"قائد اعظم کا پاکستان بنانے کا فیصلہ درست تھا۔ قائد اعظم کی بھارت پر اعتبار نہ کرنے والی بات آج درست ثابت ہو رہی ہے۔ قائد اعظم نے ٹھیک کہا تھا بھارت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا"
یہ الفاظ کسی مسلم لیگی کے ہیں نہ کسی پاکستانی کے! یہ اعتراف مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے مارچ 2019ء میں کیا ہے!وقت جوں جوں اپنی پرتیں اتارے گا، قائد اعظم کی صداقت کا نقش تاریخ کے صفحے پر زیادہ سے زیادہ گہرا ہوتا جائے گا۔
جہلم کے پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ تقسیم سے پہلے جہلم کے پورے بازار میں صرف ایک مسلمان کی دکان تھی۔ پورا علاقہ ہندو دکانداروں کے تصرف میں تھا۔ خواندگی سکھوں اور ہندوئوں میں زیادہ تھی۔ راولپنڈی میں جو عمارت آج وزارت دفاع کا ہیڈ کوارٹر ہے اسے قیام پاکستان سے پہلے سے"کلکتہ دفتر" کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ یہاں دفاعی حسابات کا ہیڈ آفس تھا اور اکثریت اس میں کلکتہ (بنگال) کے ہندو بابوئوں کی تھی۔ یہ تو ان علاقوں کی حالت تھی جہاں مسلمان اکثریت میں تھے۔
تقسیم سے پہلے معاشی اور معاشرتی میدان میں مسلمان ہندوئوں کے مقابلے میں کہاں کھڑے تھے؟ اس کا اندازہ آج کے نوجوان کو نہیں ہو سکتا۔ اس کی پیدائش ہی پاکستان میں ہوئی ہے۔ اس نے اپنے بڑوں کو ہندو ساہوکاروں سے قرض مانگتے دیکھا نہ ہندو جاگیرداروں کے کھیتوں میں ہل چلاتے۔ اسے کیا معلوم کہ ایک مسلمان اپنے بچے کی ملازمت کے لئے ہندو بابوئوں کے سامنے کیسے اپنی عزت نفس تار تار کرتا تھا۔ ہاں! اگر وہ متحدہ عرب امارات جائے تو دیکھے گا کہ کس طرح ہندو دوسرے ہندو کی سرپرستی کر کے مسلمان خاص طور پر پاکستانی کو ہزیمت سے دوچارکرتا ہے۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمان ایک بڑی طاقت ہوتے مگر اس تھیوری کے علم بردار یہ بھول جاتے ہیں کہ ون مین ون ووٹ کی قوت متحدہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کو اقلیت ہی کا درجہ دیتی۔
قائد اعظم کی مخالفت آج کے پاکستان میں دوگروہ کر رہے ہیں اور دونوں انتہا پسند ہیں۔ ایک وہ جن کا مذہب کے ساتھ کوئی علاقہ نہیں اور متحدہ ہندوستان کے رومان کے اسیر ہیں۔ ان میں سے اکثر بھارت یاترا کرتے رہتے ہیں۔ یہ اپنی دانست میں بارڈر کی "مدہم" لکیر کو کالعدم گردانتے ہیں۔ دوسرا گروہ اہل مذہب کا ہے جن کے تعلیمی اداروں میں قائد اعظم کا نام لینا جرم ہے۔ تحریک پاکستان کی تاریخ سے اکثر مدارس کے طلبہ کو ہر ممکن حد تک ناواقف رکھا جاتا ہے۔ قائد اعظم کا ذکر کرنا بھی پڑے تو بیگانگی کے بے مہر لمس کے ساتھ جناح صاحب کہہ کر خانہ پری کر دی جاتی ہے۔
وقت کی غیر جانبدار چکی نے دونوں انتہا پسندوں کے موقف کو پیس کر رکھ دیا۔ پہلے گروہ کو اس وقت شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جب سلیمہ ہاشمی جیسے روشن خیال پاکستانیوں کو بھی بھارت نے ویزا نہ دیا۔ میاں نواز شریف کو تو توفیق نہ ہوئی مگر آصف علی زرداری نے بلوچوں کو صاف صاف کہا کہ بھارت میں گائے کاٹو گے تو مارے جائو گے۔ جب سے آر ایس ایس کے سیاسی چہرے بی جے پی کو اقتدار ملا ہے، "بارڈر مخالف" پاکستانیوں کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ گئو ماتا کے نام پر مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش رہ سکیں۔ رہا مذہبی گروہ تو قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے۔ زبان سے مانیں نہ مانیں مگر نہاں خانۂ دل میں جانتے ہیں کہ بھارت میں مدارس کی چھتوں پر ترنگا لہرانا لازم ٹھہرا ہے۔ 14 اگست، 23 مارچ اور 25 دسمبر کو تعطیل نہ کرنے والے پاکستانی مدارس کو معلوم ہے کہ یوپی کے وزیر اعلیٰ ادتیا ناتھ نے مدارس کو رکھشا بندھن، دیوالی، دسہرہ اور دوسرے تہواروں کے دن چھٹی کرنے کا حکم دیا ہے اور اسلامی تعطیلات کم کرنے کا کہا ہے۔ اقلیتوں کے وزیر لکشمی نرائن چوہدری کے حکم سے مدارس یوم آزادی منانے اور ثبوت میں تقریب کی ویڈیو بھیجنے کے پابند ہیں۔ جونیر وزیر بلدیو اولکھ نے واضح کیا ہے کہ حکم عدولی کرنے والے مدارس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔
یہ ایک طویل کہانی ہے۔ آج پاکستان ایک آزاد ملک ہے جو اقوام متحدہ کارکن ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں اس کے سفارت خانے کام کر رہے ہیں۔ آج پاکستانی نوجوانوں کو مسلح افواج، سول سروس، بینکاری، آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اقتصادی استحکام کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ وہ انعامات ہیں جن کا بھارتی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کا کریڈٹ اگر قائد اعظم اور ان کی جدوجہد کو نہ دیا جائے تو کسے دیا جائے؟ ہاں کچھ لوگوں کے بارے میں شیخ سعدی فرما گئے ہیں کہ ؎
گر نہ بیند بروزشپرہ چشم
چشمۂ آفتاب راچہ گناہ
چمگادڑ کی آنکھ دن کو کچھ دیکھنے سے قاصر ہے تو اس میں سورج کا کیا قصور! یہ بہر طور طے ہے کہ وقت قائد اعظم کی صداقت و عظمت جریدۂ عالم پر ثبت کرتا جائیگا۔ یہ تمہید اس لئے باندھی گئی کہ عماد بزدار کی نئی تالیف "ملزم جناح حاضر ہو" آج کے پاکستان کی ایک بنیادی ضرورت پورا کر رہی ہے۔ عماد نے جذبات سے بلند ہو کر ٹھوس حوالہ جات کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کو دیوار سے لگایا گیا اور اس حد تک زچ اور مجبور کیا گیا کہ پاکستان کے مطالبے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا۔ قائد اعظم نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کوشش کی اور اس میں ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ساتھ رہنا ممکن نہیں۔ عماد یہی منطقی اور زمانی ترتیب بروئے کار لایا ہے۔ اس نے پاکستانی مسلمانوں کا رُخ اصل قائد اعظم کی طرف پھیرا ہے۔ یہ ایک خالص تحقیقی کتاب ہے۔ اس میں نعرے ہیں نہ جذبات۔ حقائق کو مذہبی لبادہ پہنانے کی کوشش کی گئی نہ مذہب سے بزور دور دھکیلنے کی!
اب یہ عماد بزدار جیسے درد دل رکھنے والے دوسرے پاکستانیوں کا کام ہے کہ ان خطوط پر مزید کام کریں۔ پاکستان کی حقانیت کو واضح تر کرنے کے لئے محنت کریں اور ایسی تصانیف کا ایک پورا سلسلہ سامنے لائیں تاکہ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق روشن دن کی طرح سب کے سامنے آ جائے!قائد اعظم کا ذکر جب بھی کیا جائے گا، گاندھی کا کردار ایک Corollaryکے طور پر ضرور راستے میں پڑے گا۔ بقول مجید امجد ؎
جو تم ہو برق نشیمن تو میں نشیمن برق
الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب کیا کہنا
اگر ایک لفظ میں گاندھی کی شخصیت کو بند کرنے کا کہا جائے تو میں انہیں "مجموعہ اضداد" کہوں گا۔ پاکستان کو اس کا حصہ دلوانے کے لئے ان کا مرن برت اور پھر قتل یقینا سچ ہے مگر یہ آدھا سچ ہے۔ پورا سچ جاننے کے لئے گاندھی کی زندگی کے تمامCurrents اور Under Currents کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ گاندھی ایک معمہ تھے۔ ایک Enigma اور اس معمہ کو قائد اعظم نے سمجھا اور حل کیا۔ عماد نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
رہا کتاب کا باب جو ولی خان کی کتاب کے حوالے سے ہے تو میرے ناقص علم کے مطابق یہ ولی خان کے الزامات کا پہلا باقاعدہ اور باضابطہ جواب ہے۔ مختلف حضرات نے اپنی کتابوں میں ان الزامات کا رد پیش کیا ہے۔ کچھ نے محض ذکر کیا ہے مگر بالاستیعاب، تمام جزئیات کا احاطہ کرتے ہوئے، اس معاملے کو عماد ہی نے سلجھانے کی کوشش کی ہے۔
آخری اور ضروری گزارش یہ ہے کہ مصنف نے مکمل غیر جانبداری کے ساتھ ٹھوس حوالہ جات کی مدد سے اپنا نکتہ نظر پیش کیاہے۔ قارئین بھی اس کا مطالعہ کرتے ہوئے ہیجان سے بچیں اور شور مندی کے بجائے ہوش مندی بروئے کار لائیں۔ (عماد بزدارکی تصنیف "ملزم جناح حاضر ہو" کے تعارفیہ کے طور پر لکھا گیا)