Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Team, Team Aur Team

Team, Team Aur Team

آپ رونلڈ ریگن کی مثال لیجیے، ریگن جوتوں کے سیلزمین کا بیٹا تھا، ریڈیو پر اسپورٹس انائونسر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔

وارنر برادرز کے اسٹوڈیو میں دو سو ڈالر تنخواہ پر ملازم ہوا، اسٹوڈیو میں کام کرتے کرتے اداکار بن گیا، پچاس سے زائد فلموں میں کام کیا، ہیرو بھی رہا لیکن صف اول کا اداکار نہ بن سکا، دوسری جنگ عظیم میں ائیر فورس میں چلا گیا وہاں بھی کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہ دے سکا، جنگ ختم ہوئی تو ہالی ووڈ میں واپس آ گیا، مزید 54 فلموں میں کام کیا مگر عالمی شہرت نہ ملی، مایوس ہو گیا تو سیاست کے کنوئیں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی، ڈیموکریٹک پارٹی سے ہوتا ہوا ری پبلکن پارٹی میں آ گیا، دو بار کیلیفورنیا کا گورنر منتخب ہوا لیکن یہاں بھی کوئی کمال نہ کر سکا، 1980ء میں جب اس کی عمر 70 سال تھی تو اچانک صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا، جمی کارٹر جیسے شخص کے ساتھ مقابلہ ہوا اور وہ الیکشن جیت گیا، ریگن امریکا کا 40 واں صدر بن گیا۔

ریگن 20 جنوری 1981ء کوجب وائٹ ہائوس میں داخل ہوا تو یہ بوڑھا بھی تھا، کمزور بھی اور عمر بھر کا مایوس بھی، یہ دنیا میں سفارتی تبدیلیوں کا دور تھا، ایران میں انقلاب آ چکا تھا اور انقلابیوں نے تہران میں امریکی سفارتکار کو یرغمال بنا رکھا تھا، سوویت یونین افغانستان تک پہنچ چکا تھا اور یہ اب پاکستان اور بحیرہ عرب کی طرف بڑھ رہا تھا، دنیا کی معیشت زوال پذیر تھی، امریکا کی کارپوریشنز معاشی بدحالی کے عفریت کے بالکل سامنے پڑی تھیں اور چین بڑی تیزی سے معاشی دیو بن رہا تھا اور یہ تمام مسائل ایک ایسے شخص نے حل کرنا تھے جس نے ستر سال میں سے ساٹھ برس شوبز میں خرچ کر دیے تھے۔

جس نے عمر بھر سفارت، معیشت اور سیاست کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی اور جسے یہ تک معلوم نہیں تھا افغانستان، ایران اور پاکستان عالمی نقشے پر کس جگہ واقع ہیں اور جس کا ذاتی اکائونٹ بھی اس کے دوست اور بیگم ہینڈل کرتی تھی اور جس کے جسم میں الزائمر جیسی ناقابل علاج بیماری کے ابتدائی آثار پائے جاتے تھے اور جو بعض اوقات اپنا لنچ تک بھول جاتا تھا، ریگن کی خامیاں صرف یہاں تک محدود نہیں تھیں بلکہ وہ سست الوجود اور " ایزی لائف" کا دلدادہ بھی تھا، وہ جب تک اپنی بطخوں کے ساتھ دو گھنٹے نہیں گزار لیتا تھا اس وقت تک اس کی صبح نہیں ہوتی تھی۔

وہ اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ قہقہے لگانے اور جنسی لطائف شیئر کرنے کی علت میں بھی مبتلا تھا چنانچہ دنیا کا خیال تھا غیر سنجیدہ رونلڈ ریگن دنیا کے سنجیدہ ترین مسائل حل نہیں کر سکے گا اور یوں امریکا تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہو جائے گا لیکن ریگن نے چند ماہ میں پوری دنیا کو حیران کر دیا، اس نے نہ صرف ایران میں محصور امریکی یرغمالی چھڑا لیے بلکہ اس نے پاکستان جیسے ممولے کو افغانستان میں سوویت یونین جیسے عقاب سے بھی لڑا دیا، اس نے " ریگ نامکس" کے نام سے ایک نئی معیشت کی بنیاد رکھ دی اور یہ عام امریکی شہری کی زندگی میں بھی خوشحالی اور اطمینان لے آیا اور اس نے یہ تمام کارنامے اس وقت سر انجام دیے جب یہ قاتلانہ حملے کی وجہ سے شدید زخمی بھی تھا اور یہ بے شمار داخلی اور خارجی مسائل کا بھی شکار تھا۔

وہ ریگن جس کے بارے میں دنیا کا خیال تھا یہ صدارتی کرسی پر بیٹھتے ہی ٹینشن کی وجہ سے فوت ہو جائے گا، امریکی عوام نے اسے 1984ء میں دوسری بار صدر منتخب کر لیا اور تاریخ نے کامیابی کے لاتعداد ہار اس کے گلے میں ڈال دیے، وہ بیسویں صدی کا آخری معیشت دان بھی کہلایا، اس نے روس کو افغانستان جیسے پرائے میدان جنگ میں پرانے فوجیوں کے ذریعے شکست بھی دی اور اس نے سوویت یونین کو بھی توڑدیا اور اس نے روس کو جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدے پر بھی رضا مند کر لیا، ریگن اپنی تمام نالائقی اور ناتجربہ کاری کے باوجود کینیڈی کے بعد امریکا کا مضبوط ترین صدر کہلایا اور امریکا کی تاریخ کا کوئی صدر اس کی مقبولیت کے دامن تک نہ پہنچ سکا۔

ہمارے ذہن میں اب سوال پیدا ہوتا ہے ریگن نے یہ تمام کامیابیاں حاصل کیسے کیں؟ اس کی صرف ایک وجہ تھی، ریگن نے صدارتی عہدہ سنبھالتے ہی تسلیم کر لیا وہ ایک نالائق اور ناتجربے کار شخص ہے چنانچہ اس نے چن چن کر امریکا کے شانداردماغ اپنے اردگرد جمع کر لیے، اس کے ساتھیوں میں نکولس ایف بریڈی جیسا بینکر، ایلن گرین پین جیسا معاشی ماہر، بیرل سپرنکل جیسا اکانومسٹ، ڈین کرپن جیسا بجٹ ایکسپرٹ، کولن پاول جیسا دفاعی ماہر، کیسپر ولارڈ جیسا وزیردفاع اور جارج پی شلٹز جیسا وزیر خارجہ شامل تھے اور یہ وہ لوگ تھے جو نہ صرف امریکا میں مشہور تھے۔

بلکہ ان کی ذہانت کا سکہ پوری دنیا پر چلتا تھا اور ریگن نے ان لوگوں کی مدد سے اپنی نالائقی اور ناتجربہ کاری کو کامیابی میں تبدیل کر لیا اور اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ میں رقم کر لیا۔ ریگن ایکٹر تھا وہ جانتا تھا فلم کی کامیابی کے لیے صرف ایکٹر کافی نہیں ہوتے اس کے لیے رائٹر، ڈائریکٹر، موسیقار، صدا کار، سیٹ ڈیزائینر، کیمرہ مین، لائیٹ مین اور اسٹوڈیو بھی اہم ہوتے ہیں چنانچہ اس نے وائیٹ ہائوس کو ٹیلنٹ کا اسٹوڈیو بنا لیا، اس نے کامیابی کے تمام عناصر اپنے گرد جمع کر لیے اور ان لوگوں نے آگے جا کر ریگن کو ریگن بنا دیا۔

ہمارا ملک بھی 1980ء کے امریکا سے ملتا جلتا ہے، ہمارے مسائل بھی گمبھیر ہیں اور ہمارے سیاستدان بھی ریگن کی طرح ناتجربہ کار، نالائق اور وژن سے عاری ہیں لیکن یہ لوگ بدقسمتی سے اپنی غلطی، اپنی خامی تسلیم نہیں کررہے، یہ اپنے آپ کو ریگن ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں لہٰذا ملک برباد ہو رہا ہے، ہمارے لیڈر 2012ء میں بھی حلقے کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں، یہ آج بھی ان لوگوں کو ٹکٹ دینے، اسمبلیوں میں لانے اور وزارتیں دینے پر مجبور ہیں جو برادری، مافیا یا بدمعاشی کی وجہ سے الیکشن جیت سکتے ہیں، ہماری پارٹیاں ان لوگوں کو ٹکٹ دیتے ہوئے ان کی کوالی فکیشن، ان کی اخلاقی اقدار اور ان کی دہری شہریت تک چیک نہیں کرتیں۔

آپ دیکھ لیجیے 2008ء کے الیکشن کے بعد کتنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی ڈگریاں جعلی نکلیں، کتنے پارلیمنٹیرینز دوہری شہریت کے مالک نکلے اور کتنے پارلیمنٹیرینز پر کرپشن اور اخلاقی جرائم میں پرچے درج ہوئے؟ ، ہم اگر ان لوگوں کا معیار دیکھیں تو یہ لوگ پارلیمنٹ تو دور کسی معمولی سرکاری ملازمت تک کے حق دار نہیں ہیں لیکن ہم لوگ مسائل کا شکار پورا ملک ان کے سر پر لاد دیتے ہیں لہٰذا یہ لوگ اس کا وہ حشر کر رہے ہیں جو ایک نالائق، ناتجربہ کار اور بے ایمان شخص کر سکتا ہے، ہم لوگ اور ہمارے لیڈر اپنی فیکٹری کا چوکیدار تک میرٹ پر رکھتے ہیں۔

یہ منیجر بھی فارن کوالی فائیڈ رکھیں گے لیکن جب ملک کی باری آتی ہے یا قانون سازی کے ایوان کا معاملہ آتا ہے تو ہم لوگ معاشرے کے بدترین شخص کا انتخاب کرتے ہیں اور یہ شخص بھی انتخاب کے بعد ہمیں " مایوس" نہیں کرتا، یہ کرپشن اور تباہی کے دریا بہا دیتا ہے جب کہ آپ اس کے مقابلے میں پاکستان کے تینوں آمرانہ ادوار کا مطالعہ کیجیے، آپ کو جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار بدقسمتی سے جمہوری ادوار کے مقابلے میں معاشی، سفارتی اور انتظامی لحاظ سے بہتر نظر آئیں گے، آپ اگر صرف جرنیلوں کے ادوار کی معیشت اور جمہوری حکومتوں کی اکانومی کا جائزہ لے لیں تو آپ کو بہت فرق دکھائی دے گا، یہ فرق کیوں ہے؟ اس کی واحد وجہ ٹیم ہے۔

جرنیلوں کی ٹیمیں اچھی تھیں، یہ لوگ اعلیٰ عہدوں پر ماہر، قابل اور ایماندار لوگوں کو لگاتے رہے ہیں، ان کے پاس ڈاکٹر عبدالقدیر، ڈاکٹر عطاء الرحمن اور عبداللہ یوسف جیسے لوگ تھے چنانچہ ان کے ادوار میں ملک ترقی کرتا دکھائی دیتا ہے مگر ملک میں جب جمہوریت آتی ہے تو طاقت کے سرچشمے نااہل، کرپٹ اور وژن لیس لوگوں کے قبضے میں چلے جاتے ہیں اور یہ لوگ ملک کو بھی دیوالیہ تک لے جاتے ہیں اور جمہوریت کو بھی آمریت کی کھائی میں دھکیل دیتے ہیں اور یہ اس ملک میں پچھلے 60 برس سے ہو رہا ہے۔

آپ سوئس حکام کے نام خط کے ایشو کو ہی لے لیجیے، یہ کتنا چھوٹا سا مسئلہ تھا، کل وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے خط کا ڈرافٹ سپریم کورٹ میں پیش کیا اور سپریم کورٹ اور حکومت کی چار سال پرانی جنگ ختم ہو گئی، یہ کام اگر یوسف رضا گیلانی کر دیتے تو کیا جاتا تھا، یہ آج وزیراعظم بھی ہوتے اور ملک بھی نقصان سے بچ جاتا لیکن ہم نے کیونکہ نالائقی اور ضد کوجمہوریت سمجھ لیا ہے چنانچہ ہم خطوں جیسے ایشوزکو بھی جوہری جنگ میں بدل دیتے ہیں اور یوں ملک بھی بدنام ہو جاتا ہے اور ہمارے سر بھی خاک زدہ ہو جاتے ہیں، ہمارے حکمران آج بھی ریگن جیسے حکمرانوں سے سیکھ سکتے ہیں۔

یہ اقتدار خواہ جیسے چاہیں حاصل کرلیں لیکن یہ جب حکومت بنائیں تو یہ ریگن کی طرح اہل ترین لوگوں کو عہدے دیں اور یہ اہل ترین لوگ اہل ترین لوگوں کو محکموں اور کارپوریشنوں کی سربراہی سونپیں، یقین کیجیے ہماری ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل، او جی ڈی سی اور واپڈا چند دنوں میں زندہ ہو جائے گی ورنہ دوسری صورت میں ہمارا ہر وزیراعظم فارغ ہونے کے بعد گیلانی ہو جائے گا اور یہ ہر شام اپنے خانساموں، چوکیداروں اور ڈرائیوروں کو جمع کر کے اپنے کارنامے سنائے گا اور یہ منہ پیچھے کر کے ہنسیں گے کیونکہ حکمرانوں کو حکومت حکمران نہیں بناتی انھیں ان کی ٹیم حکمران کے درجے تک پہنچاتی ہے چنانچہ راجہ پرویز اشرف ہو یا کوئی اقتدار علی خان اسے ٹیم چاہیے، صرف ٹیم، ٹیم اور ٹیم۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.