Friday, 14 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Kashif Bashir Khan
    4. Bhutto, Aalmi Siasi Mudabbir

    Bhutto, Aalmi Siasi Mudabbir

    ذولفقار علی بھٹو سابق وزیر اعظم جونا گڑھ سر شاہنواز بھٹو کے صاحبزادےاور سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو کے والد تھے۔ امریکہ کے بین القوامی تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ذولفقار علی بھٹو پاکستان کے سب سے خوش پوش اور خوبصورت حکمران تھے۔ اسکندر مرزا اور ایوب خان کے دور میں بطور وزیر حکومتی ایوانوں میں داخل ہونے والے بھٹو نے بہت جلد اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا اور جلد ہی ان کا شمار ایوب خان کی کابینہ کے قابل ترین وزراء میں ہونے لگا تھا۔ بطور وزیر خارجہ بھٹو نے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر دنیا بھر میں اپنی دھاک بٹھا دی۔

    ان کے سیکرٹری خارجہ عزیز احمد جو ان کے دور حکومت میں وزیر خارجہ بنے اور بعد کے وزیر خارجہ آغا شاہی بھی ان کے شاگردوں میں سے تھے۔ دونوں شخصیات بطور وزراء خارجہ مختلف اوقات میں پاکستان کی خدمت کرتے رییے۔ خارجہ امور پر انتہا کی گرفت اور موثر خارجہ پالیسی کے ذریعے بھٹو صاحب پاکستان کو دنیا بھر میں روشناس کروا کرعوام کے دلوں پرراج کرنےلگے تھے۔ بطور وزیر خارجہ ذولفقار علی بھٹو دنیا بھر میں مقبول ہو چکے تھے اور عالمی استعماری طاقتوں کو انہوں نے بغور قریب سے دیکھا اور ان کی تیسری دنیا بالخصوص پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ بغض اور دشمنی کو 60 کی دہائی میں ہی محسوس کر لیا تھا۔ اسی دوران ایوب خان کی کابینہ میں بھٹو بطور وزیر انڈسٹریز تھے ایٹمی طاقت کے حصول کے لئیے دنیا بھر سے معلومات اکٹھی کرنا شروع کر چکے تھے۔

    بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان سفارتی رابطے قائم کروانے والے یحیی خان اور ذولفقار علی بھٹو تھے۔ جب معاہدہ تاشقند کے بعد ذولفقار علی بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفی دیا اور گھر بیٹھ گیے تو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد پاکستان بھر میں ایوب خان کے خلاف طلبہ کا احتجاج شروع ہوگیا جو کہ سرخ احتجاج بھی کہلاتا ہے۔۔ اس احتجاج میں سوشلزم اور کیمونزم کا عنصر نمایاں تھا۔ اس احتجاج کے بعد ہی جنرل ایوب خان نے اقتدار چھوڑ دیا لیکن اقتدار جنرل یحیٰی خان کے حوالے کر دیا گیا جس نے 1970 میں ملک کے مشرقی اور مغربی حصہ میں عام انتخابات کرواے۔

    بھٹو نے مغربی اور شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کی۔ مجیب الرحمان کے چھ پوائنٹس پر ڈیڈ لاک پیدا ہوا اور پھر بھارت سے جنگ کے بعد مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا۔ باقی ماندہ پاکستان بدترین حالت میں تھا۔ قوم غم و غصہ سے بدحال تھی اور کہا جا رہا تھا کہ مغربی پاکستان بھی کچھ عرصے کا مہمان ہے۔ جو دانشور بھٹو کو سانحہ ڈھاکہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں وہ 50 سال سے قوم سے جھوٹ بولتے چلے ا رہیے ہیں۔ چھ نکات کا مان لینا بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہی تھا بلکہ اگر چھ نکات مان لیے جاتے تو مغربی پاکستان کی سلامتی بھی داؤ پر لگ جاتی۔

    مشرقی پاکستان تو بہت پہلے ہم سے"الگ"ہو چکا تھا 1971 میں تو رسمی اعلان ہوا تھا۔ مشرق پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذولفقار علی بھٹو کو بیرون ملک سے بلا کر اقتدار منتقل کیا گیا۔ اقتدار منتقل کرنے میں سب سے بڑی مشکل آہین کی غیر موجودگی تھی کیونکہ آمر یحیٰی خان ایل ایف او کے تحت حکومت چلا رہا تھا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ بھٹو کو صدر پاکستان اور سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ منتقل کیا گیا۔ بھٹو کے مخالفین انہیں سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا جو طعنہ دیتے تھے وہ اسی وجہ سے تھا لیکن آج تک کسی بھی رہنما نے عوام کو یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ آہین کی غیر موجودگی کے باعث بھٹو صاحب کو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنانا وقت کی ضرورت تھی۔۔

    جب بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان بہت بری حالت میں تھا۔ پاک فوج اور عوام ابتر ترین حالت میں تھے۔ تقریباََ 90 ہزار جنگی قیدی اور پانچ ہزار مربعہ میل علاقہ بھارت کے قبضے میں تھا۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت پاکستان کےاندرونی خلفشار۔ مشرقی پاکستان سے حکمرانوں کی زیادتیوں اور بنگالیوں کے احساس محرومی کو ہوا دے کر پاکستان کو دو لخت کر چکا تھا اور اور اس کے عزائم باقی ماندہ پاکستان کے بارے بھی نہایت خطر ناک تھے۔ ایسے میں ذولفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ازسرنو تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھایا اور بھارت سے 90 ہزار جنگی قیدی اور پانچ ہزار مربعہ میل علاقہ آزاد کروایا۔

    بھٹو نے 1973 میں پاکستان کو ایک متفقہ آہین دیا جس پر اس وقت کی ہیوی ویٹ اپوزیشن جو بھٹو کے کٹر مخالفین پر مشتمل تھی نے بھی اتفاق کیا۔ پاکستان کے تباہ حال اداروں کو ازسرنو منظم کرنے کا بیڑا بھٹو نے اٹھایا۔ اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو 60 اور 70 کی دہائی میں سرمایہ دارانہ نظام پاکستان کی معیشت پر قابض تھا۔ دولت چند مخصوص خاندانوں میں مرکوز ہو کر رہ گئی تھی۔ بھٹو نے ان خاندانوں کی اجارہ داریاں ختم کرنے کے لئیے بینکوں سمیت بہت سے ادارے قومیا لئیے۔ (ان تمام قومیاے گئے اداروں کی قومیاے جانے کے بعد کی کارکردگی ایک علیحدہ بحث ہے)۔

    بھٹو کے سیاسی کیریر کا عروج 1974 سے شروع ہوا جب ذولفقار علی بھٹو نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کروانے کی ٹھانی۔ ٹکڑیوں میں بٹے مسلم ممالک کو ایک چھتری تلے اکٹھا کرنا ذولفقار علی بھٹو کا جرم عظیم بن گیا۔۔ غیر وابستہ تحریک کے بانی ہوری بومدین۔ یوگنڈا کے عدی امین۔ یاسر عرفات۔ شاہ فیصل۔ کرنل معمر القذافی۔ انور سادات۔ شاہ حسین۔ شیخ زید النحیان سمیت دنیا بھر کے مسلم ممالک کے سربراہان کو لاہور میں اکٹھا کرکے ذولفقار علی بھٹو جو تیسری دنیا کے پسے ہوے لوگوں کی بات کرتا تھا نے سامراج اور استعمار کو للکار دیا تھا اور امریکہ سمیت مغرب کے عرب ممالک سے وابستہ مفادات کو گہری چوٹ لگائی تھی۔۔

    1974 میں ہی بنگلا دیش کو پاکستان نے صرف اس لئیے آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا تھا کہ آج مسلم ممالک کے اکٹھ میں اگر بنگلا دیش موجود نہ ہوا تو پھر تا حیات وہ بھارت کے زیر اثر رئے گا۔۔ یہ تھا بھٹو کا ویژن اور بھارت مخالف جذبات۔ آج اس بھٹو کی سالگرہ ہے جس نے ٹوٹے ہوے پاکستان کو تن تنہا ایٹمی طاقت بنوایا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے سحر انگیز شخصیت ذولفقار علی بھٹو کے تاریخی جملے"گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے" کی بازگشت اج بھی پاکستان کی فضاؤں میں گونجتی ہے۔ ہنری کسنجر کی لاہور میں بھٹو کو ایٹمی طاقت بننے سے باز رکھنے کی ناکام کوشش کے بعد بھٹو امریکہ۔ مغرب اور امریکہ کے لئیے نا قابل برداشت ہو چکا تھا۔

    دلیری بھٹو کا وہ وصف تھا جو اسے دنیا کے تمام لیڈران میں ممتاز کرتی تھی۔ 1974 میں پوکھران میں بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھٹو نے فوراً ایٹمی طاقت کے حصول کی عملی کوششیں شروع کر دیں اور اس عمل میں شاہ فیصل۔ کرنل قذافی نے بھٹو کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس خطے میں طاقت کا توازن برقرار کرنے میں جو کردار ذولفقار علی بھٹو ادا کر چکے اب تو اس کا تصور بھی محال ہے۔ بھٹو کے دور میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو "پاکستانی اسلامی بم" کہا جاتا تھا۔ قادیانیوں کا ایک صدی پر محیط رسول کریم ﷺ کو آخری نبی نہ ماننا مسلمانوں کے لئیے شدید مذہبی۔ روحانی اور ذہنی اذیت کا سبب تھا۔

    ذوالفقار علی بھٹو کا قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔ ذولفقار علی بھٹو نے پاکستان میں محروم طبقے کے حقوق کی عملی جہدوجہد کی اور انہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے لڑنے کی ترغیب دی۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا خالق بھٹومسلم امہ کا داعی تھا جسے شاہ فیصل"اسلام کا بیٹا" کہا کرتے تھے۔ کراچی اسٹیل مل اور بہت سے بڑے ادارے بھٹو کے دور حکومت میں بناے گئیے اور دنیا میں بطور قوم پاکستان کی عزت بڑھی۔ بھٹو نے اپنے اقتدار کے صرف 5 سال اور کچھ مہینوں میں جو کارنامے سرانجام دیے ان کا تصور بھی اب محال ہے۔

    بھٹو کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے بعد جس طرح سے مسلم لیڈران کا قتل عام کیا گیا وہ بھی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ امریکہ نے 1977 میں جنرل ضیاالحق جو کہ اردن میں خدمات انجام دیتے ہوے سی۔ آئی۔ اے کے پیرول پر آچکا تھا کو استعمال کرکے بھٹو کو اقتدار سے الگ کروایا اور پھر بھٹو جیسے اسلام دوست فلسفی مدبر عالمی سیاست دان کو ایک بے بنیاد مقدمے میں پھانسی دے دی گئی۔

    بھٹو کی پھانسی نے اس قوم کی راہ کو ہی تبدیل کر دیا اور آمر کی حکومت نے پھر سے استحصالی قوتوں کو طاقتور بنا کر قوم پر مسلط کر دیا اور لسانیت اور صوباہیت کو ہوا دینے والے عناصر کو نہ صرف اقتدار میں حصہ دیا گیا بلکہ انہیں طاقتور ترین بنایاگیا۔ ایم۔ کیو۔ ایم اس کی زندہ مثال ہے۔۔ آج کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو ذولفقار علی بھٹو جیسا"عالمی سیاسی مدبر" دنیا بھر میں دکھائی نہیں دیتا جو اپنے اقتدار میں ایک"دھیلے" کی کرپشن میں بھی ملوث نہیں تھا۔ بھٹو کے عدالتی قتل کو آج بھی مسلم امہ۔ پاکستان اور اس کے عوام بھگت ریئے ہیں۔