Saturday, 23 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Vacuum

Vacuum

ہٹلر کو مرے ہوئے 67 سال ہو چکے ہیں لیکن ہٹلر کی ذاتی، سیاسی اور جنگی تھیوریز آج بھی زندہ ہیں، آج بھی یورپ اور امریکا میں یہ بحث جاری ہے اگر بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہٹلر نہ ابھرتا تودنیا دوسری عالمی جنگ سے بچ جاتی، دنیا کے بے شمار جنگی ماہرین اور سماجی دانشوروں کا خیال ہے ہٹلر نہ ہوتا، اگر وہ " جرمن قوم سپریم ہے" کا نعرہ نہ لگاتا تو دنیا کے تین کروڑ لوگ موت سے بچ جاتے مگر ان کے ساتھ ساتھ دنیا میں ایسے ماہرین کی تعداد بھی کم نہیں جو یہ سمجھتے ہیں ہٹلر مخصوص عالمی حالات کی پیداوار تھا، دنیا کے حالات خراب ہو چکے تھے، یورپ پچیس ممالک میں تقسیم تھا اور ہر ملک دوسرے ملک کا جانی دشمن تھا، برطانیہ اور فرانس کے درمیان چھوٹی سی آبی خلیج ہے لیکن یہ دونوں ملک سماجی لحاظ سے اتنے دور تھے کہ فرانسیسی شہری انگریزی بولنا گناہ سمجھتے تھے اور انگریز فرنچ لوگوں کے ساتھ گفتگو کے بعد مائوتھ واش سے قلی کرتے تھے۔

جرمن لوگ اپنی حدود کو ماسکو تک پھیلا دیتے تھے اور اسپین، اٹلی اور پرتگال ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، دنیا معاشی لحاظ سے بھی خوفناک دور سے گزر رہی تھی، خوراک کا بحران شروع ہو چکا تھا، تیل کی دولت پر قبضے کی دوڑجاری تھی، یورپ میں چرچ اور پادری کی سیاسی دست درازیاں بھی انتہا کو چھو رہی تھیں، فوجیں سیاست اور سیاستدانوں سے مضبوط ہو چکی تھیں، مزدور اور کسان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے پنجے میں جکڑا ہوا تھا اور نو آبادیاتی نظام اور امیر خطوں پر قبضوں کا سلسلہ بھی آخری فیز میں داخل ہو چکا تھا اور یہ سارے حالات دنیا کو ایسے مقام پر لے آئے تھے جہاں کسی نہ کسی ہٹلر کا جنم ناگزیر تھا، یہ ہٹلر اگر جرمنی میں پیدا نہ ہوتا تو اس نے برطانیہ، فرانس، ماسکو، روم، لزبن یا میڈرڈ میں آنکھ کھول لینا تھی اور اس نے بھی وہی کرنا تھا جو ایڈوولف ہٹلر نے کیا، وہ بھی دنیا کو اسی قسم کی مہلک جنگ کے دہانے پر لے جاتا جس کے بعد موت کے سائے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے اور اس تباہ کن جنگ کے بعد دنیا امن کے ایک ایسے دائمی راستے پر چل پڑتی جس کے درمیان میں دنیا کے 68 غلام ملک آزاد ہو جاتے، یورپ اپنی سرحدیں ختم کر دیتا، یورپ کی کرنسی اور ویزہ ایک ہو جاتا، دنیا کے درمیان موجود بلاک اور آہنی پردے گرنے لگتے اور کرہ ارض انسانی حقوق کو اپنا آئین بنا لیتے، بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہٹلر بہر حال ناگزیر تھا، دنیا نے ہر حال میں بدترین آمر، جنگی جنونی اور انا کے ہمالیہ پر بیٹھا خوفناک درندہ ضرور دیکھنا تھا، یہ آرگومنٹ بڑی حد تک درست ہے کیونکہ ابتر سیاسی حالات ہمیشہ "ویکیوم" پیدا کرتے ہیں اور ہٹلر جیسے لوگ اس ویکیوم سے جنم لیتے ہیں، یہ لوگ ایک لحاظ سے معاشروں کے محسن بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان کے بعد معاشرے عموماً ٹھیک ہو جاتے ہیں، یہ لوگ اگر نہ ہوں تو شاید معاشرے تبدیل نہ ہوں، شاید انسانوں کی زندگی نہ بدلے، شاید بہتری کی فصلیں لہلہانا شروع نہ کریں اور اگر یہ نہ ہوں تو شاید انسان کی غفلت کی نیند کھلنے میں سیکڑوں سال لگ جائیں۔

پاکستان آج ایسے ہی سیاسی، سماجی اور نظریاتی دور سے گزر رہا ہے، ملک گروپوں اور مافیاز میں تقسیم ہے، ہر گروپ قانون، آئین اور اخلاقیات سے مضبوط ہے، یہ مافیاز اپنی مرضی کے قانون بھی بنا لیتے ہیں اور آئین میں ترمیم بھی کر لیتے ہیں، ملک اس پولرائزیشن کی وجہ سے دو طبقوں میں تقسیم ہو چکا ہے، مالک اور غلام۔ مالک طبقہ ضرورت پڑنے پر سمجھوتہ کر کے سعودی عرب اور لندن چلا جاتا ہے، یہ کرپشن کے واضح ثبوتوں کے باوجود قانون کے شکنجے سے بچ جاتا ہے، یہ این آر او بھی کر لیتا ہے، یہ میثاق جمہوریت کے نام پر ایک دوسرے کا ہاتھ بھی تھام لیتا ہے، یہ ایم کیو ایم، پاکستان مسلم لیگ ق، یونی فکیشن بلاک اور ہم خیالوں کا دامن بھی تھام لیتا ہے، یہ ذاتی مفاد کے لیے اٹھارہویں، انیسویں، بیسویں اور اکیسویں ترمیم بھی پاس کر لیتا ہے اور یہ مفاہمت کے نام پر اخلاقیات تک کی قربانی دے دیتا ہے، اس گروپ میں کل تک صرف فوج، سیاستدان، جاگیردار اور سرمایہ دار ہوتے تھے لیکن آج اس میں مذہبی گروپ، میڈیا ایمپائرز اور وکلاء بھی شامل ہو چکے ہیں اور آج ملک میں وکیلوں، صحافیوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف بھی کارروائی ممکن نہیں جب کہ ان کے مقابلے میں غلام لوگ بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں، ملک میں بجلی، گیس، نوکری، تعلیم اور صحت تو رہی دور عام انسان زندگی تک کے حق سے محروم ہو چکے ہیں، کراچی سے لے کر پشاور تک ملک میں کسی بھی عام شخص کو گولی مار دی جاتی ہے اور پولیس ایف آئی آر تک درج کرنا گوارا نہیں کرتی، نوکریاں موجود نہیں ہیں، اگر ہیں تو میرٹ نہیں، کرنسی روزانہ کی بنیاد پر "ڈی ویلیو" ہو رہی ہے، عوام سے متعلقہ تمام محکمے اور تمام ادارے زوال پذیر ہیں، انتہا پسندی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، حکومت کو محرم کے جلوس نکالنے کے لیے سو سو شہروں کی موبائل فون سروس بند کرنا پڑ جاتی ہے، ملک میں شناختی کارڈوں اور ناموں کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے اور ریاست خاموشی سے تماشا دیکھتی ہے، اس تقسیم، اس پولرائزیشن نے ملک میں وسیع سیاسی خلا پیدا کر دیا ہے اور جو شخص اس خلا میں قدم رکھ دیتا ہے لوگ دیوانہ وار اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں، وہ شخص خواہ چوہدری اعتراز احسن ہو، عمران خان ہو یا پھر علامہ طاہر القادری ہوں لوگ اس کو نجات دہندہ سمجھ کر اس کا پرچم تھام لیتے ہیں۔

ہم اگر چند لمحوں کے لیے علامہ طاہر القادری کا ماضی بھول جائیں، انھوں نے ماضی میں کیا کیا غلطیاں کیں، یہ سیاسی لحاظ سے ناکام شخص ہیں اور انھوں نے کینیڈین شہریت لے رکھی ہے، ہم اگر چند لمحوں کے لیے یہ اعتراضات سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیں تو پھر ہمیں یہ ماننا پڑے گا علامہ صاحب کے مطالبات غلط نہیں ہیں، یہ حقیقت ہے ملک کا نظام فیل ہو چکا ہے، ہمارا سیاسی نظام صرف اور صرف کٹھ پتلیاں پیدا کررہا ہے، سیاسی جماعتیں جاگیردارانہ سوچ کی انتہا کو چھو رہی ہیں، ملک میں کوئی اچھا، پڑھا لکھا، ایماندار اور سمجھ دار شخص موجودہ سیاسی نظام کے ذریعے سامنے نہیں آ سکتا، یہ حقیقت ہے اس نظام میں رہ کر پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کو گلے لگانے پر مجبور ہو جاتی ہے، پاکستان مسلم لیگ ن مسلم لیگ ق کے ارکان کو جنرل مشرف کے اچھے ساتھیوں اور برے ساتھیوں میں تقسیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اس میں عمران خان جیسا سونامی بھی ان لوگوں کو اپنے دائیں بائیں بٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے ہمارے موجودہ سیاسی نظام میں جمشید دستی، زاہد اقبال اور موسیٰ گیلانی ایفی ڈرین، دوہری شہریت اور جعلی ڈگری کے الزامات کے باوجود الیکشن لڑتے ہیں اور قوم انھیں دوسری بار بھی منتخب کر کے ایوان میں بھجوا دیتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے اگر موجودہ سسٹم کے تحت الیکشن ہوتے ہیں تو وہی لوگ دوبارہ ایوانوں میں آ جائیں گے جنہوں نے پچھلے پانچ برسوں میں ملک کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا، جو ملک کو ڈیفالٹ تک لے گئے ہیں چنانچہ علامہ طاہر القادری کا سیاست کے بجائے ریاست بچائو کا نعرہ غلط نہیں ہاں البتہ یہ بات تحقیق طلب ہے علامہ صاحب اپنے مطالبے میں کس قدر سنجیدہ ہیں، کیایہ واقعی ریاست بچانا چاہتے ہیں یا پھر یہ بھی سیاست بازی فرما رہے ہیں، یہ لانگ مارچ کے ذریعے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان پہنچانا چاہ رہے ہیں اور کیا ان کا ماضی ان کے حال سے مختلف ہو گا؟ رہی ٹائمنگ کی بات تو علامہ طاہر القادری کی ٹائمنگ بہت زبردست ہے، یہ واقعی درست وقت پر پاکستان آئے ہیں۔

ملک میں زرداری کی مفاہمتی سیاست، میاں صاحب کی اقدار کی سیاست اور عمران خان کی سونامی سیاست بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور ان ناکامیوں نے سیاسی خلا پیدا کر دیا ہے اور علامہ صاحب اس ویکیوم میں ٹھیک وقت پر لینڈ ہوئے ہیں، میرا خدشہ ہے اگر ہماری سیاسی جماعتوں نے اس وارننگ پر توجہ نہ دی تو یہ سیاسی خلا کسی خوفناک ہٹلر کو جنم نہ دے دے اور وہ ہٹلر ملک کی اینٹ سے اینٹ نہ بجا دے، یہ ہٹلر فوجی بھی ہو سکتا ہے، سابق فوجی بھی اور عوام کے غیض و غضب کا وہ عفریت بھی جو کلین شیو اور خوشبو لگانے والے ہر شخص کو اپنا دشمن سمجھے گا اور یہ اس سے پورا پورا بدلہ لے گا۔ علامہ طاہرالقادری سیاسی ویکیوم کی پیداوار ہیں، اگر ہم نے یہ موقع ضایع کر دیا تو اس ویکیوم کو ان سے زیادہ خطرناک لوگ پر کریں گے اور ہمارے سیاستدان شاید ان لوگوں کے خلاف بیان تک جاری کرنے کی جرأت نہ کر سکیں، وہ لوگ شاید گردن پہلے اتاریں اور جرم بعد میں پوچھیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.