چرچل جیت گیا، ہٹلر کا جرمنی اور ہیروہیٹو کا جاپان ہار گیا، یہ تاریخ ساز فتح تھی اور تاریخ جب بھی لکھی جاتی، مورخ چرچل کو سلام کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا تھا، دنیا میں آفرینش سے لے کر 1945ء تک ہزاروں لاکھوں جنگیں لڑی گئیں، ہزاروں لاکھوں سالاروں نے یہ جنگیں جیتیں، کھوپڑیوں کے مینار بھی بنے اور ان میناروں پر جھنڈے بھی لہرائے گئے اور ان کی کامرانیوں پر کتابیں بھی لکھی گئیں لیکن دنیا کی آخری بڑی جنگ کا سہرہ بہرحال ونسٹن چرچل ہی کو نصیب ہوا، چرچل فاتح عالم بن گیا، جرمنی اور جاپان دونوں خاک نشین ہو گئے، سوویت یونین مشرقی جرمنی اور ہنگری تک محدود ہوگیا، امریکا نے بڑے بھائی کا کردار ادا کیا، یہ برطانیہ کی مدد کے لیے آیا، جنگ ختم ہوئی، اس نے برطانیہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور واپس بحراوقیانوس کے ٹھنڈے پانیوں کے پار چلا گیا، چرچل اس جنگ کا فاتح تھا۔
دنیا کی دوسری عالمی جنگ جیتنے کے بعد چرچل کو خوش ہونا چاہیے تھا مگر وہ اداس تھا، اس کی شامیں سگار پیتے گزرتی تھیں، وہ زیادہ میل ملاپ بھی نہیں کرتا تھا، چرچل کے ساتھی، اس کے اہل خانہ اور اس کے قریبی دوست اس تبدیلی پر حیران تھے، آپ خود تصور کیجیے جو شخص لاشوں پر کھڑے ہو کر بھی ہشاش بشاش رہتا ہو، دنیا جس کی حس مزاح کی معترف ہو اور جو بڑے سے بڑے بحران میں بھی خوش رہنا جانتا ہو وہ دنیا کی سب سے بڑی فتح کے بعد اداس اور خاموش ہو جائے تو کیا یہ اچنبھے کی بات نہیں؟ لوگ پریشان تھے، پریشانی کے اس عالم میں چرچل کے ایک دوست نے ایک شام اس اداسی کی وجہ پوچھ لی، چرچل نے سگار کا لمبا کش لیا، ناک سے آہستہ آہستہ دھواں چھوڑا اور پھر آہستہ آواز میں بولا " ہم جنگ جیت گئے لیکن پانچ کروڑ لوگ زندگی کی بازی ہار گئے، پورے یورپ، پورے مشرق بعید اور آدھے سوویت یونین میں سیکڑوں نئے قبرستان بن چکے ہیں، کروڑوں لوگ کیمپوں میں پڑے ہیں، کروڑوں اسپتالوں میں سسک رہے ہیں اور کروڑوں لوگ باقی زندگی معذور بن کر گزاریں گے، میں جب بھی فتح کا جشن منانے لگتا ہوں، یہ لوگ میرے سامنے آ جاتے ہیں، یہ لوگ مجھے خوش نہیں ہونے دیتے" دنیا کے سب سے بڑے فاتح ونسٹن چرچل نے کہا "کاش میں اس جنگ کو روک سکتا، کاش ہم دنیا کے تنازعے میز پر حل کر لیتے، کاش ہم مذاکرات کرتے اور یہ مذاکرات جنگ روک لیتے، کاش ہم کروڑوں لوگوں کی زندگی بچا لیتے"۔
یہ فتح کا ایک نیا ورژن تھا، یہ ورژن ہی دنیا کا اصل ورژن ہے، امن زندگی اور جنگ موت ہوتی ہے، انسان کا اصل کمال لڑنا نہیں امن قائم رکھنا ہوتا ہے، لڑائی صرف ڈیفنس تک محدود ہونی چاہیے، جانوروں اور انسانوں میں یہی فرق ہوتا ہے، جانور لڑتا ہے جب کہ انسان اپنے تمام مسائل گفتگو کے ذریعے حل کرتے ہیں، لڑائی یا جنگ کو اسی لیے درندگی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ انسان لڑائی کے دوران شرف انسانیت سے اتر کر جانور کی سطح پر آ جاتا ہے اور یہ انسانیت کی توہین ہے، اسلام کو دین فطرت اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ امن کو جنگ پر فوقیت دیتا ہے، اس میں خون کا بدلہ صرف خون نہیں، یہ دیت کو قصاص پر اہمیت دیتا ہے، یہ حضرت امیر حمزہؓ کے قاتل تک کو معاف کر دیتا ہے، یہ قاتلوں کو تین آپشن دیتا ہے، معافی، دیت اور آخر میں قصاص، دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں یہ گنجائش موجود نہیں، آپ نے کبھی سوچا، کیوں؟ اس لیے کہ دین فطرت خون کے دھبے خون سے دھونے کو بے وقوفی سمجھتا ہے اور یہ بے وقوفی معاشروں کو قبرستانوں اور جنگلوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔
امن ہر حال میں سپریم ہونا چاہیے اور اس کے لیے مذاکرات کے خواہ کتنے ہی دریا کیوں نہ پار کرنا پڑیں انسان کو کرنا چاہئیں، جنگیں اگر مسائل حل کر سکتیں تو دنیا میں عالمی جنگوں کے بعد کوئی مسئلہ نہ ہوتا، دنیا کی دو بڑی جنگوں کے بعد بھی مسائل موجود ہیں اور انسان یہ مسئلے مذاکرات ہی کے ذریعے حل کر رہے ہیں، جنگی فتوحات اگر کسی انسان کو خوشی دے سکتیں تو دنیا میں چرچل کو سب سے زیادہ خوش ہونا چاہیے تھا لیکن دنیا کا سب سے بڑا فاتح دنیا کی سب سے بڑی فتح کے بعد بہت اداس تھا، چرچل تو کیا دنیا کا کوئی مہذب انسان، خون بہانے کے بعد خوش نہیں رہ سکتا، یہ وہ حقیقت ہے جسے ہمیں ہرحال میں تسلیم کرنا پڑے گا۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کی خرابی ہے، اس مسئلے کی بنیاد تنظیمیں ہیں، حکومت نے ستمبر 2013ء میں طالبان گروپوں کے ساتھ مذاکرات شروع کیے، یہ مذاکرات یکم نومبر تک ایک خاص سطح پر پہنچ گئے لیکن تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ ہوا اور یہ اس حملے میں مارے گئے اور یوں مذاکراتی عمل معطل ہوگیا، طالبان نے ملا فضل اللہ کو نیا امیر چن لیا، یہ مذاکرات کے خلاف ہیں، یہ لڑائی کو اہمیت دیتے ہیں، طالبان نے پاکستان کے اندر حملوں میں اضافہ کر دیا، حملوں کی نئی لہر ریاست کے لیے قابل قبول نہیں تھی چنانچہ فوج، سیاسی جماعتیں اور میڈیا طالبان کے خلاف ملٹری آپریشن کا مطالبہ کرنے لگا، حکومت دباؤ میں آ گئی اور یوں محسوس ہونے لگا میاں نواز شریف کسی بھی وقت فوجی آپریشن کا اعلان کر دیں گے، بدھ 29 جنوری کی صبح بھی زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا میاں نواز شریف قومی اسمبلی میں آئیں گے اور طالبان کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیں گے لیکن وزیراعظم نے امن کو ایک اور موقع دینے اور چار رکنی مذاکراتی کمیٹی بنانے کا اعلان کر کے پورے ملک کو حیران کر دیا، وزیراعظم کی طرف سے اس اعلان سے قبل یوں محسوس ہوتا تھا ریاست نے لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے، پاکستان مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی نے بھی 27 جنوری کو وزیراعظم کو "میاں صاحب پے جاؤ" کا مینڈیٹ دے دیا تھا، وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے تو گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ تک بتا دیا " حکومت نے 174 مقامات سرکل کر لیے ہیں، ریاست ان مقامات پر آپریشن کرے گی" گزشتہ جمعے کو صدر ممنون حسین نے بھی لنچ کے دوران فرمایا تھا" مذاکرات کا اتمام حجت ہو چکا ہے، ریاست کو اب آپریشن کرنا چاہیے" لیکن میاں صاحب عین موقع پر پہنچ کر ایک سو اسی درجے پر مڑے اور امن کو ایک اور موقع دے کر ان تمام قوتوں کو حیران کر دیا جو فوجی آپریشن کی توقع کر رہی تھیں اور جو اس آپریشن کے دوران میاں نواز شریف کو ایک بار پھر ایوان اقتدار سے فارغ ہوتے دیکھنا چاہتی تھیں۔
میاں نواز شریف نے بہرحال ایک اچھا فیصلہ کیا، کمیٹی کے ارکان بھی غیر متنازعہ اور سمجھ دار ہیں، عرفان صدیقی 1996ء سے شریف فیملی کے قریب ہیں، یہ صدر رفیق احمد تارڑ کے پریس سیکریٹری بھی رہے، یہ میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی ان کے رابطے میں تھے، یہ میاں صاحبان سے سعودی عرب اور لندن میں ملاقاتیں بھی کرتے رہے اور میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی زیادہ تر تقاریر بھی عرفان صدیقی ہی تحریر کرتے ہیں، میاں صاحب نے بدھ کو قومی اسمبلی میں جو تقریر کی، یہ بھی عرفان صدیقی صاحب نے تحریر کی تھی، یہ میاں صاحب کے اعتباری ساتھی ہیں، میجر عامر دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد مولانا طاہر نے اپنے گاؤں پنج پیر میں دارالقرآن کے نام سے مدرسہ قائم کیا، یہ مدرسہ اب میجر عامر کے بھائی مولانا طیب چلاتے ہیں، طالبان ان کا احترام کرتے ہیں، میجر عامر مذاکرات کے ماہر ہیں، یہ طالبان کی کمزوریوں سے بھی واقف ہیں چنانچہ یہ ریاست اور طالبان کے درمیان موجود غلط فہمی کی دیوار توڑ سکتے ہیں۔
رستم شاہ مہمند افغانستان میں پاکستان کے سفیر اور کے پی کے میں چیف سیکریٹری رہے، یہ سفارتی باریکیوں کے ساتھ ساتھ ریاستی مجبوریوں سے بھی آگاہ ہیں، یہ پشتو اسپیکنگ بھی ہیں، یہ طالبان کے غصے کی وجوہات بھی جانتے ہیں اور یہ ملا فضل اللہ کی نفسیات سے بھی آگاہی رکھتے ہیں لہٰذا یہ بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، اور پیچھے رہ گئے، ہمارے دوست رحیم اللہ یوسف زئی۔ یہ ملک کے ایک ایسے صحافی ہیں جو اس پورے خطے کے نفسیاتی، سفارتی اور جغرافیائی حالات سے واقف ہیں، حکومت، طالبان اور میڈیا تینوں ان کی عزت کرتے ہیں، یہ مذاکرات کے دوران میڈیا کی غلط فہمیاں، افواہ سازی اور خیبر پختونخواہ حکومت کی مجبوریاں دور کرسکتے ہیں۔ وزیر داخلہ اور وزیر اعظم بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں، طالبان سے رابطہ اور مذاکرات یہ کمیٹی کرے گی اور جہاں اختیارات اور فیصلے کی ضرورت پڑے گی وہاں وزیر داخلہ اور وزیر اعظم دونوں موجود ہوں گے چنانچہ موجودہ حالات میں اس سے بہتر کوئی حل ممکن نہیں تھا۔
میں میاں نواز شریف کو اس فیصلے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں لیکن مجھے ساتھ ہی دو خدشات بھی ہیں، اللہ نہ کرے آج کل کوئی بڑا خودکش حملہ ہو جائے اور مذاکرات کے دشمن اس حملے کو ان طالبان کے کھاتے میں ڈال دیں جو وزیراعظم کی کمیٹی کو حکومت کی سنجیدہ کوشش قرار دے چکے ہیں یا پھر طالبان کی قیادت پر کوئی ڈرون حملہ ہو جائے، خدانخواستہ اگر یہ ہوگیا تو مذاکرات واپس وہاں چلے جائیں گے جہاں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد چلے گئے تھے، حکومت اور طالبان اگر دونوں اس حملے سے بچ گئے تو پھر واقعی امن کو موقع مل جائے گا، یہ ملک خطرات سے نکل جائے گا ورنہ دوسری صورت میں ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا، ہمیں ہوسکتا ہے پھر جنگ کرنی پڑے اور ہم اس جنگ میں کامیاب بھی ہو جائیں مگر اس جنگ کے بعد ہماری وہی حالت ہو گی جو ونسٹن چرچل کی دوسری جنگ عظیم کے بعد تھی، چرچل فتح یاب ہو گیا لیکن اس کی باقی زندگی افسوس اور اداسی میں گزری، وہ قبریں گنتا گنتا خود بھی قبر میں اتر گیا۔