ڈومیل ضلع بنوں کی تحصیل ہے، اس میں دو ماہ قبل ایک واقعہ پیش آیا اور یہ واقعہ آگے چل کر ٹھیک ٹھاک فساد کا باعث بن گیا، علاقے کی غریب خواتین بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد لینے جاتی تھیں، علمائے کرام کو یہ حرکت غیر شرعی محسوس ہوئی۔
انھوں نے فتویٰ دے دیا کوئی خاتون محرم کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی جس کے بعد خواتین کے باہر نکلنے پر پابندی لگ گئی، علاقے کے روشن خیال لوگوں نے 5 اکتوبر کو اس پابندی کے خلاف ایک سیمینار کر دیا، تقریب میں بیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر شیر علی بھی شریک تھے، یہ ڈومیل سے تعلق رکھتے ہیں۔
پشاور یونیورسٹی سے بیالوجی میں ایم ایس سی اور اسلام آباد سے ایم فل ہیں اور 15 سال سے درس وتدریس سے وابستہ ہیں، پروفیسر نے اپنی تقریر میں برقعہ اور پردے کو غیر پختون روایت قرار دے دیا، ان کا دعویٰ تھا اسلام میں بھی پردے کا ذکر نہیں ہے، پروفیسر نے ترکیہ اور ملائیشیا کا ذکر کیا جہاں پردہ لازم نہیں ہے اور یہ ملک ترقی بھی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کیا ہم ان سے زیادہ مسلمان ہیں؟ پروفیسر نے حق مہر کے بارے میں بھی بات کی اور ڈارون اور میڈیکل سائنس کا حوالہ دے کر بھی کہا، انسان اس وقت بلوغت کو پہنچتا ہے جب اس کی عقل پختہ ہو جاتی ہے، لڑکی بارہ سال میں بالغ ہوتی ہے اور لڑکا 14سال کی عمر میں، لڑکی کی عقل لڑکے سے پہلے پختہ ہو جاتی ہے۔
لہٰذا عورت عقل میں مرد سے ناقص نہیں ہے، پروفیسر نے آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کا حوالہ بھی دیا جس کی رو سے عورت اور مرد کے حقوق برابر اور مساوی ہیں، سیمینارکے بعد مختلف لوگوں نے اس کے مختلف حصے کاٹ کر سوشل میڈیا پر چڑھا دیے، پروفیسر کی سوچ علاقے کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی چناں چہ علاقے میں اشتعال پھیل گیا اور علمائے کرام نے خطبوں میں پروفیسر شیر علی پر تنقید شروع کر دی۔
علمائے کرام نے میٹنگ بھی کی اور پروفیسر کے خیالات کو باطل اور خلاف اسلام بھی قرار دے دیا جس کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے اور عوام نے پروفیسر اور اس کے خاندان کا سوشل بائیکاٹ کر دیا، انتظامیہ نے پروفیسر کو سیکیورٹی گارڈز دے دیے، علمائے کرام کو بھی سمجھایا گیا مگر حالات کنٹرول نہیں ہوئے بہرحال ڈپٹی کمشنر بنوں محمدنواز وزیر نے ہمت کی۔
اس نے پروفیسر اور علمائے کرام کو اکٹھا بیٹھنے پر رضا مند کر لیا یوں 21اکتوبرکو پروفیسر اور مقامی علمائے کرام معاہدے پر رضا مند ہو گئے، اسٹام پیپر تیار ہوا جس پر پروفیسر نے علمائے کرام کو لکھ کر دے دیا، میں اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک اور رسول اللہ ﷺ کو سچا اور آخری نبی سمجھتا ہوں، سر سے لے کر پاؤں تک عورت کے پردے کو شرعی سمجھتا ہوں، عورت کی عقل مرد کی نسبت کم ہے۔
سیکس کی آزادی کو شرعاً حرام سمجھتا ہوں، ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو باطل سمجھتا ہوں، میں نے اب تک اس ضمن میں جتنی بھی باتیں کی ہیں، میں ان سے برأت کا اعلان کرتا ہوں اور میں نے اگر مستقبل میں شریعت الٰہیہ کے خلاف بات کی تو میں شرعاً اور قانوناً مجرم ثابت ہو جاؤں گا وغیرہ وغیرہ، اسٹام پیپر پر دستخط ہوئے، معاہدے کے ساتھ تصویر بنوائی گئی، تصویر میڈیا میں ریلیز کی گئی اور یوں یہ معاملہ نبٹ گیا۔
یہ اس نوعیت کا پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے، سائنس اور مذہب کا ٹکراؤ ہزاروں سال سے جاری ہے، اہل مذہب ہمیشہ سے سائنس، قانون اور آئین سے ٹکراتے رہے ہیں، سائنس مذہبی عقائد اور روایات کو نہیں مانتی مگر اس تمام تر ٹکراؤ کے باوجود دونوں علم ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے ہیں۔
ڈارون خود پادری تھا، بیالوجی میں مسلمان سائنس دانوں نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا اور 1973 کا وہ آئین جس کا آرٹیکل 25 اور 26 مرد اور عورت کو برابر حقوق دیتا ہے اس آئین کی تشکیل میں بھی مفتی محمود اورمولانا شاہ احمد نورانی جیسے علمائے کرام شامل تھے اور مسودے پر ان کے باقاعدہ دستخط بھی ہیں، دنیا جہاں کے مذہبی لوگ وہ ادویات بھی استعمال کرتے ہیں جو ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے جانوروں پر ٹیسٹ کرکے انسانوں کے قابل بنائی جاتی ہیں۔
علمائے کرام صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن بننے کے بعد اس آئین کا حلف بھی اٹھاتے ہیں جس میں آرٹیکل 25 اور 26 دونوں شامل ہیں اور علمائے کرام اس ملک میں بھی رہ رہے ہیں جس میں فاطمہ جناح نے باقاعدہ سیاسی جماعت بنائی تھی اور انھوں نے مرد ایوب خان کے خلاف الیکشن بھی لڑا تھا اور اس الیکشن میں مولانا مودودی جیسے درجنوں مذہبی اسکالرز نے عورت فاطمہ جناح کا ساتھ بھی دیا تھا۔
جس ملک میں بے نظیر بھٹو دو بار وزیراعظم رہیں، جس میں مریم نواز ملک کی بڑی سیاسی جماعت کی قائد ہیں اور جس میں سینیٹ میں اس وقت 20 خواتین سینیٹرز ہیں اور قومی اسمبلی میں 60نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہیں اور جس میں آج بھی ڈاکٹر شمشاد اختر وزیر خزانہ ہیں اور جس اسٹام پیپر پر یہ معاہدہ ہوا اس کی ویلیو کا تعین اس خاتون وزیر کی وزارت خزانہ کرتی ہے اور جس میں پہلی جماعت سے وہ سائنس پڑھائی جاتی ہے جس کی بنیاد ڈارون اور نیوٹن جیسے سائنس دانوں نے رکھی تھی اور جس میں مادام کیوری جیسی وہ خواتین بھی شامل ہیں جن کی مہربانی سے آج علمائے کرام کے ایکسرے ہوتے ہیں یا لیزر سے علاج کیے جاتے ہیں اور یہ وہ حقائق ہیں جن سے نظر چرانا ممکن نہیں مگر ان حقائق کے باوجود ایک اور چیز بھی ہے جس پر نظر رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے جان بچانا، جان بچانا دنیا کا سب سے بڑا فرض ہے اور ہمیں اس فرض کی ادائیگی میں ایک سیکنڈ کی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اور پروفیسر شیر علی نے یہ فرض نبھا کر کمال کر دیا۔
مذہب اور سائنس میں کون ٹھیک اور کون غلط ہے یہ فیصلہ ممکن نہیں، یہ مسئلہ شاید کبھی حل نہیں ہو سکے گا، میں بہرحال مذہب اور سائنس کو ایک لکیر کے دوسِرے سمجھتا ہوں، سائنس اگر اس لکیر کا پہلا سرا ہے تو مذہب دوسرا اور اگر ہم مذہب کو اس کا پہلا سرا مان لیں تو پھر سائنس اس کا آخری سرا ہے مگر ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ان دونوں سروں کے درمیان فساد ہے، سائنس دان علمائے کرام سے لڑ رہے ہیں اورعلمائے کرام بھی سائنس دانوں کے ساتھ یہی سلوک کر رہے ہیں، یہ سلسلہ شاید صور اسرافیل تک ختم نہیں ہوگا۔
ہمارا کمال بس یہ ہے ہم فساد کے اس دورانیے میں اپنی قدرتی زندگی مکمل کر لیں، نہ سائنس کے ہاتھوں قتل ہوں اور نہ مذہب کی چٹان کے نیچے آئیں، دوسرا دنیا میں جہالت اور ظلم کی بے شمار تعریفیں ہیں لیکن سب سے خوف ناک تعریف فکری اختلاف پر دوسرے انسان کو قتل کر دینا ہے، مذہب، سائنس اور انسان یہ تینوں اللہ تعالیٰ کی دین ہیں۔
مذہب کو ہم انسانوں نے نہیں بنایا (گو اس پر بھی اختلاف ہے) اور سائنس بھی انسان نے ایجاد نہیں کی، ہم نے کشش ثقل بنائی ہے اور نہ خلیہ، وائرس اور اینٹی باڈی، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں اور انسان بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں اگر امر ربی نہ ہوتا تو پروفیسر شیر علی پیدا ہوتا اور نہ وہ علمائے کرام جنھوں نے اس معاہدے پر دستخط کرائے تھے بلکہ نہیں آپ ذرا رکیے اگر اللہ نہ چاہتا تو پاکستان ہوتا اور نہ بنوں اور نہ ہی ڈومیل، یہ سب ہمارے رب کی عنایت ہے لہٰذا ہم سائنس، مذہب اور انسان تینوں یا کسی ایک کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی ذات سے انکار کریں گے اور کائنات میں اس سے بڑی جہالت اور ظلم کوئی نہیں ہو سکتا، عربی زبان میں کفر کھیتی یا فصل کو بھی کہتے ہیں، کافر کھیتی اگانے والے (کسان) ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے اسی مناسبت سے مکہ کے ان لوگوں کو کافر یا کفار کہا جو اسلام سے انکار کی کھیتی اگا رہے تھے، جو شرک اور انکار کی فصلیں اگا رہے تھے، ہم بھی کبھی سائنس اور کبھی مذہب کا انکار کرکے وہ کھیتی اگا دیتے ہیں جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا تھا۔
بنوں یا ڈومیل کے واقعے پر مختلف لوگ مختلف آراء دے رہے ہیں، علمائے کرام اسے اپنی کام یابی قرار دے رہے ہیں جب کہ روشن خیال پروفیسر شیر علی کو بزدلی کے طعنہ دے رہے ہیں جب کہ میں اسے معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی سمجھ رہا ہوں، ملک میں پہلی مرتبہ علمائے کرام نے کسی پروفیسر کے گھر پر حملے کے بجائے اس ایشو کو سرکاری دفتر میں حل کیا اور پروفیسر نے بھی ضد کے بجائے غلطی کا اعتراف کرکے اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچا لی، ہمارے معاشرے میں معافی مانگنا بڑی بات نہیں، ہم میں سے ہر پھنسا ہوا شخص وہ خواہ نواز شریف اور عمران خان ہی کیوں نہ ہو وہ معذرت کر لیتا ہے۔
اصل ایشو معافی دینا ہے اور پروفیسر شیر علی کو معافی مل گئی اور یہ تبدیلی واقعی تبدیلی ہے اور مجھے دلی طور پر اس کی خوشی ہے کیوں کہ آج اگر معافی مل رہی ہے تو کل مکالمہ بھی شروع ہو جائے گا اور اگر مکالمہ شروع ہوگیا تو پھر معاشرے میں برداشت بھی آ جائے گی اور اگر برداشت آ گئی تو یہ معاشرہ ترقی بھی کر جائے گا۔
معافی دینا معاشرتی ترقی کا پہلا قدم ہوتا ہے اور ہم نے بالآخر یہ قدم اٹھا لیا ہے اور وہ بھی بنوں جیسے علاقے میں اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، میں پروفیسر شیر علی کی جرات کو سلام پیش کرتا ہوں اس نے معافی نامہ لکھ کر برداشت کا پہلا قدم اٹھا لیا ہے اور میں علمائے کرام کو بھی داد دیتا ہوں انھوں نے پروفیسر کو قتل کرنے کے بجائے اسے صفائی کا موقع دیا۔
لہٰذا آج دونوں ایک ہی شہر میں ہیں اور یہ اس معاشرے میں چھوٹی تبدیلی نہیں جس میں زمین یا دکان پر قبضے کے لیے دوسروں پر توہین مذہب کا الزام لگا کر پورا خاندان قتل کرا دیا جاتا ہے، یہ سلسلہ اب آگے بڑھنا چاہیے اور جڑانوالہ والے جیسے تنازعوں کے حل کے لیے بھی اس اسپرٹ سے کام کرنا چاہیے، یہ معاشرہ پھر ہی معاشرہ بن سکے گا۔