Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Tehran Mein Teen Din

Tehran Mein Teen Din

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا ہم نے فلائیٹ لے لی، ایران میں تیرہ ائیرلائینز اورتمام چھوٹے بڑے شہروں میں ائیر پورٹس ہیں چناں چہ پورے ملک میں فلائیٹس کنکشن ہیں اور فلائیٹس پاکستان کے مقابلے میں سستی بھی ہیں شاید اسی لیے تمام ائیرپورٹس پر رش نظر آتا ہے۔

ہم سوا گھنٹے میں تہران کے مہر آباد ائیرپورٹ پر لینڈ کر گئے، یہ وہی ائیرپورٹ ہے جہاں سے16 جنوری 1979 کو شاہ ایران ملک سے فرار ہوا تھا اور یکم فروری 1979 کو امام خمینی نے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا تھا، شاہ ایران کے طیارے نے آخری اڑان بھری، گھوم کر تہران کا فضائی جائزہ لیا، سڑکوں پر مرگ برشاہ کے نعرے لگاتے لاکھوں لوگ اور تہران کے پہاڑی سلسلے البورزپر نظر ڈالی اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا، شاہ ایران نے جلاوطنی میں عبرت ناک زندگی گزاری تھی۔

پوری دنیا میں صرف مصریوں نے اس کی مدد کی، انورسادات نے اسے پناہ بھی دی اورجولائی 1980 میں انتقال کے بعد اس کی تدفین بھی کی، شاہ ایران کا مقبرہ آج بھی قاہرہ میں الرفائی مسجد میں ہے، مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہو چکا ہے، تہران میں آج دو ائیرپورٹس ہیں، اندرونی فلائیٹس مہر آباد پر اترتی ہیں جب کہ انٹرنیشنل فلائیٹس امام خمینی ائیرپورٹ سے آتی اور جاتی ہیں، امام خمینی ائیرپورٹ جدید اور شان دار ہے اور اس کے گرد پورا شہر آباد ہو رہا ہے۔

میری پاکستان واپسی اسی ائیرپورٹ سے ہوئی اور میں اس کے سی آئی پی لاؤنج کی تعریف کرنے پر بھی مجبور ہوا، مہر آباد ائیرپورٹس پر بے شمار ٹیکسیاں کھڑی ہوتی ہیں، میرا مشورہ ہے آپ ان کے جھانسے میں نہ آئیں اور ائیرپورٹ کے اندر موجود ٹیکسیوں کی کمپنی سے ٹیکسی لیں، یہ آپ کو سستی بھی پڑے گی اور ڈرائیور راستے میں آپ کو تنگ بھی نہیں کرے گا تاہم ٹیکسیوں کا معیار اچھا نہیں ہے، گاڑیاں پرانی اور گندی ہوتی ہیں، تہران ایک بڑا اور مصروف شہر ہے، گاڑیاں بہت زیادہ ہیں لہٰذا ٹریفک جام معمول ہے۔

آپ دس منٹ کا فاصلہ عموماً ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرتے ہیں، حکومت نے اس کے تدارک کے لیے ایک دل چسپ فارمولا بنا رکھا ہے، ایک دن میں آڈ (Odd) نمبرز کی گاڑیاں سڑک پر آ سکتی ہیں اور دوسرے دن ایون (Even) نمبرز کی یعنی ایک دن میں تہران کی صرف آدھی گاڑیاں باہر آتی ہیں لیکن اس کے باوجود ٹریفک زیادہ ہوتی ہے۔

میں آدھی سے زیادہ دنیا دیکھ چکا ہوں مگر تہران سے زیادہ ٹریفک جام میں نے کہیں نہیں دیکھی جب کہ حکومت نے پورے شہر میں ٹنلز، ہائی ویز، انڈر پاسز اور اوورہیڈ برجز بنا رکھے ہیں لیکن اس کے باوجود ٹریفک تہران کا بہت بڑا مسئلہ ہے، ہمیں ائیرپورٹ سے ہوٹل پہنچنے میں گھنٹہ لگ گیا جب کہ ہوٹل بمشکل 20 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔

تہران کے مضافات میں ایک تاریخی شہر ہوتا تھا "رے"۔ بو علی سینا جیسے سیکڑوں مشاہیر کبھی اس شہر میں رہائش پذیر تھے، ایک روایت کے مطابق بی بی شہر بانو واقعہ کربلا کے بعد شہر رے آ گئی تھیں، چند کم زور تاریخی روایات کے مطابق حضرت امام حسینؓ نے 10 محرم کی صبح انھیں گھوڑے دُل دُل پر بٹھا کر ایران روانہ کر دیا تھا، بی بی طویل مسافت کے بعد رے پہنچیں اور اپنی زندگی کے آخری سال یہیں بسر کیے، ان کا وصال بھی اسی شہر میں ہوا اور ان کا روضہ اور مسجد بھی یہیں ہے تاہم یہ دعویٰ تصدیق اور تحقیق طلب ہے، رے شہر بعدازاں چنگیز خان نے برباد کر دیا تھا۔

یہ اب تہران کا حصہ ہے اور لوگ بی بی شہر بانو سے منسلک عمارتوں کی زیارت کے لیے یہاں آتے ہیں، تہران کے چار حصے ہیں نارتھ سائیڈ، ساؤتھ سائیڈ اور ایسٹ اور ویسٹ سائیڈز، یہ چاروں سائیڈز پورے پورے شہر ہیں اور ان کے درمیان ٹھیک ٹھاک فاصلہ ہے اور آپ کو ٹریفک کی وجہ سے ایک سائیڈ سے دوسری سائیڈ تک پہنچنے میں اکثر اوقات دو گھنٹے لگ جاتے ہیں، نارتھ سائیڈ پرانی اور مہنگی ہے، یہاں سو میٹر کے فلیٹس کی قیمت دو ملین ڈالر سے زیادہ ہے، یہ حصہ پہاڑیوں پربنا ہوا ہے لہٰذا سڑکیں ڈھلوانی ہیں، اس حصے میں کبھی بڑے بڑے محلات اور ویلاز ہوتے تھے لیکن زمینوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اب یہاں اپارٹمنٹس کی بلندوبالا عمارتیں بن چکی ہیں۔

اسلام آباد میں ون ایونیو اور سینٹورس دو بڑی عمارتیں ہیں، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے تہران میں ایسی ہزار بارہ سو عمارتیں ہیں اور ہر عمارت آپ کی توجہ کھینچ لیتی ہے، آپ اس سے شہر کے والیم کا اندازہ کر لیجیے، میں نے تین دن میں یہاں چار جگہیں وزٹ کیں، یہ چاروں تجربات حیران کن تھے، میں پہلے دن تہران کے انوویشن(Innovation) پارک گیا، یہ شہر کی ایسٹ سائیڈ پر مضافات میں ہے اور ایران کی سلی کان ویلی کہلاتا ہے، راستے میں سڑک کی دونوں سائیڈز پر پاس داران کی امام حسین یونیورسٹی تھی، پاس داران ریاست کے اندر ایک مضبوط ریاست ہیں، ان کی تعداد 15 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور یہ ملک کے تقریباً تمام شعبوں اور شہروں میں موجود ہیں۔

یہ انقلابی فورس شاہ ایران کی رخصتی کے بعد بنائی گئی تھی اور یہ اب ایک متبادل اور سیاسی حکومت سے زیادہ مضبوط حکومت ہے، آپ اسے آسان لفظوں میں ایران کی اسٹیبلشمنٹ کہہ سکتے ہیں، ایرانی اسٹیبلشمنٹ بڑے بڑے کاروبار بھی کر رہی ہے لہٰذا اس کے پاس سرکاری خزانے سے زیادہ رقم ہوتی ہے اور یہ اس رقم سے اپنی تعداد اور قوت میں اضافہ کرتی جا رہی ہے، انھوں نے باقاعدہ اپنی یونیورسٹیاں اور ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بنا رکھے ہیں، یہ بھرتیوں کے بعد اپنے لوگوں کو بڑی ٹف ٹریننگ دیتے ہیں۔

امام حسین یونیورسٹی ان انسٹی ٹیوٹس میں سے ایک ہے اور میں اس کا دائرہ اور رقبہ دیکھ کر حیران رہ گیا، اس کا کیمپس میلوں تک پھیلا ہوا تھا اور یہ سڑک کی دونوں سائیڈز پر دور تک دکھائی دیتا تھا، ہم آخر میں ایران کی سلی کان ویلی پہنچ گئے، آپ یقین کریں وہ جگہ میری توقع سے ہزار گنا زیادہ خوب صورت اور جدید تھی، اس پارک میں ایران کی تمام بڑی کمپنیوں کے دفاتر اور لیبز تھیں اور تمام عمارتیں ایک سے بڑھ کر ایک خوب صورت اور جدید تھیں، میں نے ایسی عمارتیں اور ایسی سہولتیں امریکا کی سلی کان ویلی میں بھی نہیں دیکھیں۔

میرا مشورہ ہے منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کو یہ جگہ ضرور وزٹ کرنی چاہیے اور پاکستان میں ایسے چار آئی ٹی پارکس بنانے چاہییں، ایران پر اقتصادی پابندیاں ہیں، انفلیشن بھی بہت زیادہ ہے، ایک ڈالر کے چھ لاکھ ایرانی ریال آتے ہیں، عالمی کریڈٹ کارڈز اور اے ٹی ایمز یہاں کام نہیں کرتیں چناں چہ گورنمنٹ نے اپنے "پے منٹس سسٹم" بنالیے ہیں، پورے ملک میں کریڈٹ کارڈز مشینیں ہیں اور آپ پانی کی بوتل سے لے کر جہاز تک کارڈ کے ذریعے خریدتے ہیں۔

آپ اگر کسی روضے پر چندہ یا کسی ضرورت مند کو رقم دیں گے تو بھی آن لائین دیں گے یا پھر مشین پر اپنا کارڈ ٹچ کریں گے، مجھے شیراز میں دو اندھے گلوکار دکھائی دیے، یہ گانا گا کر روزی کما رہے تھے، انھوں نے بھی اپنے کندھوں پر کریڈٹ کارڈ مشینیں لگا رکھی تھیں اور لوگ اپنی خوشی کے مطابق کارڈ کے ذریعے انھیں پے منٹس کر رہے تھے، پے منٹ سسٹم بنانے والی کمپنیوں کے دفتر اور لیبز بھی اسی کمپلیکس میں تھے، یہ علاقہ پردیس کہلاتا ہے لہٰذا اس کمپلیکس کا نام پردیس ٹیکنالوجی کمپلیکس ہے۔

تہران اور کمپلیکس کے درمیان خشک پہاڑیوں کا سنسان علاقہ تھا، حکومت نے ٹنلز اور ہائی ویز کے ذریعے نہ صرف اس علاقے کو آپس میں جوڑ دیا ہے بلکہ پہاڑوں پر بڑے بڑے رہائشی کمپلیکس بنا کر یہاں بھی پورا شہر آباد کر دیا ہے، یہ شہر چین کی مدد سے بنایا گیا اور اس میں اب لاکھ کے قریب لوگ رہتے ہیں، مستقبل میں تہران کی آدھی آبادی یہاں شفٹ ہو جائے گی۔

میں نے دوسرے دن بک گارڈن کمپلیکس وزٹ کیا، یہ علاقہ کبھی رہائشی بلاک تھا، حکومت نے اسے خرید کر مسمار کیا اور یہاں بک گارڈن بنا دیا، آپ میری بات کو مبالغہ سمجھیں گے لیکن آپ یقین کریں میں نے ہیلسنکی کی لائبریری کے بعد دنیا میں اس سے زیادہ خوب صورت لائبریری اور بکس کمپلیکس نہیں دیکھا، یہ ایک وسیع عمارت ہے جس میں بک شاپس بھی ہیں، کانفرنس رومز بھی، ریستوران اور کافی شاپس بھی اور اس کے گرداگرد وسیع گارڈن اور واکنگ ٹریکس بھی ہیں، آپ فیملی سمیت پورا دن یہاں گزار سکتے ہیں، یہاں بچوں اور خواتین کے الگ سیکشن ہیں اور ریسرچ کے لیے چھوٹے ساؤنڈ پروف کیبن بھی۔

کمپلیکس کے باہر فوارے اورجاگنگ ٹریکس ہیں جب کہ آخر میں سینما گھر اور عجائب خانہ ہے، یہ جگہ بھی پردیس کمپلیکس کے بعد دیکھنے لائق ہے، تیسری جگہ بام لینڈ ہے، یہ تہران کی ویسٹ سائیڈ پر ہے اور یہ ایک وسیع مصنوعی جھیل کے کنارے واقع ہے، ایران کی ایک پرائیویٹ کمپنی نے راول لیک جتنی مصنوعی جھیل بنائی اور اس کے گرد ریستوران، کافی شاپس اور مال بنا دیا اور یہ جگہ دیکھتے ہی دیکھتے ایران کی مہنگی ترین جگہ بن گئی۔

جھیل کی چاروں سائیڈز پر فلیٹس کی بلندوبالا عمارتیں ہیں، بام لینڈ میں واٹر اسپورٹس بھی ہوتی ہیں، لوگ واک اور جاگنگ بھی کرتے ہیں اور کشتی رانی بھی، یہ جگہ بھی لازمی دیکھی جانی چاہیے اور چوتھی جگہ مال آف ایران ہے، میں نے دوبئی کے بعد ایسا خوب صورت اور وسیع مال کہیں اور نہیں دیکھا، اس کی پارکنگ میں ساڑھے تین ہزار گاڑیاں کھڑی ہو سکتی ہیں، مال میں کیا کیا تھا آپ یہ اگلے کالم میں ملاحظہ کیجیے گا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.