Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Cheeni Tareeqa Ilaj

Cheeni Tareeqa Ilaj

آپ پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ تلاش کر رہے ہیں۔ ایک جگہ خالی نظر آتی ہے۔ آپ وہاں گاڑی پارک کرنے کے لئے قریب پہنچتے ہیں کہ اچانک، زوں کر کے ایک تیز رفتار کار، وہاں کھڑی کر دی جاتی ہے۔ آپ اس بدتمیزی پر ہکا بکا رہ جاتے ہیں آپ کو اپنی باری سے محروم کرنے والا شخص کار پارک کر کے، کار سے باہر نکلتا ہے۔ گاڑی کو لاک کرتا ہے اور یہ جا وہ جا! وہ آپ کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ آپ سے معذرت کرے۔ یا آپ پر ایک نگاہ ِغلط انداز ہی ڈال لے۔ آپ دل مسوس کر کے رہ جاتے ہیں۔ مگر اب ایسا نہیں ہو گا اس لئے کہ چینی عورتیں پہنچ گئی ہیں۔

یہ دارالحکومت کا پر رونق اتوار بازار ہے۔ شاہراہ کے کنارے پارکنگ بنی ہوئی ہے یا بنا لی گئی ہے۔ ایک چینی خاندان بھی خریداری کرنے آیا ہے۔ یہ ایک خالی جگہ گاڑی پارک کرنے ہی والے تھے کہ زوں کر کے ایک گاڑی آتی ہے اور وہاں پارک ہو جاتی ہے۔ جلد باز نوجوان فاتحانہ شان سے باہر نکلتا ہے مگر دوسری گاڑی سے چینی عورتیں باہر نکلتی ہیں اور اس نوجوان کو گریبان سے پکڑ کر اس بدتہذیبی، بدتمیزی اور جنگلی پن کا مزہ چکھانا چاہتی ہیں۔ آناً فاناً لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے۔ ابھی چینی خواتین نے نوجوان کی مرمت شروع ہی کی تھی کہ پولیس کا اہلکار بھی پہنچ گیا اور "بیچ بچائو" کرا دیا۔ تاہم چینی خواتین جو پیغام دینا چاہتی تھیں وہ نوجوان کو مل گیا اور پاکستانیوں کے تماش بین انبوہ کو بھی!!

آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا ہم پاکستانی چیخ چیخ کر اعلان نہیں کر رہے کہ ہماری بیماری کا واحد حل یہی "چینی طریقۂ علاج ہے؟ ستر برس ہو گئے دوسرے طریقہ ہائے علاج آزماتے آزماتے! بیماری ہے کہ وہیں کی وہیں ہے! ہم تہذیب کے بنیادی تقاضے بھی پورے نہیں کر سکتے! دانشور، ادیب، صحافی، ڈرامہ نگار، لکھ لکھ کر تھک گئے۔ علما اور واعظ "اکرام مسلم" سمجھا سمجھا کر عاجز آ گئے۔ مسلمان بھائی کا احترام کرنے پر فضائل کے فضائل پڑھے پڑھائے سنے سنائے جا چکے مگر اکرام تو دور کی بات ہے، مسلمان بھائی کو یا بہن کو ہم اتنی اہمیت دینے کو بھی تیار نہیں جتنی کسی نوکر کو دی جاتی ہے!جو چینی خواتین کے ساتھ ہوا، آپ کے ساتھ کئی بار ہوا۔ مگر آپ کچھ نہ کر سکے!آپ کسی سپر سٹور کے کائونٹر پر کھڑے ہیں۔ پیچھے سے آنے والا آپ سے پہلے سامان کائونٹر پر رکھنا شروع کر دیتا ہے، آپ اسے دیکھتے ہیں حیران ہوتے ہیں مگر کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ اے ٹی ایم سے باہر نکلتے ہوئے، اگلے گاہک کے لئے دروازہ کھول کر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ آپ کا شکریہ نہیں ادا کرتا! آپ حیران ہو کر چلے جاتے ہیں۔

ہم پاکستانیوں کو تمیز سکھانے کے لئے چینی عورتیں درآمد کی جانی چاہئیں۔ جیسے ہی آپ کی باری توڑ کر، کوئی اپنا سامان کائونٹر پر آپ سے پہلے رکھتا ہے تو وہاں ایک چینی عورت موجود ہو جو اسے گریبان سے پکڑ کر پہلے اچھی طرح جھنجھوڑے پھر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کرے اور بتائے کہ ابھی تمہاری باری نہیں آئی۔ اسی طرح وہ نواب ابن نواب ابن نواب، جو آپ کا شکریہ ادا کئے بغیر اے ٹی ایم کے اندر گیاہے، چینی عورت اسے گریبان سے پکڑ کر کھینچ کر، کیبن سے باہر نکالے اور بتائے کہ یہ شریف آدمی جو تمہارے لئے دروازہ کھول کرکھڑا تھا۔ تمہارا خاندانی ملازم نہیں ہے۔ پہلے اس کا شکریہ ادا کرو ورنہ تمہاری پٹائی کی جائے گی!!

قدم قدم پر محسوس ہوتا ہے کہ ہم بنیادی ادب آداب سے محروم ہیں۔ دو دن پہلے کی بات ہے کہ مسجد کے دروازے کے قریب یوں معلوم ہوا جیسے مسجد کے اندر کوئی صاحب کسی سے جھگڑا کر رہے ہیں اندر جا کر دیکھا تو ایک صاحب وضو کے چبوترے پر بیٹھے، پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر کسی سے باتیں کر رہے تھے۔ عین اسی وقت ساتھ، جماعت کھڑی تھی۔ تو کیا چینی عورتیں مسجدوں کے اندر بھی تعینات کرنا پڑیں گی؟؟ کیوں کہ مجھ سمیت، کسی کی مجال نہ تھی کہ ان صاحب کو روکتا یا ٹوکتا! طاقت ور پھیپھڑوں کے ایسے مالک ریل کے ڈبوں میں بھی بیٹھے ہوتے ہیں جو باقی تمام مسافروں کے اعصاب کا امتحان لے رہے ہوتے ہیں۔

کئی ملکوں میں اے ٹی ایم، کیبن کے اندر نہیں ہوتے بلکہ بازار یا مال کے ایک طرف کھلی جگہ پر نصب ہوتے ہیں۔ کیا مجال کہ پیچھے کھڑا ہوا مرد یا عورت اگلے شخص کے قریب بھی کھڑا ہو وہ ہمیشہ ایک معقول فاصلے پر کھڑا ہو گا۔ اتنا فاصلہ جس میں کم از کم دو افراد سما سکیں!

برسبیل تذکرہ، چین میں ایک شہر ایسا بھی ہے جہاں کی عورتیں شوہروں کی سر بازار پٹائی کرنے کے لئے مشہور ہیں۔ اگر کچھ عورتیں اس شہر سے بھی درآمد کر لی جائیں تو کم از کم ان بے کس پاکستانی عورتوں کو مناسب"تربیت" دے سکتی ہیں جن کے ظالم شوہر انہیں اس لئے طلاق کی دھمکیاں دیتے ہیں کہ بیٹی کو کیوں جنم دیا؟ یا اس لئے زدو کوب کرتے ہیں کہ سالن میں نمک کم ہے! چین کے اس شہر کو جہاں شوہر مظلوم ہیں، پاکستانی مرد بھی برآمد کئے جا سکتے ہیں جو ان بکری بنے ہوئے مردوں کو حوصلہ دیں اور سکھائیں کہ عورت زدوکوب کرے تو چپ کر کے مار کھانے کے بجائے بھاگ کر کم از کم اس کی دسترس سے وقتی طور پر تو دور ہو جائیں۔

اتوار بازار میں جب چینی عورتیں جلد باز نوجوان کو تہذیب سکھانے کی کوشش کر رہی تھیں تو ایک حیرت انہیں یہ بھی ہوئی کہ کس طرح آناً فاناً ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ یہ بھی ہماری شناخت بن چکی ہے۔ آپ کی گاڑی کسی موٹر سائیکل یا کار سے ٹکرائی، ابھی آپ باہر نکل کر دوسرے ڈرائیور سے بات ہی کر رہے ہیں کہ آن کی آن میں لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ہر شخص آپ کو مشورہ دے رہا ہے کہ چھوڑیں، جانے دیں۔ حالانکہ آپ اور دوسری گاڑی والا شخص آپس میں جھگڑ بھی نہیں رہے۔ ایک سبب اس ہجوم گردی کا یہ ہے کہ ہمارے ہاں بیکار لوگوں کی کمی نہیں اور جو اپنے کام پرجا رہے ہیں وہ بھی باقاعدہ رک کر جائے حادثہ سے لطف اندوز ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔ شفیق الرحمن لکھتے ہیں کہ ایک شخص، ایک دو منزلہ یا سہ منزلہ مکان کے سامنے سڑک پرکھڑا ہوا اور اوپر مکان کی طرف دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر میں ایک اور شخص بھی اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور اوپر دیکھنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں ایک ہجوم وہاں کھڑا تھا جو مکان کی بالائی منزل کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ مکان کے مکین کو معلوم ہوا تو وہ بالائی منزل کی کھڑکی سے نیچے دیکھنے لگا کہ یہ سب لوگ جمع ہو کر اوپر اس کے مکان کی طرف کیوں دیکھ رہے ہیں۔ اس منظر کا تصور کیجیے کہ ہجوم اس شخص کو اوروہ شخص ہجوم کو دیکھ رہا ہے اور مسلسل دیکھ رہا ہے۔

ماشاء اللہ مردم خیزی میں ہم اپنی مثال آپ ہیں۔ کسی امریکی نے کہا تھا کہ پاکستان میں بلب بدلنے کے لئے پانچ افراد درکار ہوتے ہیں۔ ایک سٹول پر کھڑا ہو کربلب اتارتا ہے۔ دوسرا سٹول کو پکڑے ہوتا ہے۔ تیسرا بلب پکڑتا اور پکڑاتا ہے۔ اور دو افراد پاس کھڑے یہ "تماشا" دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ گھر میں کوئی مرمت کا کام ہو اور آپ کسی مستری کو یہ چھوٹا سا کام سونپیں تو دوسرے دن اس کے ساتھ دو اور افراد ضرور آئیں گے۔ زیادہ وقت ان کا اپنے اپنے موبائل پر گزرے گا جس پر وہ بار بار مخاطب سے پوچھیں گے کہ اور سنائو کیا حال ہے؟

About Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar ul Haq, is a columnist and a renowned poet of Urdu language, in Pakistan. He has received international recognition for his contribution to Urdu literature, and has been awarded Pakistan’s highest civil award Pride of performance in 2008. He has published four books of Urdu poetry and writes weekly column in Daily Dunya.