قومی اسمبلی یا ایوان زیریں ایک قانون سازجمہوری ادارہ ہے۔ یعنی قوم اور ملک کے وسیع تر مفاد میں اس ایوان کے منتخب ارکان اس کشادہ ایوان میں بیٹھ کر قانون سازی جیسے غیر معمولی امور کو سرانجام دیتے ہیں۔ بائیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف تین سو بیالیس افرادکا اہمیت کے حامل اس ہاوس کا رکن بننا کوئی غیر معمولی سعادت نہیں کہ اسے نظر انداز کردیا جائے۔ لیکن بدقسمتی ہمارے ہاں یہ روش در آئی ہے کہ اس ادارے کی ساکھ کو بھی وقتاًفوقتاً مجروح کیاجارہاہے۔ پچھلے روز منگل کو اس ایوان کی کارروائی ٹی وی پر دیکھنے کو ملی تو میری مایوسی مزید بڑھ گئی کیونکہ قانون ساز حضرات نے یہاں پھر ایک مرتبہ پھر خود قانون اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑادیں۔ حکمران جماعت کے وفاقی وزیر برائے مواصلات جناب مراد سعید نے پہلے تقریرکا آغاز کیا۔ اپنی تقریر کے دوران مراد سعید کا لب ولہجہ مکمل طور پر نا مناسب تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موصوف وزیر ملک کو حالیہ درپیش چیلنجز پر بات کرتے ورنہ حسب معمول اپنی جماعت کی کارکردگی اوراپنے قائدجناب عمران خان صاحب کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے تو بھی اس پر کون قدغن نہیں تھی؟ لیکن انہوں نے براہ راست پیپلزپارٹی کی قیادت کو آڑھے ہاتھوں لے کر اپنوں سے خوب داد اور واہ واہ وصول کی۔ کہنے لگے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین حقیقت میں جانشین زرداری اور حادثاتی سیاستدان ہیں اور بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ایک جعلی وصیت نامے کو استعمال کرکے وہ اپنے نانا کی جماعت کی قیادت پرقابض ہوگئے ہیں۔ لگ بھگ پچاس منٹ کی طویل تقریر کے دوران ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے بھی موصوف وفاقی وزیر کے ان جملوں پر سوری نہیں کہااور انہیں ٹوکنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ مراد سعید کی تقریر کے بعد پھر وہی ہوا جس کا انتظار تھا۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے جوابی تقریر کیلئے رکن اسمبلی عبدالقادر پٹیل کھڑے ہوگئے۔ اپنے خطاب کا آغاز جناب پٹیل نے انتہائی مودبانہ انداز بلکہ سنت نبوی ﷺ کا لحاظ کرتے ہوئے تعوذ اور تسمیہ سے کیا۔ لیکن تقریر میں استعمال ہونے والی زبان نہ صرف غیر پارلیمانی تھی بلکہ اس میں اخلاقیات اور روایات کی بھی دھجیاں اڑائی گئیں۔
عبدالقادر پٹیل کی تقریر سننے سے قطعا تعلق نہیں رکھتی تھی کیونکہ اس میں حکمران جماعت کی کارکردگی پر جائز تنقید کم جبکہ مراد سعید کی ذات اور آبرو پر تابڑ توڑ حملے زیادہ تھے۔ پتہ نہیں کیاکیا طعنے اور کیاکیا نازیبا جملے اُنہوں نے اُس مراد سعید کے گوش گزار نہیں کرالیے جو فقط چند منٹ پہلے تالیوں اور وا ہ واہ اور تالیوں کی گونج میں زرداری اور بلاول کی کلاس لے رہے تھے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس ادارے کی خوبصورتی پر کیچڑ اچھالنے کی یہ غلیظ روایت کو کیوں پروموٹ کیاجارہا ہے بلکہ بنیادی سوال یہ ہے کہ اس میں بداخلاقی اور دشنام طرازی کا یہ دَرآخر وا کس نے کیا؟ سچی بات یہ ہے کہ اس بیہودہ اور شرمناک روایت کا سہرا اس جماعت کی قیادت کے سر جاتاہے جو مدینہ رسول ﷺ جیسی پاک ریاست بنانے کی دہائیاں بھی دیتی ہے اور ساتھ ساتھ دشنام طرازی کو بھی اپنا وطیرہ بنایاہواہے، مطلب یہ "کہ خان یہ بھی کرتاہے اور وہ بھی "۔ وزیراعظم عمران خان ہی تھے جنہوں نے برسرِ بازار مولانا فضل الرحمن کو منافق الرحمن بھی کہا اور مولانا ڈیزل بھی اپنے ورکروں کو ازبرکروایا۔ عمران خان ہی تو تھے جن کی زبان سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف محفوظ رہے اور نہ ہی سابق صدر آصف علی زرداری۔ عمران خان ہی تھے جنہوں نے اپنے اوپر تنقید کرنے والے صحافیوں کو خود بھی لتاڑا اور اپنے مریدوں سے بھی۔ پارلیمنٹ کی جمہوری وقعت میں بے شک ہر جماعت نے اپنی کرتوتوں سے نقصان پہنچایا لیکن یہ پی ٹی آئی ہی کی جماعت ہے جس نے پارلیمنٹ کی اخلاقی تقدس کو بھی پامال کیا۔ ایک سوچھبیس دن پر محیط طویل دھرنے کے اسٹیج سے اسی پارلیمنٹ پرمذکورہ جماعت کی قیادت نے کیا کیا تبرائیں بھیجے اور کیاکیاجملے نہیں کھسے؟ ہم جیسے لوگ پھر بھی امید کرتے تھے کہ چلیں اقتدار میں آکر یہ جماعت سدھر جائے گی، اس کی قیادت ہوش کے ناخن لے گی اور سنجیدگی دکھاسکے گی۔ لیکن مقتدر جماعت بننے کے باوجود اس کی ادائیں طفلانہ اور بچگانہ ثابت ہورہی ہیں۔ بقول مرحومہ پروین ?
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
مولانا ابوالکلام کا ایک قیمتی جملہ یاد آیا کہ " سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا"۔ مولانا ؒ پھر بھی خوش نصیب ثابت ہوئے کہ ایک ایسے دور میں جیئے جس وقت یہ مقدس عمل صرف دل سے محروم ہواکرتا تھا لیکن ہم غضب کے بدنصیب ہیں کیونکہ ہم اس دور میں جی رہے ہیں جہاں یہ بے چارہ بے دل ہونے کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی حیا سے بھی عاری ہوکر رہ گئی ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی یاد آئے،
میں وہ محروم کہ پایا نہ زمانہ تیرا
تو وہ خوش بخت کہ جومیرے زمانے میں نہیں