ابھی تو دوحہ میں ہونے والے امریکہ طالبان معاہدہ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ افغان صدر اشرف غنی نے اس معاہدے کو یہ کہہ کر خطرہ میں ڈال دیا کہ طالبان کے جو پانچ ہزار قیدی افغان حکومت نے رہا کرنے ہیں انھیں رہا نہیں کیا جائیگا۔ پیر کے روز طالبان نے افغان فورسز پر حملہ کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر کابل حکومت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو ان کے پاس بھی راستہ کھلا ہے۔ کئی سال کی جدوجہد کے بعد دوحہ میں جو معاہدہ ہواہے اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
امریکہ کے خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد جو خود افغان نژاد امریکی شہری ہیں، افغانوں کی تاریخ اور ان کی نفسیات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ کابل میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کر کے انھیں بتانے کی کوشش کریں گے کہ طالبان امریکہ معاہدے پر عمل درآمد کرنا افغانیوں کے مفاد میں ہے۔ یہ معاہدہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی جرات ہے، امریکہ میں یہ انتخابات کا سال ہے۔ صدر ٹرمپ امریکی ووٹروں کو یہ خوشخبری سنانا چاہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے انتخابی وعدہ کے مطابق افغانستان میں جاری جنگ ختم کر دی ہے اور بیس سالہ لڑائی کو جسے صدر ٹرمپ لا حاصل کہہ چکے ہیں، ختم کیا جا رہا ہے، امریکی فوجیں واپس آ رہی ہیں۔ وہ افغان جنگ بند کرنے کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں اور صدارتی انتخابات میں اسی بنیاد پر ووٹ لینا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں امن کا قیام ہمیشہ ایک خواب ہی رہا ہے۔ 1979 میں جب سوویت یونین کی سرخ فوج افغانستان میں داخل ہوئی تھی تو سرد جنگ کے اس دور میں امریکہ کو سخت دھچکا لگا تھا۔ سوویت فوج کے افغانستان میں داخل ہونے کو "ماسکو کی گرم پانیوں تک رسائی کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہر صورت میں سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ سوویت مخالف افغان مجاہدین کو امریکہ پاکستان اور دوسرے اتحادیوں نے پراکسی کے طور پر استعمال کیا۔ افغان مجاہدین کا ایک سات جماعتی اتحاد تشکیل دیا گیا۔ اس سات جماعتی اتحاد کو جدید اسلحہ فراہم کیا گیا۔ پاکستان کی مدد سے انھیں گوریلا جنگ کی تربیت دی گئی۔ پاکستان اس کھیل میں فرنٹ لائن سٹیٹ بن گیا۔ امریکہ مجاہدین کو پاکستان کے ذریعہ اسلحہ دس سال تک فراہم کرتا رہا۔ مجاہدین کے سات جماعتی اتحاد کے لیڈروں کی اکثریت پشاور اور اسلام آباد منتقل ہو گئی۔ اس خاکسار سمیت اس دور میں اخبار کیلئے رپورٹنگ کرنے والے صحافی مولوی یونس خالص، گل بدین حکمت یار، عبدالرسول سیاف، پیر سید گیلانی، نرہان الدین ربانی، صبغت اللہ مجددی سے ملاقاتیں اور ان کے انٹر ویو کرنے کا اکثر موقع ملتا رہا۔
دس سال جاری رہنے والی یہ جنگ دس اپریل 1988 کو جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں ہونے والے ایک سمجھوتے کے ذریعے ختم ہوئی تھی۔ اس سمجھوتے پر پاکستان اور افغانستان نے دستخط کئے۔ امریکہ اور روس نے بطور ضامن اس سمجھوتے پر دستخط کئے تھے۔ سمجھوتے کے تحت سوویت فوجیں پندرہ مئی 1988 کو افغانستان سے نکلنا شروع ہو گئیں۔ امریکہ نے مجاہدین کو اسلحہ کی فراہمی بند کر دی۔ سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد امریکہ کو افغانستان سے کوئی دلچسپی نہ رہی۔ پاکستان اور کچھ اور دوستوں نے ملکر مجاہدین کی افغانستان میں حکومت قائم کرنے کیلئے کوششیں شروع کیں۔ سعودی عرب نے مجاہدین کو مدعو کی اور کعبۃاللہ میں افغانستان میں پاور شیئرنگ کیلئے ایک سمجھوتے پر دستخط ہوئے۔ ساتوں مجاہدین جماعتوں کے لیڈروں نے اس پر دستخط کئے لیکن اس کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کی بھی کوششیں جاری رکھیں اور 24 اپریل 1992 کو پشاور میں افغان مجاہدین کا سمجھوتہ کرایا گیا جسے Peshawar Accord کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سمجھوتہ کے تحت کابل میں مجاہدین حکومت کی تشکیل کیلئے ایک فارمولا طے کیا گیا۔ اس فارمولے کے تحت شاہ صبغت اللہ مجددی افغانستان کے پہلے صدر نامزد ہوئے۔ اس خاکسار کو چند صحافیوں کے ہمراہ 1992 میں کابل کے صدارتی محل میں صبغت اللہ مجددی کی بطور صدر حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ اس تقریب میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف، چیف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز اور بعض اعلیٰ حکام موجود تھے۔ حلف برداری کے بعد جب پاکستان وفد کابل ایئرپورٹ پر پہنچا تو ایئرپورٹ پر گولہ باری ہو رہی تھی۔ ہمارے ساتھ موجود آئی ایس آئی کے سینئر افسر نے بتایا کہ یہ گولہ گلبدین حکمت یار کررہے ہیں، انھیں یہ شکوہ ہے کہ انھیں افغانستان کا سربراہ نہیں بنایا گیا۔ سیکورٹی اداروں کی کوشش سے یہ گولہ باری رک گئی اور پاکستانی وفد دو سی ون تھرٹی طیاروں میں کابل سے اسلام آباد پہنچا۔ مجددی صاحب کی یہ حکومت چھ ماہ تک بھی نہ چل سکی اور افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ مختلف علاقوں میں وار لارڈز نے اپنی حکومتیں بنا لیں اور افغانستان میں خون خرابہ شروع ہو گیا۔ پھر امریکہ نے پاکستان کے توسط سے طالبان کو منظم کیا اور ان کے ذریعے افغانستان میں امن اور استحکام لانے کی کوشش کی گئی۔ 1994 میں طالبان تحریک کو پاکستان امریکہ او کچھ اسلامی ملک سپورٹ کر رہے تھے جس کی مدد سے طالبان نے افغانستان میں حکومت قائم کر لی۔ پھر نائن الیون ہوا اور طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ آپریشن Enduring Freedom شروع ہوا جب اب ختم ہونے کے قریب ہیں۔۔ امریکہ طالبان معاہدہ اس جنگ کے خاتمہ کا نقطہ عروج ہے۔ تا ہم افغانوں کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ خدشہ موجودہے کہ کہیں افغانستان پر 1990 کی دہائی کی طرف نہ لوٹ جائے۔