سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کراچی کے تاجر طبقے کا ایک حیران کن منصوبہ ہے، یہ ٹرسٹ مولانا بشیر فاروقی نے 1999ء میں قائم کیا، مولانا میمن کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، مسلک کے لحاظ سے حنفی ہیں، کراچی میں باردانے کی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے، جوانی میں طبیعت مذہب کی طرف مائل ہوئی، دارالعلوم میں داخل ہوئے، مذہبی اور روحانی تعلیم حاصل کی، استخارے میں مہارت حاصل کی، لوگ ان کے دیوانہ وار مرید ہوئے، مذہبی چینل پر لائیو استخارہ شروع کیا، زائرین کی تعداد میں اضافہ ہو گیا، کراچی کی بزنس مین کمیونٹی میں روحانی رسوخ بنا، یہ عملی شخصیت ہیں چنانچہ انھوں نے میمن کمیونٹی کے ساتھ مل کر پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھ دی، سیلانی ٹرسٹ کا نام انھیں خانقاہ ڈوگراں میں مدفن خواجہ محکوم الدین سیلانی سے ملا، یہ بزرگ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گھومتے رہتے تھے، یہ اس معمول کی وجہ سے سیلانی کہلاتے تھے، یہ سیلانی تھے لیکن سمہ سٹہ ان کا مرکز تھا، یہ گھوم پھر کر واپس سمہ سٹہ اور خانقاہ ڈوگراں آجاتے تھے، دنیا کے تمام جینوئن بزرگ لنگر ضرور شروع کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ رازق ہے، یہ آگ اور پتھر کے کیڑوں کو بھی رزق پہنچاتا ہے چنانچہ یہ ہر اس شخص کو پسند کرتا ہے جو دوسروں کے رزق کا ذریعہ بنتا ہے۔
آپ کو یقین نہ آئے تو آپ دنیا بھر کی سستی فوڈ چینز کی اسٹڈی کر لیں، دنیا کے کسی بھی کونے میں بننے والی سستی فوڈ چین دوسری مصنوعات کے مقابلے میں دس گنا تیزی سے ترقی کرتی ہے، کیوں؟ کیونکہ یہ چین لوگوں کو سستا رزق فراہم کرتی ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کی آمدنی میں برکت ڈال دیتا ہے، صوفیاء کرام کیونکہ اللہ کے اس نظام کو سمجھتے ہیں لہٰذا یہ اپنی درگاہ پر لنگر کا اہتمام ضرور کرتے ہیں، یہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور یوں ان کا آستانہ، ان کی درگاہ بادشاہوں کے دربار سے زیادہ اہمیت اختیارکر لیتی ہے، دہلی کے تمام مسلمان حکمران دنیا سے رخصت ہو گئے، ان کے دربار اور محلات اجڑ گئے لیکن دہلی کے صوفیاء کرام کے دربار آج بھی قائم ہیں، ان درباروں کی رونق کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ ان کا لنگر بھی ہے، ان کا دستر خوان قائم ہے چنانچہ ان کی درگاہ بھی سلامت ہے، خانقاہ ڈوگراں کے سیلانی بابا بھی بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے، آپ کے اس روحانی ذوق کی وجہ سے آپ کے دربار میں بہت رونق تھی، یہ رونق آج بھی قائم ہے، سیلانی بابا آخری عمر میں سفر کے لیے نکلے، بھارت کے علاقے دھراجی میں قیام کیا اور وہاں ان کا وصال ہو گیا، دھراجی کے لوگوں نے آپ کو اپنے علاقے میں دفن کردیا، سمہ سٹہ کے لوگوں کو علم ہوا تو یہ دھراجی پہنچ گئے اور آپ کی میت کا مطالبہ کردیا۔
دھراجی کے لوگوں نے انکار کر دیا، نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی، اس دوران خواجہ محکوم الدین سیلانی دھراجی کے راجہ کے خواب میں آئے اور اس کو حکم دیا، آپ ان لوگوں کو میری لاش لے جانے دو، میں وہاں بھی رہوں گا اور آپ کے پاس بھی، راجہ نے اس حکم پر لبیک کہا، آپ کے مریدین آپ کا وجود اطہر لے کر سمہ سٹہ آ گئے اور خانقاہ شریف میں آپ کو دفن کر دیا، دھراجی کے راجہ نے تجسس سے مغلوب ہو کر ایک دن آپ کی خالی قبر کھول کر دیکھی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا، حضرت صاحب قبر میں قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے، راجہ نے قبر بند کی اور اس پربھی مزار بنوا دیا، یوں دنیا میں خواجہ محکوم الدین سیلانی بابا کے دو مزار ہیں، بھارت کے علاقے دھراجی اور پاکستان کے شہر سمہ سٹہ کے مضافات میں، مولانا بشیر فاروقی اور ان کے ساتھیوں نے جب 1999ء میں ویلفیئر ٹرسٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ لوگ نام تلاش کرنے لگے، آپ حسن اتفاق دیکھئے، یہ لوگ ٹرسٹ قائم کرنے کے لیے کراچی کی جس عمارت میں اکھٹے ہوئے وہ عمارت سیلانی چوک میں واقع تھی اور وہ علاقہ دھراجی کہلاتا تھا، ان لوگوں نے اسے قدرت کا اشارہ سمجھا اور اپنے ادارے کا نام سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ رکھ دیا۔
یہ ٹرسٹ پندرہ سال قبل بنا لیکن اس نے کراچی، حیدر آباد اور فیصل آباد میں کمال کر دیا، کراچی شہر میں اس کے 52 دستر خوان ہیں، ان دستر خوانوں پر روزانہ ایک لاکھ لوگ مفت کھانا کھاتے ہیں، سیلانی ٹرسٹ روزانہ 500 بکرے ذبح کرتا ہے، یہ ان کا سالن پکا کر غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور جو گوشت بچ جاتا ہے، یہ لوگ اسے غریبوں کی بستیوں میں بانٹ دیتے ہیں، یہ کراچی کے پانچ ہزار گھرانوں کی کفالت بھی کر رہے ہیں، یہ انھیں مہینے بھر کا راشن دیتے ہیں، ان کے گھروں کا کرایہ ادا کرتے ہیں، ان کے یوٹیلٹی بل ادا کرتے ہیں، ان کے بچوں کے اسکول کی فیس ادا کرتے ہیں اور انھیں ادویات بھی فراہم کرتے ہیں، یہ پانچ ہزار خاندان وہ ہیں جن کے سربراہ ٹارگٹ کلنگ، ایکسیڈنٹ یا فساد میں مارے گئے اور ان کے خاندان کا کوئی کفیل نہیں، یہ لوگ اس مد میں ہر مہینے اڑھائی کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں، یہ انتہائی غریب لوگوں کو گھر اور فلیٹ بھی بنا کر دے رہے ہیں، یہ بیروزگاروں کو رکشے بھی خرید کر دیتے ہیں۔
کراچی شہر میں انھوں نے ساڑھے سات سو رکشے دیے، رکشہ مالکان سیلانی ٹرسٹ کو روزانہ اڑھائی سو روپے ادا کرتے ہیں اور اٹھارہ ماہ بعد رکشے کے مالک بن جاتے ہیں، یہ پاپ کارن اور چائے کی چھوٹی مشینیں بھی دیتے ہیں، کراچی میں انھوں نے ایک ڈسکاؤنٹ اسٹور بھی قائم کیا، اس اسٹور سے کوئی بھی شخص خریداری کر سکتا ہے، خریداروں کو اسٹور میں 30 فیصد رعایت ملتی ہے، یہ ہر مہینے ساڑھے چار سو بچیوں کو جہیز بھی دیتے ہیں، یہ دس ہزار طالب علموں کو وظائف بھی دے رہے ہیں، سیلانی ٹرسٹ نے ایک انتہائی دلچسپ چیز بھی ایجاد کی، انھوں نے فائر موٹر سائیکل بنوائے، یہ موٹر سائیکل آگ بجھاتے ہیں، موٹر سائیکلوں پر پانی کے چھوٹے ٹینک اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے سلینڈر لگے ہیں، یہ موٹر سائیکل چند منٹوں میں ان گلیوں میں گھس جاتے ہیں جہاں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں نہیں پہنچ پاتیں، یہ وہاں پہنچ کر فوراً آگ بجھا دیتے ہیں، میری چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ سے درخواست ہے، یہ سیلانی ٹرسٹ کی اس ایجاد سے فائدہ اٹھائیں، موٹر سائیکلوں کو بھی فائر بریگیڈ کا حصہ بنائیں، اس سے ہزاروں لوگوں کو فائدہ ہو گا، یہ لوگ کراچی کے لیے لمبی لمبی سیڑھیاں بھی درآمد کر رہے ہیں، یہ ایسے غبارے بھی لا رہے ہیں جو آگ لگنے کی صورت میں عمارتوں کے نیچے بچھا دیے جائیں گے اور لوگ ان پر کود کر جان بچا سکیں گے۔
سیلانی ٹرسٹ نے ڈسپنسریاں بھی بنا رکھی ہیں، یہ بنیادی صحت پر بھی کام کر رہے ہیں، یہ موبائل کلینک بھی بنا رہے ہیں، ان کے چھوٹے اسپتال بھی ہیں، یہ کمپیوٹر ٹریننگ کا پروگرام بھی چلا رہے ہیں، ان کی کمپیوٹر لیب میں پانچ سو طالب علم مفت ٹریننگ لیتے ہیں اور یہ ٹریننگ کے بعد مہینے میں تیس چالیس ہزار روپے کما لیتے ہیں اور یہ لوگوں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے انھیں مختلف قسم کے ہنر بھی سکھاتے ہیں، سیلانی ٹرسٹ 63 شعبوں میں کام کر رہاہے، یہ ویلفیئر پر سالانہ دو سو 15 کروڑ روپے (سودو ارب) خرچ کرتے ہیں، ان کے ڈونرز کراچی کے بڑے بزنس مین ہیں، یہ بزنس مین اس ادارے کے ٹرسٹی ہیں، یہ ادارے کو وقت بھی دیتے ہیں، توانائی بھی اور سرمایہ بھی چنانچہ یہ ادارہ صرف پندرہ برس میں پاکستان کا سب سے بڑا ٹرسٹ بن گیا، اس میں اس وقت رضا کاروں کے علاوہ تیرہ سو لوگ کام کرتے ہیں، ادارہ ان ملازمین کو دانت صاف کرنے، ناخن کانٹے، جوتے پالش کرنے، بچوں کو اسکول میں داخل کرانے اور صاف لباس پہننے کا الاؤنس دیتا ہے، یہ ملازمین کو کتابیں بھی فراہم کرتا ہے۔
میں سیلانی فاؤنڈیشن کا کام دیکھنے کے لیے ہفتہ اور اتوار دو دن کراچی گیا، مجھے ان دو دنوں میں مولانا بشیر فاروقی (جنھیں یہ لوگ حضرت صاحب کہتے ہیں) سے تین ملاقاتوں کا موقع ملا، حضرت صاحب نے اپنی زندگی اور وقت سیلانی ٹرسٹ کے لیے وقف کر دی ہے، یہ صبح سے رات تک سیلانی ٹرسٹ کے ہیڈ کوارٹر میں رہتے ہیں، یہ ادارے کا کام بھی دیکھتے ہیں اور سیکڑوں لوگوں کے لیے استخارہ بھی کرتے ہیں، کراچی کے چند بڑے بزنس مینوں نے بھی خود کو سیلانی ٹرسٹ کے لیے وقف کر دیا ہے، یہ لوگ کاروبار اپنے بچوں کو سونپ کر سیلانی ٹرسٹ کے ہو کر رہ گئے ہیں، یہ اپنے ہاتھ سے لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں، انھیں راشن دیتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں، یہ لوگ ہڑتالوں اور فسادات کے دنوں میں کراچی کے محصورعلاقوں میں خوراک تقسیم کرتے ہیں، اتوار کے دن سیلانی ٹرسٹ نے پی اے ایف میوزیم میں دو ہزار دو سو طالب علموں کا ٹیسٹ لیا، یہ نوجوان کمپیوٹر کورس کرنا چاہتے ہیں۔
سیلانی ٹرسٹ نے ان بائیس سو طالب علموں میں سے ساڑھے چار سو طالب علم منتخب کیے، ٹرسٹ ان نوجوانوں کو مفت کمپیوٹر کورس کروائے گا، یہ کورس انتہائی جدید اور مفید ہے، یہ نوجوان اس کورس کے بعد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے، میں نے زندگی میں پہلی بار ایک وسیع ٹینٹ کے نیچے دو ہزار دو سو نوجوانوں کو ٹیسٹ دیتے دیکھا، ان نوجوانوں کے لیے کرسی اور میز دونوں کا بندوبست تھا، یہ انتظام بذات خود حیران کن تھا، میں ان لوگوں کے اخلاص، مستقل مزاجی، عاجزی اور خدمت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا، یہ پانچ وقت نماز بھی پڑھتے ہیں، ان کا حلیہ بھی اسلامی ہے، یہ مولوی ہیں لیکن ان لوگوں نے یورپ اور امریکا کے ٹرسٹوں سے کہیں بہتر ادارہ بنایا، میں نے انھیں دیکھا، میں انھیں ملا تو بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہو گیا، یہ ہیں اصل مسلمان اور یہ ہے اسلام کی اصلی اور سچی تصویر۔ کاش ہم پر اعتراض کرنے والی قومیں ہماری یہ تصویر بھی دیکھ لیں، انھیں یقین آ جائے گا اسلام امن اور مسلمان امان ہیں، طالبان نہیں ہیں۔