ہزاروں سال قبل چین کے کسی علاقے میں ولی عہد کی تقریب منعقد ہو رہی تھی۔ دربان آگے بڑھا، ہاتھ سینے پر رکھا اور "با ادب باملاحظہ ہوشیار" کی صدا بلند کرکے دروازہ کھول دیا۔ شہزادہ دیوان خاص میں داخل ہو ا، بادشاہ سلامت تخت پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے، دائیں بائیں کھڑے ملاز م پنکھا جھول رہے تھے۔ شہزادہ آگے بڑھا اور بادشاہ کے تخت کے ساتھ بیٹھ گیا۔
بادشاہ نے سامنے بیٹھے مشیروں پر نظر دوڑائی اور شہزادے کی طرف متوجہ ہوکر بولا"میں نے ساری زندگی رعایا کو خوش رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن اب میں محسوس کر رہا ہوں کہ میرا آخری وقت قریب آ چکا ہے اور اب میں تمہیں اپناولی عہدمقرر کرنا چاہتا ہوں۔ "شہزادے نے ہاتھ سینے پر رکھ کر جی حضور کہتے ہوئے سرجھکا لیا۔ بادشاہ دوبارہ مخاطب ہوا "لیکن اس سے پہلے ہم تمہیں آزمائیں گے، اگر تم اس آزمائش میں کامیاب ہو گئے توحکومت تمہارے حوالے کر دی جائے گی۔
کل سے ہم تمہیں ایک جنگل میں بھیج رہے ہیں، تم ایک ہفتہ اس جنگل میں رہو گے اور اس ایک ہفتے میں تم جو سیکھو گے ایک ہفتے بعد اس کا امتحان ہوگا۔ اگر تم امتحان میں کامیاب ہو گئے تو تمہیں ولی عہد کی کرسی پر بٹھا دیا جائے گا"۔ شہزادے نے گردن جھکائی، سینے پر ہاتھ رکھ کر جی حضور کہا اور مجلس بر خاست ہوگئی۔
اگلے روز شہزادہ جنگل کی طرف روانہ ہوگیا۔ تھکا دینے والے لمبے سفر کے بعدرات کے وقت وہ ایک گھنے جنگل میں پہنچ گیا۔ اس نے سامان نیچے رکھا اور ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر سو گیا۔ صبح سورج کی تیز کرنوں نے اسے اٹھایا اور وہ جنگل کے مشاہدے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے نوٹ کرنا شروع کیا کہ جنگل میں کو ن کون سے پرندے، جانور اور درخت موجود ہیں۔ جنگل میں کتنی اقسام کے کیڑے مکوڑے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں۔
کتنے چشمے، کتنی آبشاریں اور کتنی جھیلیں ہیں۔ اس جنگل میں کتنی اقسام کے پھل اور پھول پائے جاتے ہیں اور جنگل میں بادشاہت کس کی ہے۔ اس نے جنگل میں بارش، بارش کی بوندیں اور بارش کے پانی کا بہاؤ بھی نوٹ کیا۔ اس نے جنگلی جانوروں کی آوازیں، رات کا سناٹا اور جنگل کے سکوت کی آواز تک نوٹ کی۔ ایک ہفتہ گزارنے کے بعد وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوگیا۔ تمام درباری اکٹھے ہو ئے اوردرباریوں کی موجودگی میں بادشاہ نے شہزادے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کیا "آپ ہمیں بتائیں کہ آ پ نے اس ایک ہفتے میں جنگل میں کیا نوٹ کیا اور کیاسیکھا" شہزادہ مؤدب ہو کر بولا "بادشاہ سلامت میں نے نوٹ کیا کہ جنگل میں کتنے جانور، کتنے پرندے اور کتنی اقسام کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں۔
میں نے جانوروں اورپرندوں کی تعداد اور ان کے نام تک یاد کیے۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اس جنگل میں کتنے چشمے، کتنی آبشاریں اور کتنی جھیلیں پائی جاتی ہیں اور میں نے جنگل کا سناٹا اور تاریکی تک کو محسوس کرنے کی کوشش کی۔ " بادشاہ نے شہزادے کی تمام باتیں غور سے سنیں اورپو چھا "کیا تم نے جنگل میں کیڑے مکوڑوں کی آوازیں، پتوں کی سرسراہٹ، چیونٹیوں کے چلنے کی آوازیں اور نہ سنائی دینے والی آوازیں بھی نوٹ کیں" شہزادے نے مؤدب انداز میں سر جھکایا اور بولا "بادشاہ سلامت میں نے یہ سب آوازیں سننے اور نوٹ کرنے کی کوشش کی لیکن میں ناکام رہا" بادشا ہ سلامت نے حکم جاری کیا شہزادہ اپنے امتحان میں ناکام ہوگیا ہے۔
شہزادے کی فرمائش پر بادشاہ نے ایک اور موقع دیا اور اسے دوبارہ جنگل میں جانے اور ان سب آوازوں کو سننے اور نوٹ کرنے کا حکم دیا۔ اگلے روز شہزادہ پھر جنگل میں موجود تھا۔ تھکا دینے والے سفر کی وجہ سے وہ سخت پریشان تھا، اسے سخت بھوک لگی تھی اور نیند نے اسے گھیرلیا تھا۔ اس نے سامان نیچے پھینکااور ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر سو گیا۔ اس کی آنکھ کھلی تو وہ سوچنے لگا کہ بادشاہ نے اسے دوبارہ جنگل میں کیوں بھیجا اور اسے چیونٹیوں کے چلنے اور پتوں کے گرنے کی آوازیں نوٹ کرنے کا کیوں حکم دیا۔
وہ حیران تھا کہ پتوں کے گرنے کی آواز کو نوٹ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی چیونٹیوں کے چلنے کی آواز سنی جا سکتی ہے لیکن۔ اسی شش و پنج میں اس نے اراد ہ کیا کہ اس بار وہ ضرور یہ آوازیں سنے اور نوٹ کر ے گا۔ وہ کئی دن تک مسلسل یہ آوازیں سننے کی کوشش کرتا رہا، اس نے کئی دن تک کچھ نہیں کھایا تھا، آخر کئی دن کی مسلسل محنت اور کوشش کے بعد وہ اس قابل ہوگیا کہ وہ چیونٹیوں کی آوازیں سن سکے۔ اس نے کان لگا کر سنا کہ چیونٹیوں کے چلنے کی آواز کیسی ہوتی ہے، اس نے پتوں کے گرنے کی آواز بھی نوٹ کی اورمسلسل کئی دن کی ریاضت سے وہ نہ سنائی دینے والی آوازیں سننے کے بھی قابل ہوگیا۔
ایک ہفتے بعد وہ پھر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا، بادشاہ نے وہی سوال دہرا یا تو شہزادے نے بتایا کہ وہ پتوں کی سرسراہٹ کی آوازیں، چیونٹیوں کے چلنے کی آوازیں اور کیڑے مکوڑوں کی آوازیں سننے کے قابل ہوگیا ہے۔ بادشاہ بہت خوش ہوا اور بولا "شہزادے! پہلی بار تم نے جنگل میں جا کر جو کچھ سیکھا اور نوٹ کیا تھا وہ چیزیں ہر انسان نوٹ کر سکتا ہے۔ جنگل میں جا کر ہر انسان یہ دیکھ سکتا ہے کہ وہاں کون کون سے پھل، پودے، جانور، آبشاریں اور جڑی بوٹیاں موجود ہیں لیکن دوسری بار جا کرتم نے جو آوازیں سنیں انہیں صرف کوئی حساس انسان ہی محسوس کر سکتا ہے۔
میں تمہیں جنگل میں بھیج کر یہی آوازیں سنوانا چاہتا تھا، میں تمہیں حساس بنانا چاہتا تھا کیونکہ کل تم جب بادشاہ بنو گے تو تمہیں عوام کی نہ سنائی دینے والی آوازیں بھی سننا ہوں گی۔ تمہیں اپنی رعایا کے نہ دکھائی دینے والے دکھ درد بھی محسوس کرنا ہوں گے۔ تمہیں عوام کی ان ضروریات کابھی ادراک کرنا ہوگا جو تم اس محل کے اندر نہیں کر سکتے۔ تم جس محل میں پروان چڑھے ہو اس محل میں تم ان آوازوں کو نہیں سن سکتے تھے اوررعایا کے دکھ درد کو محسوس نہیں کر سکتے تھے۔
جنگل میں جا کر تم نے اب یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے اور مجھے امید ہے کہ اب تم اپنی رعایا کو خوش رکھ سکو گے۔ یہی وہ نکتہ تھا جومیں تمہیں سمجھانا چاہتا تھا اور یہی وہ راز ہے جو تمہیں ایک کامیاب حکمران بنا دے گا۔ " شہزادہ اپنی جگہ سے اٹھا، والد کی قدم بوسی کی اور ولی عہد کا تاج پہن لیا۔
آج جب میں اپنے عہد کے حکمرانوں، اشرافیہ، پارلیمنٹیرین، ججز، بیوروکریسی اور حکومتی عہدوں پر براجمان افسران کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں انہیں کیا معلوم اس ملک کے چوبیس کروڑ عوام کے دکھ کیا ہیں۔ یہ محلات میں پلنے والے دو تین مرلوں میں زندگی گزارنے والی رعایا کے دکھ اور ضروریات کو کیسے محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ درجنوں ڈشز کے ساتھ لنچ اور ڈنر کرنے والے کیسے محسوس کر سکتے ہیں کہ ایک روٹی کی قیمت کیا ہوتی ہے۔
سیکڑوں ایکڑ رقبوں پر مشتمل ایوان صدر، وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ ہاؤسز، گورنر ہاؤس اور کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہاؤسز میں قیام کرنے والے اس غریب کے دکھ کو کیسے محسوس کر سکتے ہیں جس کی چھت گرنے سے وہ بیوی بچوں سمیت ہلاک ہو جاتا ہے۔ محلات میں پلنے والی یہ ایلیٹ کیسے اندازہ کر سکتی ہے کہ عید کے موقع پر شہر کے کسی محلے میں ایک باپ اپنے بچوں کو زہر کیوں دیتا ہے اور شہرسے دور کسی گاؤں کے قریب سے گزرنے والی نہر سے ایک ماں کی بچوں سمیت لاشیں کیوں ملتی ہیں؟