ہر حال میں پْر امید رہنا اور تصویر کا روشن پہلو دیکھتے رہنے کا مطلب اوپٹم اِزم یعنی رجائیت پسندی ہے۔ زندگی کے تلخ معاملات میں بھی ہر دم پْر امید رہنے والا کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ مایوسی اکثر سیاہ بادلوں کی طرح لوگوں کے دلوں پر چھا جاتی ہے مگر وہ انسان جو خوش اور اْمیدانہ ہوتا ہے کبھی اندھیروں کا شکار نہیں ہوسکتا۔ مغربی ادب میں تو اس پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔
امریکہ میں اپنے قیام کے دوران وہاں کی مشہور کتابوں کی دکان Barns and Noble میں سیلف ہیلپ کی کتابوں میں ان موضوعات پر ان گنت کتابیں دیکھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں مایوسی، منفی سوچیں اور ناکامیوں سے چھٹکارا پانا ہی انسان کی اولین خواہش ہے۔ تین مہینے میرا قیام امریکہ کی ریاست پنیسلو ینیا کے ایک چھوٹے سے شہر Scranton میں تھا۔ آبادی کے لحاظ سے پنیسلوینیا کی ریاست کا یہ چھٹا بڑا شہر ہے۔
1880 میں ڈکسن مینوفیکچرنگ کمپنی نے یہاں سب سے پہلے بجلی متعارف کروائی تھی۔ اس لحاظ سے اس شہر کو "بجلی کا شہر" بھی کہتے ہیں۔ Scranton کی دوسری شہرت کی وجہ صدر جوبائیڈن کی پیدائش اور لڑکپن گزارنے کی ہے۔ اس شہر کی تاریخ اور ایجادات اور تحریکوں پر ایک الگ سے کالم لکھنا بنتا ہے۔ اس وقت تو بات رجائیت پسندی کی ہو رہی تھی۔ جس بلڈنگ میں مَیں اپنی بیٹی کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھی وہاں بہت سے لوگوں سے دوستی ہوئی مگر ایک ادھیڑ عمر خاتون جس کا نام مَیری این تھا وہ بتاتی تھی کہ بچپن میں اس کا کافی بڑا تقریباً سات بیڈ رومز پر مشتمل گھر تھا۔
معاشرے میں چوری چکاری اور بدامنی نام کی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ ان کے گھر کے مین دروازے پر کبھی تالا نہیں پڑا تھا۔ مگر آج موبائل چھیننے والے اور چھوٹی موٹی چوریاں کرنے والے دندناتے پھرتے ہیں۔ یونہی مختلف باتوں میں مَیری اَین نے بتایا کہ جب وہ نوکری کرتی تھی اور جوان تھی تو کام کی جگہ پر لوگوں سے جھگڑا رہتا تھاحتیٰ کہ خاوند سے بھی علیحدگی تک بات پہنچ گئی تھی۔ لیکن ایک روز اس نے مقامی لائبریری میں Optimism اور مثبت سوچ پر ایک چھ روزہ ورکشاب اٹینڈ کی۔
بس پھر کیا تھا۔۔ اس کی تو دنیا ہی بدل گئی۔ اسے اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ ان سب جھگڑوں کی کوئی 75% وہ خود ہی ذمہ دار تھی۔ پھر جب اس نے اپنی منفی سوچ کو ختم کیا اور دوسروں کے بارے میں غلط اندازے لگانا چھوڑے تو اس کے من کی، گھر کی اور باہر کی دنیا میں ہر طرف سکون ہوگیا۔ اس کے حلقہ احباب اور سسرالی رشتوں سب کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے لگے۔ اب وہ ایک بیوہ کی زندگی گزارتی ہے۔
اس کی تین بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں ہنسی خوشی رہتی ہیں۔ وہ خود تنہا اپنے اپارٹمنٹ میں رہتی ہے اور سوشل ورک کرتی ہے۔ برسوں پہلے جب اس نے رجائیت پسندی کو اپنے اندر بٹھا لیا تھا تو کوئی منفی چیز اس کی طرف پلٹ کر نہیں آئی۔ منفی سوچیں انسان کے اندر اداسی کے ہارمون کورٹیسول کو مستعدد کر دیتی ہے جو انرجی کو فوراً ختم کر دیتا ہے۔ لہذا منفی سوچ کے آتے ہی تصویر کا روشن پہلو دیکھنا شروع کر دیں۔ کیوں کہ دماغ کو آپ جیسا چارہ کھلائیں گے وہ ویسا ہی کام کرے گا۔
آج کل پاکستان میں ہر طرف منفی خبروں کے جھکڑ ایسے چلتے ہیں کہ انسان کے دماغ کی چْولیں ہل کر رہ جاتی ہیں۔ پْوری دنیا کی سیاست کو دیکھیں تو چند نکتے سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔ ایک طرف دنیا میں گلوبل وارمنگ کے خطرات ہیں تو دوسری طرف جنگیں انسانی جانوں کو کھائے جا رہی ہیں۔ پناہ گزینوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جدید غلامی کا دور ہے۔
بدعنوانی اور کرپشن کے سمندر کی لہریں انسانوں کو نِگل رہی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں کیسے پْر امید رہا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں تو حالات اور ہی زیادہ مایوس کن ہے۔ بے شمار سرکاری سکولوں کو بیچ دیا گیا ہے اور سْننے میں آ رہا ہے کہ اب ان سکولوں کو این۔ جی۔ اوز چلائیں گی۔ یہ بھی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ تقریباً ڈیڑھ سو سرکاری ہسپتال بھی بیچ دیے جائیں گے۔ بیچیں بیچیں سب کچھ بیچیں۔۔
مگر خدارا ہمیں تو بتا دیں کہ بکنے والی ان سرکاری عمارتوں کی کمائی آخر کار کن کی جیبوں میں جائے گی۔ اب ایسی قبیح صورتِ حال میں بھی بہت سے پاکستانی ایسے ہیں جو رجائیت پسندی لیے ہوئے پْر امید رہتے ہیں۔ سب سے اہم بات ہے کہ زندگی میں ہر قدم پھول اور پھولوں کے بیج بکھیرتے جاؤ تو بْری لگنے والی چیزیں بھی خود بخود ٹھیک ہوتی چلی جائیں گی۔ رجائیت پسندی دماغ کی وہ کیفیت ہے جو انسان کو بْرے حالات یا کسی شدید بیماری وغیرہ میں بھی اْمید کی روشنی سے جوڑے رکھتی ہے۔ پْر امید رویے ہمیشہ زندگی میں کامیابیوں کی ضمانت ہوتے ہیں۔
اْمیدانہ رویہ اور سوچ رکھنے والے دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتے ہیں کیونکہ وہ خوش رہتے ہیں اور منفی چیزوں پر توجہ نہیں دیتے رجائیت پسند لوگ پْر اعتماد ہو کر زندگی کی دشواریوں کا مقابلہ خوش دلی سے کرتے چلے جاتے ہیں۔ امید کے خلاف اْمید رکھنا ہی رجائیت پسندی ہے۔ قارئین! آپ لوگ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اْمید کے خلاف اْمید۔۔ یہ کیسی عجیب سی بات ہے تو سْنئے اْمیدیں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں۔ اچھی اور بْری۔ مثبت اور منفی۔
اب یہ چْننے والے پر منحصر ہے کہ اچھی اْمیدیں لگانی ہے یا بْری۔ کسی کی بھی زندگی مشکلوں سے عاری نہیں لہذا اگر ہنستے ہنستے ان مشکلات پر قابو پایا جائے تو مصائب کے بادل جلد ہی چھٹ جاتے ہیں اور خوشیوں کا سورج کھلکھلاتا ہوا دل میں نئی کونپلوں کی آبپاری کرتا ہے۔ انگریزی کا مشہور مقولہ ہے:
There is always light at the end of tunnel