Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Khabrain/
  3. Captain, Shahbaz Ke Peeche Chal Para?

Captain, Shahbaz Ke Peeche Chal Para?

وزیراعظم عمران خان کا تھل کے اہم ضلع لیہ کا دورہ اہمیت کا حامل یوں بھی تھا کہ عوام کو بہت توقعات تھیں، تبدیلی کے ثمرات سمیٹنے کیلئے عوام منتظر تھے۔ عوام اتنے جذباتی کیوں تھے، اس کے پیچھے بھی کہانی تھی۔ وہ یہ تھی کہ لیہ میں قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف کووہ مینڈیٹ تو نہیں مل سکا تھا جوکہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر ملا تھا لیکن لیہ سے کامیاب ہونیوالے آزاد امیدوار پہلی فرصت میں ہی امیر ترین کے جہاز کے سوار ہوگئے تھے۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ عثمان بزدار کو وزیر اعلی بنوانے میں ان کا مرکزی کردار تھا۔ یوں لیہ کی سیاست میں تحریک انصاف اکثریت میں آگئی تھی اور تخت لاہور سے تخت اسلام آباد تک بلّے بلّے ہوگئی تھی۔ لیہ کے عوام اب کی بار یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وزیراعظم عمران خان لیہ میں آکر ترقیاتی منصوبوں کے چھکے چوکے ماریں گے جبکہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار جو ان کے وسیم اکرم پلس ہےں، وہ پہلے اوور میں ہی باﺅنسر پہ باﺅنسر مار کر ترقیاتی سکیموں کا میچ لیہ کے عوام کے نام کردےں گے، لیکن کیا ہوا؟ دلچسپ صورتحال ہے، اس دورے کے بعد ایک بڑی بحث چھڑ گئی ہے۔ راقم الحروف بھی وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب کے دورہ پر بات کرنے سے پہلے یہ بات یاد کروانا چاہتا ہے کہ لیہ ایک وقت میں صوبائی حیثیت کا مالک تھا، اپنے وسائل سے مالا مال لیہ ایک خاص حیثیت کا مالک تھا، اس کے وارث زندہ تھے، جو اس بات سے واقف تھے کہ اس کے وسائل اور حقوق کا مقدمہ کیسے لڑنا ہے۔ لیہ اتنا لاوارث پہلے کبھی نہیں تھا جتنا کہ اب ہوچکا ہے اور اس کے سیاسی وارث بننے کے دعویدار ارکان اسمبلی وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب کے سامنے لیہ کا مقدمہ پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئے۔ ایسے لگا کہ وہ شرماہٹ، گھبراہٹ یا پھر کمزوری کا شکار ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں لیہ کی محرومیوں کا مقدمہ سرے سے پیش ہی نہیں کرسکے ہیں۔

تاریخی حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ لیہ کو مختلف ادوار میں اپنے جغرافیہ اور وسائل کی بدولت خاص مقام حاصل رہا ہے۔ منگول اور افغان سرحد سے ملتان پر حملہ آوروں کو لیہ، بھکر، کوٹ ادواور منکیرہ میں قائم دفاعی حصار کا سامنا کرنا پڑا اور مشکل سے دوچار ہوتے رہے۔ انگریزی راج کے قیام کے بعد مرتب کی گئی باضابط تاریخ کے مطابق 22 جنوری 1849ءمیں ملتان کو فتح کرنے کے بعد برطانوی سامراج نے 1850میں لیہ کو کمشنری کا درجہ دے کر کرنل راس کو پہلا کمشنر مقررکیا۔ لیہ کمشنری کی نگرانی میں ڈیرہ غازی خان سے ڈیرہ اسماعیل خان، کوٹ ادو، لیہ، بھکر، منیکرہ اور ٹانک کا علاقہ شامل تھا۔ میجر باسک نے بھی قائم مقام کمشنر کے فرائض سرانجام دیئے۔ انگریزوں نے 1901 میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کو قائم کرکے لیہ کی کمشنری کو ختم کرکے ڈیرہ اسماعیل خان کے نئے صوبہ کا حصہ بناتے ہوئے میانوالی کو ضلع کا درجہ دے کر لیہ کو میانوالی کی تحصیل بنادیا۔ پھر 1909 لیہ کو میانوالی سے الگ کرکے ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل بنادیا گیا۔ اس طرح لیہ 73 برس تک مظفرگڑھ کی تحصیل رہا۔ یکم جولائی 1982ءمیں تھل کے مرکزی ضلع بھکر کے ساتھ لیہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ اب اندازہ کریں لیہ جوکہ صوبہ تھا، پھرکمشنری تھا، اس کو ادھر سے ادھر اور پھر وہاں سے یہاں مطلب میانوالی سے مظفرگڑھ تک کے چکر لگوانے کے بعد بھی صوبائی حیثیت تو چھوڑیں کمشنری کا درجہ آج تک نہیں مل سکاہے جبکہ قیام پاکستان کو 72 سال مکمل ہوگئے ہیں۔ یوں لیہ کے معروف صحافی ملک مقبول الہی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ لیہ کو 117 سال بعد بھی چھینا گیا مقام دوبارہ نہیں دیا گیا ہے۔

لیہ کے عوام کو عمران خان اور عثمان بزدار کے دورہ¿ لیہ سے بڑی امیدیں تھیں لیکن مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملاہے۔ اور یہ لیہ کے عوام کیساتھ پہلی بار نہیں ہورہا بلکہ پچھلے اداور میں بھی ایسا سلوک لیہ کیساتھ ہوتا چلا آرہاہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے لیہ میں پچھلے ادوار میں خاص طورپر نواز لیگی دور میں تھل سمیت لیہ ڈویژن کی باتیں چلتی رہیں۔ نوازلیگی ارکان صوبائی اسمبلی نے لیہ کے عوام کو ڈویژن کے ایشو پر یوں ماموں بنایا کہ لیہ ڈویژن کے قیام کے نام پر وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کے شکریہ کے بینر لگوادیئے کہ لیہ ڈویژن منظور ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ساری کہانی تھی، جھوٹ تھا، سیاسی شعبدہ بازی تھی اور لیہ کے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا مقصودتھا۔ یوں پانچ سال نکال کر بتایا گیاکہ وہ جی اگلی بار، نواز لیگی لیڈر شہبازشریف نے اسی طرح کا وعدہ کرلیا ہے جیسے پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں صدر آصف علی زرداری نے ملتان میں گیلانی ہاوس میں بیٹھ کر سرائیکی صوبہ کیلئے اکثریت نہ ہونے پر کہانی ڈالی تھی اور پھر سرائیکی بنک بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج تک لوگ ایک دوسرے سے سرائیکی بنک کا ایڈریس پوچھ رہے ہیں۔ اسی طرح نوازلیگی دور میں جس میں شہبازشریف کی انگلی پر سارے کام ہوتے تھے، اس میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن لیہ کے اعلان اور کاغذی کاروائی کے بعد غائب ہوگئی تھی۔ آج تک میرے جیسے لوگ پوچھتے ہیں کہ لیہ کے نام پر سب کچھ کرنیوالے نواز لیگی یونیورسٹی آف ایجوکیشن لیہ کا پتہ تو بتائیں جہاں لیہ کے طالب علم داخلوں کیلئے اپلائی کرسکیں۔ لیکن چاروں اطراف خاموشی ہے۔ تھل کا مرکزی روٹ مظفرگڑھ میانوالی روڈ جوکہ آئے روز حادثات کی وجہ سے قاتل روڈ کی پہچان پا چکا تھا، ا س کو موٹروے چھوڑیں، دورویہ بنانے کا وعدہ بھی نوازلیگی قیادت نے پورا نہیں کیا تھا۔ اسی طرح لیہ میں میڈیکل کالج، انجینئرنگ یونیورسٹی سے لیکر ٹیچنگ ہسپتال، بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، اسلامیہ یوینورسٹی بہاولپور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور جیسا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔ لیہ کے مختلف قصبے جیسے کوٹ سلطان اور چوک اعظم تحصیل بننے کے معیار پر پورے اترتے ہیں، ان کو وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کے دور میں تحصیل کا درجہ دینے کا لولی پاپ تو دیا جاتارہالیکن عملی طورپر کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ عمران خان اور عثمان بزدارنے بھی اسی طرح کا سلوک لیہ کے عوام کیساتھ کیا ہے جوکہ نوازلیگی دور اور پھر اس سے بھی پہلے کا چلا آرہاہے۔ اور پھر ارکان اسمبلی نے لیہ کا مقدمہ پیش نہ کرکے عوام کو مزید مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔