Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Teen March

Teen March

میں وہاں سے گزر رہا تھا اور یہ میرا واحد جرم تھا۔

میں سندھ کے پسماندہ ترین علاقے تھرپار کر سے تعلق رکھتا ہوں، میرے بزرگ نسلوں سے غلام تھے، ہم غلام ابن غلام ابن غلام تھے، نسلوں کی غلامی آخر میں بغاوت بن گئی اور میری ماں مجھے لے کر کراچی بھاگ آئی، یہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی، یہ برتن مانجھتی تھی، جھاڑو دیتی تھی، صاحب لوگوں کے بچوں کے پوتڑے دھوتی تھی اور رات کے وقت دوسروں کے کپڑے سیتی تھی اور اس مشقت سے اسے جو پیسے ملتے تھے، یہ ان سے مجھے پڑھاتی تھی، ہمارے گھر بجلی نہیں تھی، ہمارے گھر میں پانی اور سیوریج بھی نہیں تھا، ہم نے لوہے کی چادریں جوڑ کر ایک چھوٹا سے ٹوائلٹ بنا رکھا تھا، میری ماں رات کے وقت ٹوائلٹ کی غلاظت اپنے ہاتھوں سے اٹھاتی تھی اور میں اسے محلے کے نالے میں پھینک آتا تھا، میں میونسپل کمیٹی کے نل کے سامنے برتن رکھ دیتا تھا، میرا برتن دوسرے برتنوں کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے سرکتا رہتا تھا اور میں پتھروں کی ڈھیری پر بیٹھ کر اسکول کا سبق یاد کرتا رہتا تھا، یہ لمبی مشقت تھی جس کے آخر میں ہمیں کبھی کبھی پانی مل جاتا تھا اور ہمیں جس دن پانی نہیں ملتا تھا ہم اس دن پینے اور پکانے کے لیے ہمسایوں سے پانی ادھار لیتے تھے۔

ہمارے صدر، ہمارے وزیراعظم اور ہمارے وزیراعلیٰ کو شاید معلوم ہی نہ ہو ان کی رعایا پانی بھی ادھار لے کر پیتی ہے، ہم غربت کی اس نچلی سطح پر زندگی گزار رہے تھے جس میں انسان بیمار ہونے کا رسک بھی نہیں لیتا کیونکہ یہ جانتا ہے یہ اگر بیمار ہوگیا تو یہ ڈاکٹر اور دوا تک نہیں پہنچ سکے گا چنانچہ اس کا جسم بیماریوں کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا، دنیا میں صرف وہ لوگ بیمار ہوتے ہیں جو یہ جانتے ہیں ہم اگر بیمار ہوئے تو ہم کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر اور دوا تک پہنچ جائیں گے جب کہ ہمیں یہ توقع ہی نہیں تھی ہم بیمار ہوں گے تو کوئی آگے بڑھ کر ہماری نبض چیک کرے گا چنانچہ ہم نے کبھی بیمار ہونے کا رسک نہیں لیا، ہمارا جسم تپنے لگتا تھا مگر ہم خود کو صحت مند سمجھتے تھے، ہم دوا نہیں کھاتے تھے، میری ماں کی زندگی کا صرف اور صرف ایک مقصد تھا، میں پڑھ لکھ جائوں، میں ملازمت کروں، یہ ملازمت مجھے خوش حالی دے اور یوں میں آزاد ہو جائوں، میں نسلوں کی غلامی سے نکل جائوں، ہمارے خاندانی آقا نے ہمارے فرار کی سزا میرے والد کو دی، اس نے اسے ذاتی جیل میں ڈال دیا اور حکم جاری کیا جب تک ا س کی "لوگائی" اور اس کا " چھور" واپس نہیں آتا یہ جیل میں کھجور کے پتوں کی چٹائیاں بنائے گا اور میرا والد جیل میں روزانہ پندرہ پندرہ گھنٹے کھجور کے پتے بُنتا تھا، ہمیں رشتے داروں کے ذریعے ابا کی خبر ملتی رہتی تھی مگر میری ماں نے میرے مستقبل کے لیے اپنا دل سخت کر لیا، اس نے واپس مڑ کر نہیں دیکھا۔

میں سیاہ رنگت کا سہما ہوا دیہاتی بچہ تھا اور کراچی گورے لوگوں کا صاف ستھرا اور با اعتماد شہر، میرے دائیں بائیں اور آگے پیچھے روشنیوں کا سمندر بہتا تھا لیکن میں اس سمندر میں غوطے کھا کھا کر اپنا راستہ تلاش کر رہا تھا، میں سرکاری اسکولوں میں پڑھ سکتا تھا اور وظیفے لے کر گزارہ کر سکتا تھا چنانچہ میں نے یونیورسٹی تک وظیفوں کے ذریعے تعلیم حاصل کی، میں ٹیوشن بھی پڑھاتا رہا، میں منڈی میں مزدور کا کام بھی کرتا رہا، میں نے راج مستریوں کے ساتھ بھی کام کیا، میں نے سمندر پر بھٹے بھی بیچے اور میں نے بسوں اور ویگنوں میں کنڈیکٹر اور کلینر کا کام بھی کیا اور یوں میں زمین کے ساتھ ساتھ رینگ کر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ میں نے کیمسٹری میں ایم ایس سی کر لی، میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرکاری نوکری تلاش کرتا رہا مگر غلام ابن غلام ابن غلام کو سرکاری نوکری کہاں سے ملتی؟ مجھے سرکاری نوکری نہ ملی، میں مایوس ہو کر پرائیویٹ نوکریوں کی تلاش میں نکل گیا۔

میں دن بھر پرائیویٹ لیبارٹری میں کام کرتا، شام کے وقت اکیڈمی میں میٹرک کے بچوں کو سائنس پڑھاتا، رات کو اصفہانی روڈ کے ایک فلیٹ میں نویں جماعت کی بچی کو ٹیوشن پڑھاتا اور رات ماں کا کھانا لے کر گھر چلا جاتا، میں اس مشقت کے بعد پندرہ سولہ ہزار روپے کما لیتا تھا، ہم خوشحال ہو چکے تھے چنانچہ ہم کچی آبادی سے نکل آئے، ہم نے پانچ ہزار روپے میں دو کمروں کا چھوٹا سا مکان کرائے پر لے لیا، یہ مکان محض مکان نہیں تھا، یہ جنت تھا کیونکہ اس میں پانی کا نل بھی تھا اور فلش بھی، نل سے تیسرے دن پانی آتا تھا، ہم پورے گھر کے برتن بھر لیتے تھے اور یہ پانی ہم دو ماں بیٹے کے لیے کافی تھا، ہماری ساری خواہشیں پوری ہو گئی تھیں بس ایک آرزو بچی تھی میں کسی نہ کسی طرح اپنے والد کو وڈیرے کی جیل سے نکالنا چاہتا تھا، میری تمنا تھی غلام ابن غلام ابن غلام کو ایک بار کراچی شہر دکھا دوں اور میں دن رات چلتے پھرتے اس اسکیم پر کام کرتا رہتا تھا، میں اس میں شاید کامیاب بھی ہو جاتا مگر پھر میری زندگی میں 3 مارچ آ گیا اور میرے سارے خواب میرے ساتھ مر گئے، میرے سامنے گلی میں کھڑی گاڑی سے ٹرر، ٹرر، ٹی، ٹی کی آوازیں آئیں بالکل شارٹ سرکٹ جیسی آوازیں، میں کھڑا ہو کر گاڑی کو دیکھنے لگا، مجھے محسوس ہوا گاڑی کی بیٹری میں کوئی خرابی ہے اور اس خرابی سے انجن میں اسپارک ہو رہا ہے۔

میں نے گاڑی کا مالک تلاش کر نا شروع کر دیا لیکن پھر ہلکا سا دھماکا ہوا جیسے بچوں کی پٹاس پھٹتی ہے یا پھر چھوٹی سائیکل کی ٹیوب چلتے چلتے پھٹ جاتی ہے، میں ڈر گیا، میں نے ڈر کر بھاگنا شروع کر دیا مگر چند سیکنڈ بعد ایک ہولناک دھماکا ہوا، زمین دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہو گئی، بارود کی ہوا نے مجھے زمین سے اوپر اچھال دیا، میں عمارتوں کی کھڑکیوں، دروازوں اور چھتوں سے اوپر اٹھا، چند لمحے فضا میں اڑتا رہا اور اس کے بعد ایک فلیٹ کی بالکونی پر گر گیا، میں اگر اب "میں " کا صیغہ استعمال کروں گا تو یہ زیادتی ہو گی کیونکہ میں اب میں نہیں رہا تھا، میری ٹانگیں اور میرے بازو چھوٹے چھوٹے ذروں میں تقسیم ہو کر اصفہانی روڈ کی دیواروں، کھڑکیوں، گاڑیوں اور درختوں سے چپک گئے تھے، میری گردن آدھی کٹ چکی تھی اور شہ رگ سے نل کے پانی کی طرح شوں شوں کی آواز کے ساتھ لہو باہر گر رہا تھا، میری انتڑیاں بالکونی پر بکھری تھیں، میری ایک آنکھ کی گولی نکل کر بالکونی کی میز پر عین اس جگہ پڑی تھی جہاں شام کا تازہ اخبار رکھا تھا اور اس اخبار پر ہیڈ لائین چھپی تھی " ہم نے پانچ سال جمہوریت کو کیسے قائم رکھا، یہ ہم ہی جانتے ہیں، صدر آصف علی زرداری" میری آنکھ کی گولی اس ہیڈ لائین کے بالکل سامنے پڑی تھی، میری دوسری آنکھ اپنے حلقے سے نکل کر ناک کے قریب لٹک رہی تھی اور ناک ٹوٹ کر سینے پر گری تھی اور سینہ چھلنی ہو چکا تھا اور میں اس چھلنی سے بارود کے دھوئیں، لوگوں کی آہوں اور سسکیوں اور ایمبولینس کی آوازوں کو آرپار ہوتے محسوس کر رہا تھا، مجھے اس وقت معلوم ہوا انسان جب موت اور زندگی کی سرحد پر کھڑا ہوتا ہے تو وہ دیکھنے کے لیے آنکھوں، سننے کے لیے کانوں اور سونگھنے کے لیے ناک کا محتاج نہیں رہتا، اس کے جسم کا ہر رستا ہوا خلیہ اس کی آنکھ، ناک اور کان بن جاتا ہے، مجھے اس وقت معلوم ہوا انسان جب دھماکے کی زد میں آتا ہے تو اس کے دکھ، اس کے درد کی مدت صرف ایک سیکنڈ ہوتی ہے، ایک سیکنڈ بعد وہ " پین فری" ہو جاتا ہے اور مجھے اس وقت معلوم ہوا انسان کی خواہشیں، انسان کی حسرتیں مرنے کے بعد بھی قائم رہتی ہیں۔

میرا جسم اس وقت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بالکونی پر پڑا تھا، میں زندگی کے بوجھ سے آزاد ہو چکا تھا مگر اس وقت بھی میری ماں کی مشقتیں، میری ماں کی تکلیفیں، اس کا اکلاپا، اس کی آنکھوں کی مدہم ہوتی بینائی اور میرے والدکی طویل جیل، اس کے ہاتھ پر کھجور کے پتوں کے زخم اور میری نسلوں کی غلام ابن غلام ابن غلام نفسیات یہ سب ابھی تک زندہ تھیں اور یہ ملک کے نظام سے پوچھ رہی تھیں، اس بیچارے کا کیا قصور تھا، یہ تو یہاں سے صرف گزر رہا تھا، کیا گزرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ ملزم کے جسم کو اتنے چھوٹے چھوٹے ذروں میں تقسیم کر دیا جائے کہ اس کی ماں بھی اسے شناخت نہ کر سکے، یہ مرنے کے بعد بھی دفن ہونے کے حق سے محروم رہے، افسوس میں زندہ تھا تو مجھ پر زندگی کو ترس آتا تھا اور میں جب مر گیا تو موت میرے سرہانے کھڑی ہو کر میرا بین کر رہی تھی، میں زندہ تھا تو مجھے گھر نہیں ملا اور میں مر گیا تو مجھے قبر نصیب نہیں ہوئی۔

آخرمیرا قصور کیا تھا، کیا گزرنا جرم ہے، زندگی کے اصفہانی روڈ سے گزرنا۔

نوٹ: یہ 3 مارچ 2013ء کی شام اصفہانی روڈ کے عباس ٹائون میں ہونے والے بم دھماکے میں مرنے والے ایک شخص کی داستان ہے جب کہ اس دھماکے میں ایسے 50 لوگ شہید ہوئے، ان میں سے ہر شخص جمہوریت کو پانچ سال تک قائم رکھنے والوں سے اپنا جرم پوچھ رہا ہے، یہ پوچھ رہا ہے آپ نے تو پانچ سال پورے کر لیے لیکن میرے لواحقین کو کیا ملا، بے گور اور بے کفن نعشیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.