حبیب علی بورقیبہ تیونس کے بانی ہیں، وکیل اور سیاست دان تھے، قائداعظم محمد علی جناح اور اتاترک کے فین تھے اورپاکستان کی تشکیل کے وقت مصر میں پناہ گزین تھے، پاکستان بنا تو حبیب علی بورقیبہ نے قائداعظم کو مبارک باد کا ٹیلیکس بھجوایا اور اس کے ساتھ ہی تیونس اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کا آغاز ہوگیا، تیونس پر اس وقت فرانس کا قبضہ تھا، بورقیبہ کے ساتھی آزادی کے لیے لڑ رہے تھے۔
پاکستان اس وقت اقوام متحدہ کے اہم ترین بینچوں کا اہم ترین ممبر تھا، سر ظفر اللہ چودھری وزیر خارجہ اور پطرس بخاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب تھے، یہ دونوں غلام قوموں کے ہمدرد اور آزادی کے داعی تھے، انہوں نے شمالی افریقہ کے لیڈروں کی مدد شروع کر دی، بورقیبہ اور ان کے ساتھیوں کو پاکستانی پاسپورٹ دیے اور یہ پاکستانی ڈیسک سے جنرل اسمبلی میں تقریریں کرتے رہے۔
تیونس جب 1956ء میں آزاد ہوا اور بورقیبہ صدر بنے تو انہوں نے تیونس شہر کی تین سڑکیں محمد علی جناح، سر ظفراللہ چودھری اور پطرس بخاری سے منسوب کر دیں، یہ تینوں سڑکیں آج بھی پاکستان کے احسانات کی گواہ بن کر تیونس سٹی میں موجود ہیں، تیونس کے لوگ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں حبیب علی بورقیبہ جلاوطنی کے دور میں چند ماہ پاکستان بھی پناہ گزین رہے تھے اور حکومت پاکستان نے ان کی بھرپور خدمت کی تھی لیکن ان طویل اور گہرے تعلقات کے باوجود تیونس اورپاکستان آج بہت دور ہیں، سیاحت اور تجارت دونوں نہ ہونے کے برابر ہیں، ہمارا گروپ تیونس کا وزٹ کرنے والا پہلا پاکستانی سیاحتی گروپ تھا جب کہ تیونس سے تاجر اور سیاح بھی پاکستان نہیں آتے اور یہ انتہائی قابل افسوس بات ہے۔
تیونسی معاشرہ بربر، عرب، یورپی اور ترک روایات کا خوب صورت گل دستہ ہے، بربر یہاں کے قدیم باشندے ہیں، یہ پیدائشی واریئر ہیں، ان کی روایات دس ہزار سال پرانی ہیں، عرب یہاں فاتح بن کر آئے اور یہ 14 سو سال سے یہاں ہیں، رومن، فرنچ اور سپینش تاریخ کے مختلف ادوار میں تیونس کو فتح کرتے رہے۔
یہ علاقہ آخری مرتبہ75سال فرانس کے قبضے میں رہا، تیونس نے 1956ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی، ترکوں نے سولہویں صدی میں خیر الدین باربروسہ کی مدد سے شمالی افریقہ فتح کیا اور یہ پہلی جنگ عظیم تک یہاں قابض رہے چناں چہ یہ معاشرہ مختلف روایات، زبانوں اور رنگ و نسل کا مرکب ہے، آپ کو لوگوں کے چہروں اور آوازوں میں بھی ان تمام قوموں اور زمانوں کی جھلک ملتی ہے۔
دوسرا تیونس دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جنہوں نے عربوں، ترکوں اور یورپی اقوام سے جنگ کے بغیر آزادی حاصل کی اور یہ چیز ان کی امن پسند خصلت کو ظاہر کرتی ہے، یہ آج بھی امن پسند اور شائستہ ہیں، یہ دوسرے لوگوں کو بلاوجہ تنگ نہیں کرتے، عرب ملکوں اور یورپ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، یورپ کے ساتھ فری ٹریڈ ایگری منٹ ہے لہٰذا ملک میں بے تحاشا یورپی کمپنیاں کام کرتی ہیں۔
خواتین بااعتماد اورتگڑی ہیں، آپ کو گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر خواتین بے خوف چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں، فارمیسی کا پورا کاروبار خواتین کے ہاتھ میں ہے، تیونس کی وزیراعظم بھی خاتون ہیں، نجلا بودین کو عرب دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل ہے اورتیونس اس پر فخر بھی کرتا ہے، آپ ملک میں کسی جگہ نکل جائیں آپ کو سڑک پر حجاب بھی نظر آئے گا۔
سکرٹ بھی اور جینز بھی اور یہ تمام خواتین مردوں کے ساتھ اعتماد سے چلتی، پھرتی اور گفتگو کرتی دکھائی دیں گی، یہودیوں کا قدیم ترین سینا گوگ تیونس کے جزیرے جربہ میں ہے، جربہ میں یہودیوں کے پرانے خاندان بھی موجود ہیں، یہ سپینش یہودی ہیں، 1492ء میں سقوط غرناطہ کے بعد عیسائی فاتحین نے مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کو بھی سپین سے نکال دیا تھا، اس وقت ترکی میں بایزید دوم کی حکومت تھی۔
سلطان نے سپینش یہودیوں کو پناہ دے دی تھی چناں چہ ہزاروں یہودی کشتیوں پر بیٹھ کر استنبول اور اناطولیہ آ گئے، حکومت نے انہیں بالات کے علاقے میں آباد کر دیا، اناطولیہ میں بھی بڑی تعداد میں یہودی آباد ہوئے، تیونس، الجیریا اور مراکو اس وقت ترکوں کے قبضے میں تھا لہٰذا ہزاروں یہودی خاندان استنبول کی بجائے ان ملکوں میں بھی آ کر بس گئے، جربہ کے یہودی بھی ان میں شامل تھے
اور یہ اب پانچ سو سال سے تیونس میں رہ رہے ہیں۔ تیونس کے لوگ مالکی فقہ کو مانتے ہیں، ملک کی تمام مسجدیں حکومت کے کنٹرول میں ہیں، مؤذن اور امام دونوں سرکاری ملازم ہوتے ہیں، اذان ایک ہی وقت میں ہوتی ہے اور آہستہ آواز میں ہوتی ہے، خطبہ حکومت کی طرف سے موصول ہوتا ہے اور امام اسے کاغذ سے پڑھ کر سنا دیتا ہے، یہ اپنی طرف سے ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا۔
ہمارے گروپ کو جمعہ کی نماز حمامت میں پڑھنے کا اتفاق ہوا، ہم لوگ مسجد کے انتظام سے بہت متاثر ہوئے، استنجا خانے عمارت کی پشت پر فاصلے پر بنائے گئے جس کی وجہ سے مسجد ہر قسم کی بو اور نمی سے محفوظ تھی، دوسرا نمازی ریلیکس ہو کر مختلف ٹولیوں میں بیٹھے تھے، نماز سے چند لمحے قبل امام آئے، خطبہ پڑھا، صفیں سیدھی ہوئیں، نماز ہوئی اور لوگ دس منٹ میں مسجد سے باہر کھڑے تھے۔
کسی قسم کی ہڑبونگ اور اتفراتفری نہیں تھی، آپ ان کے رویوں کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے، قرطاج کے آثار میں ایک پرانا ایمپی تھیٹر ہے وہاں اکثر میوزک کنسرٹ ہوتے رہتے ہیں، کنسرٹ کے دنوں میں مؤذن اپنی آواز مزید دھیمی کر لیتا ہے اور کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا، دوسری مثال اسرائیل کا سفارت خانہ ہے، تیونس میں جب اسرائیلی سفارت خانہ کھلاتو عرب دنیا نے اس پر اعتراض کیا لیکن تیونسی عوام اس پر خاموش رہے۔
ملک میں کسی قسم کا احتجاج نہیں ہوا، یہ بھی ان کی لبرل سوچ اور دنیا کے ساتھ چلنے کی فلاسفی کی غماض ہے، پی ایل او کا ہیڈکوارٹر بارہ سال تیونس میں رہا، اس دور میں ملک میں ہزاروں فلسطینی خاندان رہتے تھے اور اسرائیل نے تیونس پر حملہ بھی کیا تھا چناں چہ آپ ایکسٹریم دیکھیے، ملک میں پی ایل او کا ہیڈکوارٹر بھی رہا اور عربوں میں سب سے پہلے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی تیونس نے استوار کیے، ہمیں اس معاملے میں بھی تیونس سے سیکھنا چاہیے۔
میرا ذاتی خیال ہے ہمیں بھارت اور اسرائیل دونوں سے سفارتی تعلقات بہتر رکھنے چاہییں، دنیا بدل چکی ہے چناں چہ ہمیں بھی اب بدل جانا چاہیے، ہم اگر چلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں وقت کے ساتھ چلنا چاہیے ورنہ ہم پیچھے بھی رہ جائیں گے اور تین اور تیرہ دونوں فہرستوں سے بھی نکل جائیں گے۔ ہم نے ملک کے مختلف حصوں میں ایک عجیب منظر دیکھا، ہر سکول اور کالج کے باہر طالب علم کھڑے تھے۔
ہم نے وجہ پوچھی تو پتا چلا سکولوں اور کالجز میں کلاس رومز کم اور طالب علم زیادہ ہوتے ہیں لہٰذا تعلیمی ادارے فی گھنٹہ پالیسی پر چلتے ہیں، ایک کلاس کمرے میں پڑھتی ہے اور باقی کلاسز کے طالب علم عمارت سے باہر فٹ پاتھ یا سڑک پر کھڑے ہو جاتے ہیں، وہ کلاس اپنا پیریڈ ختم کر کے سڑک پر آ جاتی ہے تو سڑک کے طالب علم اندر چلے جاتے ہیں، ہم نے گائیڈ سے پوچھا "کیا اس دوران طالب علم غائب نہیں ہوتے؟"
گائیڈ کا جواب تھا "نہیں ہوتے کیوں کہ طالب علموں کے ساتھ استاد بھی باہر آتے ہیں اور اپنے سٹوڈنٹس پر نظر رکھنا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اگر کوئی طالب علم غمچہ دے جائے تو سکول کی انتظامیہ استاد سے جواب طلبی کرتی ہے" تیونس میں نمک کی تین جھیلیں ہیں، یہ شط الجدید، شط الجریر اورشط الفرستہ کہلاتی ہیں، یہ لوگ ان جھیلوں سے دو قسم کا نمک نکالتے ہیں۔
کھانے کا نمک اور سڑکیں صاف کرنے کا نمک، یورپ، کینیڈا اور امریکا میں سردیوں میں برف باری کے دوران سڑکوں پر نمک کا چھڑکائو کیا جاتا ہے، اس کی وجہ سے سڑک پر برف نہیں جمتی اور ٹریفک کا بہائو جاری رہتا ہے، سرد ممالک کو ہر سال برف باری سے پہلے لاکھوں ٹن نمک درکار ہوتا ہے، تیونس یہ نمک فراہم کرنے والے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے، نمک ان کے بڑے سورس آف انکم میں شامل ہے۔
تیونس کے سمندر فرانس، اٹلی اور سپین کو ٹچ کرتے ہیں، غیرقانونی تارکین وطن عموماً تیونس کے پانیوں سے گزر کر یورپ میں داخل ہوتے ہیں، ان تینوں ملکوں نے ہیومین ٹریفک روکنے کا ٹھیکا بھی تیونس کو دے رکھا ہے لہٰذا یہ انسانی سمگلروں کی کشتیاں اپنے پانیوں میں روک لیتے ہیں اور ان خدمات کے عوض یورپ سے کروڑوں ڈالر وصول کرتے ہیں، یہ فٹ بال کے شیدائی ہیں۔
فٹ بال میچ کے دوران پورا ملک بند ہوجاتا ہے اور اگر ان کی ٹیم جیت جائے تو پورا ملک باہر نکل کر ناچتا اور گاتا ہے اور اس جشن میں مولوی بھی شامل ہوتے ہیں او رتیونس کی آخری چیز جس نے ہمیں حیران بھی کیا اور پریشان بھی، یہ لوگ اپنی کرنسی ملک سے باہر نہیں جانے دیتے
لہٰذا ائیرپورٹ پر واپسی پر ہمارے لوگوں کو اس ضمن میں پریشانی کا سامنا کرناپڑا، یہ 1600 سے زیادہ ڈالرز اور یوروز باہر نہیں جانے دیتے چناں چہ آپ اگر تیونس کا وزٹ کرنا چاہتے ہیں تو واپسی پر آپ کی جیب میں لوکل دینار اور 16 سو ڈالرز یا یوروز سے زیادہ رقم نہیں ہونی چاہیے ورنہ کسٹم اہلکار آپ کی اضافی رقم ضبط کر لیں گے اور ہمارے چند ساتھیوں کے ساتھ یہ ہوا، یہ اپنی رقم سے محروم ہو گئے۔