Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Tamasha Mere Aage

Tamasha Mere Aage

ہمارے ملک میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے لیکن کس کے لیے، محترم وزیر اعظم صاحب، ان کی ذہین کابینہ اور مشیر و معاونین کے لیے۔ راوی چین ہی چین لکھتا ہے گندم مافیا کے لیے، چینی مافیا کے لیے اور ادویات مافیا کے لیے۔ مجھ کم عقل نے سمجھا راوی کا مطلب لاہور شہرکے کنارے بہنے والا دریائے راوی ہے، خیر اب اسے گندا نالہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔

میری اس کم عقلی کو ایک سیانے نے یہ بتاکر درست کیا کہ، او بھلے مانس! چین ہی چین لکھنے والا وہ راوی ہوتا ہے جس کی فطرت اور ڈیوٹی یہ ہوتی ہے کہ وہ حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی تعریفیں کرنے میں ملکہ رکھتا ہو۔ تب مجھے سب کچھ سمجھ اگیاکہ بھلا ایسا راوی احمق ہے جو ہم جیسے چپڑکناتیوں کی مشکلات ومصائب پر کچھ لکھے یا کہے۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ اس نامعلوم راوی کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں ہوتی کہ وہ عوام جیسی فضول مخلوق کے دکھڑے بیان کرے۔

یہ راوی تو حکمرانوں، سرکاری افسروں کے لیے چین ہی چین لکھے گا یا پھر ان سیاست دانوں کی لیے لکھے گا جو الیکشن جیتنے سے پہلے عاجزی کا نمونہ بنے، مسکین شکلیں بنائے، مخلوق خدا کے سچے خدمت گار نظر آتے ہیں لیکن اقتدار ملتے ہی گردن میں سریا اور شاہانہ عادات و اطوار طمطراق، پروٹوکول اورہٹو بچو کا شوراور تو اور انھیں اپنے علاوہ کوئی آپشن بھی نظر نہیں آتا ؎

تم سے جو پہلے شخص یہاں تخت نشیں تھا

اس کو بھی خدا ہونے کا اتناہی یقیں تھا

جس طرح کوئی فاسٹ باؤلر بعض اوقات اپنے چہرے پر لگی کریم اتارکر گیند پر ملتا ہے کہ وہ زیادہ تیز رفتار سے گیند بازی کر سکے، مجھے تو ایسا ہی کھیل آج کی سیاست میں نظر آ ہا ہے۔ یعنی اپنی نااہلی چھپاؤ اور اپوزیشن پر بال ٹمپرنگ کرنے کا شور مچا دو۔ آج ہماراچہرہ عجیب وغریب تصویر پیش کر رہا ہے۔

میری صورت اے مصور کبھی ایسی تو نہ تھی

میں ایسا ہو گیاہوں یا مری تصویر بگڑی ہے

ہمارے پنجاب کے دیہاتی بزرگ نوجوانوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ انسان کی زبان اسے تاج تک پہنا دیتی ہے اور یہی زبان جوتے بھی پڑواتی ہے۔ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان حکمرانوں کو پنجاب کے دیہاتی بزرگوں کی اس نصیحت کو پلے باندھ کر رکھنا چاہیے۔

علی زیدی، فواد چوہدری، فیصل واڈا، شہباز گل جیسے ہیرے موتی لعلوں کی گل افشانیاں اپنی جگہ رہیں، آخر یہ سارے جواہر پارے بھی تو وزیر اعظم صاحب کے ہی تراشے ہوئے ہیں، یہ ایسی ایسی گلفشانی کرتے ہیں کہ پطرس بخاری، ابن انشاء اور مشتاق احمد یوسفی جیسی شخصیات بھی انگشت بدنداں رہ جاتی ہونگے کہ ابھی اردو ادب میں مزاح نگاری کے کئی اور جدید اسلوب موجود ہیں جن کی طرف شاید ماضی اور حال میں کسی لکھاری کی نظر ہی نہیں گئی۔ ان کمالات وقابلیت کا سلسلہ تو تقریب حلف برداری سے ہی شروع ہو گیا تھا، وہاں کیا ہوا، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سارا منظر عوام نے ٹی وی پر دیکھ اور سن رکھا ہے، چھوڑی ایسی معمولی نوعیت کی بھول چوک ہو ہی جاتی ہے لہٰذا اس کہانی کو ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا ہی اچھا ہے۔

میں نے کم از کم اپنی صحافتی زندگی میں پہلی بار وزیراعظم ہاؤس میں مویشیوں اور سیکنڈہینڈ کاروں کی خرید وفروخت کے مناظر ٹی وی اسکرین پر دیکھے۔ پھر یوٹرنز کو عظیم لیڈر کی نشانی سننا پڑی، سیاسی مخالفینکو چور چور، ڈاکو ڈاکو کا شور مچانا، کسی کو این آر او نہیں ملے گا وغیرہ وغیرہ جیسے نعرے سامنے آئے۔ پھر اچانک میاں نواز شریف جیل کی کال کوٹھری سے نکل کر دوبارہ لندن جا پہنچے جب کہ محترم زرداری صاحب بلاول ہاؤس تشریف لے گئے، پھر پتہ چلاکہ اب پاکستان ریاست مدینہ بننے جا رہا ہے۔ اچانک کسی نامعلوم فلائیٹ سے بریف کیس تھامے چند ماہرین تشریف لائے اور پتہ چلا کہ ملکی معیشت درست ہو جائے گی۔

سچ پوچھیں تو چند حکومتی مشیروں، معاونین خصوصی اور وزراء کو کچھ علم نہیں کہ کون سی بات کس وقت اور کہاں کرنی ہے، اس کے اثرات اور نتائج کیا ہوں گے۔ رائیٹ پیپل فار رائیٹ جاب کی تو کہانی ہی ختم ہو چکی ہے۔ جس نابغے نے حکومت کے سیاسی مخالفین پر تبرابازی میں زیادہ نمبر لیے، وہی محبوب ٹھہرا۔

اب ذرا اس کے نتائج بھی ملاحظہ فرمائیے! ایک وزیر صاحب نے اسمبلی فلور پر ایسی تقریر فرمائی کہ پاکستان میں ہوا بازی کے پرخچے اڑا دیے۔ دنیا کے میڈیا کا موضوع پاکستانی پائلٹ بنے رہے۔ شاید وزیر موصوف کا مقصد یہ ہو کہ اب عمر عزیزکے آخری حصے میں سچ کا بول بالا کر کے ثواب کمایا جائے۔

آخر وزیروں باتدبیروں سے زیادہ دوراندیش اور عقل مند کون ہو سکتا ہے۔ سچی بات ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے، میں نے لمبی لمبی چھوڑنے اور خیالی پلاؤ تیار کر کے عوام کو کھلانے والی ایسی حکومت نہیں دیکھی۔ غریب سے غریب لوگ بھی اپنے گھر کے عیوب، نقائص، گندے کپڑے، میلی اور پرانی رضائیاں، ٹوٹے پھوٹے برتن اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں سے شرم کی وجہ سے چھپاتے ہیں۔ مہمان کے آنے سے پہلے بیت الخلاء تک صاف کر دیتے ہیں لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ شروع میں ساری دنیا میں پاکستان میں کرپشن کی حشرسامانیاں بیان کی گئیں، خزانہ خالی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔

پاکستان کے سیاستدانوں کو کرپٹ قراردیا گیا۔ ایسا تقریباً ہر عالمی فورم پر کہا گیا۔ کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ پچھلی حکومتوں کو بدنام کرنے کے چکر میں پاکستان کی معیشت کا بیڑا غرق ہو رہا ہے۔ ان کی مثال اس نادان دوست جیسی ہے جس نے سوئے ہوئے دوست کے منہ پر سے مکھی اڑانے کے لیے اس کے منہ پر اینٹ دے مار کر اسے سکون کی اس جگہ پر پہنچا دیا جہاں ایک بار محترم وزیراعظم نے ارشاد بھی فرمایا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ عذر گناہ بد تر از گناہ است کے مصداق ساری پی ٹی آئی اپنے "کارناموں " کوڈیفنڈکرنے میں لگی ہوئی ہے۔

اب وزیراعظم صاحب نے مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لیے اپنی ٹائیگر فورس کو ٹاسک دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کے یہ ٹائیگرز بہت اچھے، نیک دل اور انسان دوست ہونگے لیکن میرا ایک عاجزانہ مشورہ ہے کہ اس آپشن پر ایک بار پھر غور وفکر کر لیں۔ تاجروں، نچلے درجے کے ملازم پیشہ طبقوں، پڑھے لکھے بیروزگاروں کے غصے اور جذبات کا اچھی طرح جائزہاور تجزیہ کر لیں، حتیٰ کہ ٹریفک سگنلز، کاروباری مراکز، اسپتالوں، میڈیل اسٹورز اور ریستورانوں کے باہر بھیک مانگنے والوں کی تیوریوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک اچھے اور نیک کام کے لیے نکلنے والے بیچارے ٹائیگرز، مایوس، جھنجلاہٹ اور غصے سے بھرے ہوئے بھوکے ننگے عوام اور بھکاریوں کے ہتھے چڑھ جائیں اور پھر ممی ڈیڈی ٹائیگرز فورس کہیں ہمیشہ کے لیے سیاست کو ہی خیرباد نہ کہہ دے۔

باقی آپ کی مرضی!