتے تھے لیکن ان دونوں جرنیلوں نے حکومت کا تختہ الٹ دیا، اپنی نوکری بچا لی مگر پورا سسٹم برباد کر دیا، میاں نواز شریف جنرل کیانی کے رویئے سے بھی خوش نہیں تھے، میاں نواز شریف 10 ستمبر 2007ء کو لندن سے اسلام آباد پہنچے تھے، جنرل کیانی اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، میاں نواز شریف کو اسلام آباد سے سعودی عرب واپس بھجوانے کا فریضہ جنرل کیانی کے لوگوں نے نبھایا تھا۔
یہ وہ واقعات ہیں آپ کو جن کا اثر میاں نواز شریف کی نفسیات پر دکھائی دے رہا ہے، آٹھ سال کی جلاوطنی، پاکستان پیپلز پارٹی کی پانچ سال کی بیڈ گورننس اور 2013ء کے الیکشن میں میاں نواز شریف کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوششیں، ان تمام چیزوں نے میاں صاحب پر اثر کیا اور آپ کو یہ اثر اب ان کے چہرے پر نظر آتا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر زبردستی بٹھایا گیا ہو اور یہ بھاگنے کا موقع تلاش کر رہے ہوں۔
یہ ایک حقیقت ہے، آپ اب دوسری حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے، وہ جنرل پرویز مشرف جس نے 12 اکتوبر 1999ء کو صرف دو جیپیں وزیراعظم ہاؤس بھجوا کر دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت کو گھر بھجوادیا تھا، وہ عدالت سے بچنے کے لیے 48 دن اسپتال میں رہے، وہ 18 فروری کو رینجرز کے نرغے میں عدالت پیش ہوئے تو انھیں ملزم کے کٹہرے کے ساتھ کرسی پر بٹھا دیا گیا، خصوصی ٹریبونل کمرے میں داخل ہوا تو اسے جنرل پرویز مشرف نظر نہ آئے، ٹریبونل کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے اونچی آواز میں پوچھا " ملزم کہاں ہے" جنرل پرویز مشرف یہ تین لفظ سن کر اپنی کرسی سے اٹھے اور اس عدالت کو سیلوٹ کیا جسے انھوں نے 9 مارچ 2007ء کو اپنی انا کے قدموں میں روند دیا تھا، عدالت نے ملزم کو دیکھا اور مسکرا کر واپس اسپتال بھجوا دیا، یہ جنرل مشرف کا انجام ہے، آپ جنرل محمود کی کہانی بھی ملاحظہ کیجیے، جنرل پرویز مشرف اور جنرل محمود کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے، جنرل مشرف نے اس جنرل محمود کو فارغ کر دیا جس نے کبھی میاں نواز شریف سے استعفیٰ لینے کے لیے اخلاقیات کی ساری حدود کراس کر دی تھیں، یہ جنرل محمود بے روزگار ہوئے، چند دوست درمیان میں آئے اور جنرل محمود کو ریٹائرمنٹ کے بعد فوجی فرٹیلائزر کا سربراہ بنا دیا گیا، جنرل مشرف کی بدلتی ہوئی نظریں جنرل محمود کی نفسیات پر اثرانداز ہوئیں، یہ مذہب کی طرف چلے گئے، داڑھی رکھی، تبلیغی جماعت میں شامل ہوئے اور یہ اب دوسری بار ریٹائر ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے میں مصروف ہیں۔
میاں نواز شریف 4 نومبر 2013ء کو خیر پور ٹامیوالی گئے، یہ فوج کی مشقیں دیکھنے وہاں گئے، جنرل عزیز بھی اس تقریب میں شریک تھے، میاں نواز شریف ظہرانے کے دوران جنرل عزیز کے عین سامنے بیٹھے تھے، جنرل عزیز اور میاں نواز شریف دونوں کو اس وقت یقینا 1999ء کے وہ دن اور وہ راتیں یاد آئی ہوں گی جب جنرل عزیز نے میاں نواز شریف پر عرصہ حیات تنگ کر دیاتھا اور پیچھے رہ گئے جنرل اشفاق پرویز کیانی۔
جنرل کیانی صاحب کو شریف النفس اور فلاسفر آرمی چیف کہا جاتا تھا، سگریٹ اور کتاب جنرل صاحب کی دو کمزوریاں تھیں، یہ سروس کے دوران یس سر اور یس باس رہے تھے، شاید اسی لیے جنرل کیانی نے میاں نواز شریف کو اسلام آباد ائیر پورٹ سے سعودی عرب بھجوانے کا بندوبست کیا تھا لیکن پھر وہ وقت بھی آیا جب جنرل کیانی میاں نواز شریف کو سیلوٹ کر رہے تھے اور یہ میاں نواز شریف سے وقت لے کر ان سے ملاقات کے لیے جاتے تھے، آج کل خبر گردش کر رہی ہے جنرل کیانی سیکیورٹی کی وجہ سے فیملی سمیت دوبئی شفٹ ہونا چاہتے ہیں لیکن فوجی قیادت انھیں اجازت نہیں دے رہی، ان کے دست راست جنرل پاشا پہلے ہی یو اے ای میں نوکری کر رہے ہیں۔
آپ اگر پچھلے پندرہ سال کے اس عروج و زوال کی داستان پڑھیں تو آپ کو جمہوریت کی طاقت پر یقین آ جائے گا، پاکستان میں اگر جمہوریت نہ ہوتی توشاید وہ میاں نواز شریف کبھی واپس نہ آتے جن کی جیب سے جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے یہ کہہ کر پین نکال لیا تھا "تم یہاں پیپر دینے آئے ہو" یہ صرف جمہوریت، ووٹ اور بیلٹ باکس کی طاقت ہے جس کی وجہ سے آج وہ شخص تیسری بار ملک کا وزیراعظم ہے جسے جیل میں رکھنے، سزا دینے، جلاوطن کرنے اور انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لیے بار بار پوری ریاستی طاقت استعمال ہوئی، یہ بھی جمہوریت کا کمال ہے کہ وہ جنرل پرویز مشرف جو بیک جنبش قلم پوری سپریم جوڈیشری کو گھر بھجوا دیتا تھا وہ آج خود اسی جوڈیشری کے رحم و کرم پر ہے۔
ہماری سیاسی لاٹ نے اپنی آنکھوں سے جمہوریت کا یہ معجزہ دیکھا مگر اس کے باوجود ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین فوج کو دعوت دے رہے ہیں، یہ فوج سے فرما رہے ہیں "آپ ملک کو "ٹیک اوور" کر لیں " کاش یہ بیان دینے سے قبل الطاف حسین ایک بار اس منظر کو نگاہوں میں لے آتے جب جنرل عزیز میاں نواز شریف کے سامنے بیٹھے تھے، جنرل کیانی میاں نواز شریف کو سیلوٹ کر رہے تھے اور جسٹس فیصل عرب عدالت میں یہ صدا لگا رہے تھے " ملزم جنرل پرویز مشرف کہاں ہیں " اور کاش اس بیان پر خوش ہونے والے لوگ بھی ایک بار، صرف ایک بار جنرل محمود کے تبلیغی سیشن میں شریک ہو جائیں، یہ ٹریبونل کے لیے جنرل مشرف کا سیلوٹ دیکھ لیں، کاش ایک بار ایسا ہو جائے، مجھے یقین ہے یہ بھی جمہوریت کی طاقت پر یقین کر لیں گے، یہ بھی بیلٹ باکس کو سیلوٹ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔