تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں سے ہوا تھا، میری نسل کے لوگ بچپن میں جب بھی 1965ء کی جنگ کا احوال پڑھتے تھے تو انھیں دو فقرے ضرور سہنا پڑتے تھے۔
رات کی سیاہی میں بزدل دشمن نے لاہور پر حملہ کر دیا اور دوم فیلڈ مارشل ایوب خان نے 10 جنوری 1966ء کو جیتی ہوئی جنگ تاشقند میں میز پر ہار دی، بڑے ہوئے تو پتہ چلا 1965ء کی جنگ ہم نے شروع کی تھی۔
ہم نے اکھنور کا محاذ کھولا اور ٹینشن آہستہ آہستہ جنگ کی شکل اختیار کر گئی، یہ بھی معلوم ہوا ذوالفقار علی بھٹو نے تاشقند کے معاہدے کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا، ایوب خان اس وقت تک جسمانی اور سیاسی لحاظ سے کمزور ہو چکے تھے۔
ملک میں ان کے خلاف نفرت بھی پائی جاتی تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کو غیرت کا پرچم بنایا اور بدنصیب جذباتی قوم کے سر پر لہرانا شروع کر دیا اور ہم لوگ کیونکہ ہر جذباتی نعرے اور دعوے کو حقیقت مان لیتے ہیں چنانچہ ہم نے بھٹو صاحب کا پرچم بھی تھام لیا، بھٹو پوری زندگی دعویٰ کرتے رہے " میں آپ کو بتائوں گا تاشقند میں کیا ہوا تھا" اور قوم پوری زندگی بھٹو کی پٹاری کھلنے کا انتظار کرتی رہی لیکن تاشقند میں کیا ہوا قوم کو آج تک معلوم نہ ہو سکا۔
مزید بڑے ہوئے تو معلوم ہوا معاہدے کے لیے بھارت کی طرف سے وزیراعظم لال بہادر شاستری تاشقند آئے تھے، پاکستان کی طرح معاہدے کے بعد بھارت میں بھی شور ہو گیا، شاستری نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار دی، عوام نے وزیراعظم ہائوس کا گھیرائو کر لیا، شاستری نے خیریت معلوم کرنے کے لیے گھر فون کیا، بیٹی نے رو رو کر کہا " باپو آپ نے قوم کی ناک کٹوا دی" شاستری نے اسے اطمینان دلانے کی کوشش کی، بیٹی نے باپ کے بجائے عوامی رائے پر یقین کیا، شاستری جی عوام کی غلط فہمی کو دل پر لے گئے۔
معاہدے کی رات انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ ہوٹل تاشقند میں آنجہانی ہو گئے، میں نے کل ہوٹل تاشقند کا بیرونی دورہ کیا اور شاستری کے کمزور دل سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
اس رات کی ایک اور لائن بھی تاریخ میں محفوظ ہو گئی، کسی نے آدھی رات بھٹو کا دروازہ بجایا، بھٹو نے اندر سے پوچھا " ہوز دیئر" جواب آیا " باسٹرڈ از ڈائیڈ" بھٹو نے پوچھا " وچ ون، ان کا یا ہمارا"۔ ہم لوگ مزید بڑے ہوئے تو امیر تیمور کی بائیو گرافی پڑھنا شروع کر دی اور امیر تیمور کے ساتھ ساتھ ازبکستان کے رومان میں بھی گرفتار ہو گئے اور دل میں جاگتی آنکھوں اور دوڑتے قدموں کے ساتھ بخارا اور سمرقند دیکھنے کی خواہش کا بیج بو دیا۔
یہ بیج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تناور درخت بن گیا یہاں تک کہ 6 ستمبر 2012ء آ گیا اور میں نے ایک بار پھر معاہدہ تاشقند کا واویلا سنا اور اس کے ساتھ ہی ازبکستان جانے کا فیصلہ کر لیا، میرے دوست قمر راٹھور کو علم ہوا تو یہ بھی میرے ساتھ شامل ہو گئے، ازبکستان کے سفیر تبدیل ہو گئے تھے، ویزہ قونصلر ظفر صاحب بھی اسلام آباد میں نہیں تھے، میں نے ازبک ائیر لائن کے حامد محمود سے درخواست کی اور انھوں نے بڑی مشکل سے ایک دن میں ویزے کا بندوبست کیا اور یوں ہم دونوں 21 ستمبر کو تاشقند پہنچ گئے۔
تاشقند پاکستان سے بہت نزدیک ہے، فلایٹ صرف ڈھائی گھنٹے میں لاہور سے تاشقند پہنچ جاتی ہے، پاکستان اور تاشقند کا ٹائم بھی یکساں ہے، پاکستان میں بارہ بجتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی تاشقند میں بھی بارہ بج جاتے ہیں، وقت کی اس یکسانیت کے بارے میں معلوم ہوا، ازبکستان کی حکومت اور عوام پاکستان کو بہت پسند کرتے تھے، ازبکستان 29 اگست 1991ء میں آزاد ہوا۔
آزادی کے بعد معیاری وقت کے تعین کا مرحلہ آیا تو ازبکستان نے چپ چاپ پاکستان کے معیاری وقت کو اپنا معیاری وقت بنا لیا، ازبکستان نے 1995ء میں اپنی کرنسی " سم" لانچ کی، اس وقت ایک ڈالر 35 روپے میں آتا تھا، ازبکستان نے بھی ڈالر کا ایکس چینج ریٹ 35 سم طے کر دیا۔
1995-96ء میں ازبکستان میں 60 ہزار پاکستانی تھے اور یہ لوگ پاکستانیوں کو بہت پسند کرتے تھے لیکن افغانستان میں طالبانائزیشن کے بعد ازبکستان کے پاکستان سے تعلقات خراب ہو گئے، طالبان نے اس دور میں سمرقند اور بخارہ پر قبضے کا اعلان کر دیا تھا اور ازبکستان کی حکومت کا خیال تھا پاکستان اور آئی ایس آئی طالبان کو سپورٹ کر رہی ہے۔
ازبکستان نے پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا اور ایک وقت ایسا آیا جب تاشقند میں صرف 14 پاکستانی رہ گئے اور ان میں سے بھی 9 سفارتکار تھے، یہ اختلافات جنرل پرویز مشرف کے دور تک جاری رہے، جنرل مشرف کے دور میں تعلقات دوبارہ بحال ہوئے اور اب برف آہستہ آہستہ پگھل رہی ہے۔
تاشقند ایک دلچسپ شہر ہے، شہر انتہائی خوبصورت اور صاف ستھرا ہے، ازبک لوگ بھی فطرتاً صاف ستھرے لوگ ہیں، یہ گھروں، ماحول اور گلی کوچوں کی صفائی کا خصوصی خیال رکھتے ہیں، ازبک بچیاں شام کو جھاڑو لے کر گھر سے نکلتی ہیں اور گلی صاف کرتی ہیں، تمام دفاتر میں ہفتے کے دن صفائی کی جاتی ہے اور اس میں باس سے لے کر ملازمین تک حصہ لیتے ہیں، لاء اینڈ آرڈر مثالی ہے۔
عوام پورے ملک میں بلا خوف پھرتے ہیں، نوجوان لڑکیاں آدھی آدھی رات کو اکیلی گھومتی ہیں اور کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا، ٹریفک رولز پر سختی سے عمل ہوتا ہے، آپ وزیر ہوں یا جنرل ٹریفک رولز کی خلاف ورزی پر آپ کو ہر حال میں سزا ہو گی۔ آزادی کے بعد ازبکستان میں بھی طالبانائزیشن شروع ہو گئی تھی۔
ملک میں بم دھماکے اور قتل وغارت گری بھی ہوئی لیکن حکومت نے امن خراب کرنے والے لوگوں کو اڑا کر رکھ دیا، ملک میں منشیات، اسلحہ اور تبلیغ تینوں پر سخت پابندی ہے، یہ ان تینوں " جرائم" پر ملزموں کو سزائے موت تک دے دیتے ہیں، دفاتر اور کھلی جگہوں پر نماز ادا نہیں کی جا سکتی، آپ مسجد یا گھر میں نماز پڑھ سکتے ہیں، داڑھی رکھنے پر پابندی تھی لیکن اب آہستہ آہستہ اس قانون میں نرمی کی جا رہی ہے، داڑھی پر پابندی کی وجہ سے مسجدوں کے امام بھی داڑھی کے بغیر نماز پڑھاتے ہیں۔
ملک میں گاڑی چوری کی سزا بھی موت ہے لہٰذا ملک میں گاڑی چوری کا واقعہ نہیں ہوتا، حکومت کے پاس دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے وسیع اختیارات ہیں اور عدالتیں اس معاملے میں حکومتی کام میں مداخلت نہیں کرتیں، ڈرائیونگ لائسنس کے لیے مکینک ہونا ضروری ہوتا ہے، حکومت کی کوشش ہوتی ہے صرف ان لوگوں کو لائسنس دیے جائیں جو ایمرجنسی میں گاڑی ٹھیک کر سکیں اور گاڑی کو ورکشاپ تک پہنچا سکیں، لوگ محنتی ہیں،
بالخصوص عورتیں کام کرتی ہیں، آپ کو فٹ پاتھ پر خوانچہ فروشوں سے لے کر آفس تک ہر جگہ خواتین کام کرتی دکھائی دیتی ہیں، چارسو تاشقند کا قدیم ترین بازار ہے، اس بازار میں مصالحہ جات اور ڈرائی فروٹ کی دو ہزار سال پرانی مارکیٹ ہے، اس مارکیٹ پر خواتین کا قبضہ ہے، یہ سبز رنگ کی گول مارکیٹ ہے جس کے اندر سیکڑوں اوپن دکانیں ہیں اور کائونٹر نما دکانوں پر مصالحہ جات اور ڈرائی فروٹ کے کنستر اور ٹوکریاں رکھی ہیں، چارسو میں فروٹس، سبزی اور گوشت کی بھی سیکڑوں دکانیں ہیں۔
ازبکستان کی کرنسی بہت سستی ہے، ڈالر کے گورنمنٹ اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں بہت فرق ہے، حکومت ایک ڈالر کے انیس سو سم دیتی ہے جب کہ اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کے 27 سو سم مل جاتے ہیں، آپ سو ڈالر تبدیل کراوئیں تو آپ کو دو لاکھ ستر ہزار سم مل جائیں گے، میں نے دنیا میں ازبکستان سے زیادہ کسی جگہ کرنسی کی اتنی بے قدری نہیں دیکھی، لوگ تھیلوں اور شاپنگ بیگز میں نوٹ ڈال کر پھرتے ہیں، افراط زر انتہائی زیادہ ہے، آپ کو پانی کی بوتل تین چارہزار سم میں ملتی ہے۔
آپ ایک وقت کا کھانا تیس چالیس ہزار سم میں کھاتے ہیں لیکن افراط زر کے باوجود کھانے پینے کی اشیاء بہت سستی ہیں، ازبکستان میں فروٹ ارزاں اور وافر ہے، اناج اور گوشت بھی پاکستان سے سستا ہے، کھانے پینے کی اشیاء کی کوالٹی بہت اچھی ہے، ملاوٹ اور جعلی اشیاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لوگ بے انتہا مہمان نواز ہیں، آپ کسی کے گھر چلے جائیں وہ آپ کو چائے پلائے بغیر نہیں جانے دے گا، معاشرہ محفوظ ہے چنانچہ لوگ اجنبیوں کے لیے گھروں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔
خست امام شہر کا قدیم علاقہ ہے، یہ امام کفل ششی کا علاقہ ہے، امام صاحب امیر تیمور سے قبل اس علاقے میں آئے تھے اور انھوں نے ہزاروں لوگوں کو اسلام کے دائرے میں داخل کیا تھا، امیر تیمور نے خست امام کا مزار بنوایا، موجودہ حکومت نے مزار کے سامنے شاندار مسجد بنوائی، یہ مسجد بھی عجوبہ ہے، خست امام میں حضرت عثمان غنی ؓ کا قرآن مجید بھی زیارت کے لیے موجود ہے، ازبک لوگوں کا دعویٰ ہے یہ وہ قرآن مجید ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمان غنیؓ شہید ہوئے تھے، اسی قسم کا ایک قرآن مجید استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں بھی موجود ہے، ان دونوں میں اصل کون سا ہے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
خست امام کے دائیں بائیں تاشقند کا قدیم شہر واقع ہے، یہ شہر کچی مٹی سے بنا ہوا ہے، گلیاں تنگ مگر صاف ستھری ہیں، ہر گھر میں صحن ہے اور صحن میں انگور کی بیلیں، خوبانی، آلو بخارہ اور سیب کے درخت ہیں، گھروں کے کمرے مستطیل ہوتے ہیں اور صحن کے چاروں اطراف بنائے جاتے ہیں، کمروں کے سامنے طویل برآمدہ ہوتا ہے اور برآمدے میں ایک بڑا تخت ہوتا ہے جس پر سارا خاندان کھانا کھاتا ہے، تاشقند کے ہر محلے میں ایک سرکاری گھر ہوتا ہے، یہ گھر دراصل اولڈ پیپل ہوم ہوتا ہے، محلے کے بوڑھے اس گھر میں جمع ہو جاتے ہیں۔
یہ سارا دن یہاں شطرنج اور تاش کھیلتے ہیں، گھر میں چھوٹا سا کچن بھی ہوتا ہے، یہ اس کچن میں چائے اور کھانے کا بندوبست کر لیتے ہیں، یہ لوگ اسلام سے بے انتہا محبت کرتے ہیں، کھانے کے بعد دعا ان کا معمول ہے، یہ قبرستان کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں، رحمت ان کا خدا حافظ ہے۔
یہ رخصت ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو رحمت کہتے ہیں اور سینے پر ہاتھ باندھ کر سلام کرتے ہیں، معاشرہ لبرل ہے لوگ ایک دوسرے کے معاملات میں ناک نہیں گھسیڑتے، مسجد اور کلب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور کوئی دوسرے کے راستے میں نہیں آ رہا۔ امیر تیمور اپنے ازبکستان کو دنیا کا خوبصورت ترین ملک کہتا تھا اور اس ملک میں داخل ہونے کے بعد آپ کو تیمور کا دعویٰ غلط نہیں لگتا۔
لوگ اور ماحول دونوں انتہائی خوبصورت اور پرکشش ہیں۔ میں آج حضرت امام بخاری اور حضرت بہائوالدین نقش بند کے بخارہ پہنچ گیا ہوں، اگلے کالم میں بخارہ کا احوال لکھوں گا۔