نام تو اس کا رمضان خان ہے مگر وہ "مُنّا ماسٹر"کہلانا پسند کرتا ہے۔ مسلمان ہے۔ ساتھ ہی آرتی میں بھی شریک ہوتا ہے۔ ہارمونیم بجاتے ہوئے بھجن بھی گاتا ہے۔ گئوشالہ میں ایک ایک گائے کو اپنے ہاتھ سے کھلاتا ہے۔"گائے سیوا" سرانجام دیتا ہے۔ مندر میں جاتا ہے۔ کرشن بھگتی کرتا ہے۔ رام، کرشن، شیوا اور دوسرے ہندو دیوتائوں کے گیت گاتا ہے۔
صرف یہی نہیں، رمضان خان کے خاندان میں تین نسلوں سے سنسکرت پڑھائی جا رہی ہے۔ رمضان خان کو اس کے والد نے سنسکرت پڑھائی۔ رمضان خان کا بیٹا فیروز خان سنسکرت کا سکالر ہے۔ اس نے سنسکرت میں پی ایچ ڈی کی ہے۔
رمضان خان اور اس کے خاندان کا جرم صرف یہ ہے کہ عملی طور پر ہندو ہونے کے باوجود ان لوگوں کے نام مسلمانوں والے ہیں۔ چنانچہ جب گزشتہ ہفتے فیروز خان کی تعیناتی بنارس ہندو یونیورسٹی کے سنسکرت کے شعبے میں بطور پروفیسر ہوئی تو یونیورسٹی میں کہرام برپا ہو گیا۔ ہڑتال ہو گئی۔ طلبہ اور طالبات نے دھرنا دیا جو اب تک جاری ہے۔ فیروز خان یونیورسٹی چھوڑ کرگھر آ گیا۔
یہ کالم نگار اس موضوع پر انڈیا کے ایک چینل پر ٹاک شو دیکھ رہا تھا۔ دو مسلمان سکالر بھی بلائے گئے تھے۔ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ جب مسلمان شرکاء کے بولنے کی باری آئی تو دونوں بار کبھی مائک خراب ہو جاتا، کبھی کوئی اور "ٹیکنیکل" مسئلہ آن پڑتا۔ دونوں سکالرز کی باری، اینکر نے یوں بھگتائی۔ کہ آواز نہیں آ رہی! اسی ٹاک شو میں جو شرکا پروفیسر کی تعیناتی کے خلاف تھے، مسلسل بولتے رہے۔ ٹیپ کا بند ایک ہی تھی کہ سنسکرت، غیر ہندو وہ بھی مسلمان، کس طرح پڑھا سکتا ہے؟
یہ واقعہ صرف واقعہ نہیں، مسلمانوں کے لئے ایک اشارا ہے ان کی قسمت پر مہر لگ چکی ہے۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ اگر تم گائے کی پرستش بھی کرو۔ بھجن بھی گائو مندروں میں جا کر مورتیوں کے سامنے گیت بھی گائو، سنسکرت میں پی ایچ ڈی بھی کر لو، پھر بھی جب تک تمہارے نام مسلمانوں جیسے ہیں تمہیں برابر کے حقوق نہیں دیے جا سکتے۔ تم نجس ہی رہو گے! ملیچھ ہی کہلائو گے۔ تمہارا ایک ہی علاج ہے، وہی علاج جو ہسپانیہ کے نصرانیوں نے کیا۔ وہی علاج جو اسرائیل کے یہودی، مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔
تادم تحریر دھرنا جاری ہے۔ طلبہ اور طالبات فیروز خان کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ایک قلیل تعداد معقول بھارتیوں کی، پروفیسر کی حمایت کر رہی ہے جیسے معروف ایکٹر پریش راول! مگر یہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے۔ مسلمانوں کی حمایت کرنے والے ہندو اقلیت میں ہیں! حقیر اقلیت میں! اس اقلیت میں ہندو اور سکھ پروفیسر ہیں۔ شوبزنس کے مشاہیر ہیں۔ طلبہ ہیں۔ عام لوگ ہیں۔ مگر آر ایس ایس اور بی جے پی کے انتہا پسند بھارتی ایک تو تعداد میں بہت زیادہ ہیں دوسرے، یہ اکثریت جارح ہونے کے ساتھ ساتھ شورو غوغا بھی برپا کرتی ہے۔ چنانچہ یہ حقیر اقلیت جو مسلمانوں کی ہمدرد ہے، ایودھیا مسجد کو انہدام سے بچا سکی نہ گجرات کے ہولناک فسادات روک سکی۔ ہر ایسے موقع پر اس اقلیت نے انتہا پسندوں کو روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی! جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، سینکڑوں مسلمان گائے کے حوالے سے مار جا چکے ہیں۔ گھر جلائے گئے۔ اگر گائے بیچنے کوئی جا رہا ہے تو اسے بھی ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ آنے والے حالات خراب سے خراب تر ہیں۔ ادتیا ناتھ یوگی یو پی میں مسلمانوں کے ہر خرمن پر بجلیاں گرا رہا ہے اور اب امیت شاہ بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے!
اس اخبار کے صفحات گواہ ہیں کہ جب آسام میں نام نہاد "رجسٹریشن" کا کھیل شروع ہوا تو یہ کالم نگار تب سے دہائی دے رہا ہے۔ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے اور پاکستانیوں کو متوجہ کر رہا ہے کہ یہ کھیل صرف آسام تک محدود نہیں رہے گا یہ پورے بھارت پر محیط ہو گا!
اب بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے باقاعدہ اعلان کر دیا ہے کہ رجسٹریشن کا یہ نظام پورے بھارت پر نافذ ہو گا کہنے کو تو وزیر داخلہ نے کہہ دیا ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ جو اپنی شہریت "ثابت" کر سکیں گے ان کی رجسٹریشن کی جائے گی مگر ایجنڈا واضح ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کو غیر شہری قرار دیا جائے گا۔ جیسا کہ آسام میں انیس لاکھ مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا، پورے بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت کو کیمپوں میں رکھا جائے گا۔ ان کا حال وہی ہو گا جو بنگلہ دیش میں مقیم ان بہاریوں کا ہے جنہیں پاکستانی قرار دے کر بنگلہ دیش نے محصور رکھا ہوا ہے اور جنہیں پاکستان قبول نہیں کر رہا۔
سوال یہ ہے کہ بھارتی مسلمان یہ سب کچھ کب تک برداشت کریں گے؟ جمعیت علماء ہند نے کشمیر کے ایشو پر مودی کی ہاں میں ہاں ملائی ہے، اس کے زعما اس خیال میں ہیں کہ حکومت کی پالیسیوں کی غیر مشروط اطاعت کر کے وہ اپنا مستقبل محفوظ کر لیں گے۔ مگر فیروز خان کے واقعہ نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ بھارتی ہندو کو جتنا چاہیں خوش کرنے کی کوشش کریں بھجن گائیں، گائے سیوا کریں، مندروں میں جائیں، آپ کو پھر بھی مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔ پھر بھی آپ کے ساتھ امتیازی سلوک ہی روا رکھا جائے گا۔
وقت آ گیا ہے کہ بھارت کا مسلمان اٹھے اپنے آپ کو منظم کرے۔ خوشامد کی پالیسی ترک کرے۔ اسے وہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا جو فلپائن میں مورو نے اختیار کیا۔ اسے اپنا دفاع کرنا ہو گا۔ نوجوانوں کی زیر زمین تنظیمیں بنانا ہوں گی۔ اپنے ذرائع ابلاغ پیدا کر کے انہیں مستحکم کرنا ہو گا۔ دو ہی راستے ہیں ؎
دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے
یا تختہ جگہ آزادی کی، یا تخت مقام آزادی کا
ایودھیا کی مسجد سے لے کر گجرات کے قتل عام تک۔ شہروں کے نام بدلنے سے لے کر گائے کے نام پر مسلمانوں کے گھر نذر آتش کرنے تک۔ تمام مواقع پر بھارتی مسلمان دیکھ چکے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف تو دور کی بات ہے ذرہ بھر رعایت نہیں کی جا رہی کیا یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟ اگر بھارت میں مسلمانوں نے ختم ہی ہونا ہے تو چوہے کی موت مرنے کے بجائے شیر کی موت مرنا مسلمانوں کی روایت کے مطابق ہو گا!
بھارتی مسلمانوں کی کل آبادی کا تقریباً 47 فیصد حصہ تین ریاستوں میں رہ رہا ہے۔ اس 47 فیصد میں جموں اور کشمیر شامل نہیں جہاں مسلمان آبادی تقریباً 69 فیصد ہے۔ آسام میں مسلمان 34 فیصد ہیں۔ مغربی بنگال میں 27 فیصد، کیرالہ میں 26 فیصد۔ یو پی میں تقریباً 20 فیصد، بہار میں سولہ فیصد اور جھاڑ کھنڈ میں 14 فیصد ہیں۔ اترکھنڈ، کرناٹک اور دہلی میں بھی بارہ بارہ فیصد ہیں۔ دیگر ریاستوں میں آبادی اس سے کم ہے۔ مجموعی طور پر مسلمان 2011ء کی مردم شماری کے لحاظ سے 14.2 فیصد ہیں۔ کل آبادی ساڑھے سترہ کروڑ ہے۔
کیا یہ سترہ کروڑ مسلمان اپنے آپ کو ہسپانوی مسلم اور فلسطینی بننے کی اجازت دیں گے ع
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی