کہا جاتا ہے جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، تاریخ انہیں اس طرح روندتی ہے کہ بعد میں بس المناک یادیں رہ جاتی ہیں۔ افسوس کہ ہمارے آج کے حکمراں تاریخ سے سیکھنا تو کیا، اتنی فرصت بھی نہیں رکھتے کہ اُن اوراق کو الٹیں جب ہم 70ء کی دہائی میں اپنی سیاسی تاریخ کے ایک ایسے سانحے سے گذرے کہ جس نے بانی ِ پاکستان قائد اعظمؒ کے پاکستان کو ہی دو لخت کردیا۔ میں ان بزعم خود سرخیل اینکروں اور خودسر کالم کاروں میں شامل نہیں۔۔۔ جو ہر المیے اور بحران کے پیچھے پنڈی، آب پارہ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور اس طرح سیاستدانوں کو معصوم اور مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔۔۔
پہیلیاں بجھانے کے بجائے، صاف بات یہ ہے کہ تحریک ِ انصاف کے قائد عمران خان اور اُن کیساتھ آزمودہ کار نائبین شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین بھی آج اسلام آباد کے تخت پر بیٹھنے کے باوجود اتنے بے بس اور بے اختیار کیوں ہیں؟ تمہید طویل ہوگئی۔ مگر انگریزی کے ایک معتبر جریدے گلوبل ولیج اسپیس، میں بنگلہ دیش کے سابق سفیر افراسیاب مہدی کی ایک ایسی پراثر اور مستند تحریر پڑھ کر احساس ہوا کہ سویلین اور فوجی حکمرانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سن 1970ء میں پہلی بار سویلین اور فوجی حکمرانوں کو یہ موقع ملا تھا کہ وہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب پارلیمنٹ کو اقتدار سونپ کر 23سال بعد ہی سہی، ایک نئے، آزاد جمہوری پاکستان کی بنیاد رکھتے۔ مگر افسوس کہ اُس وقت کے تینوں بڑوں، یعنی آرمی چیف جنرل یحییٰ خان، سویلین یعنی منتخب سیاسی رہنما پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور ایک حد تک بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن اپنی انا اور اپنے مفادات کی بھینٹ تو چڑھے ہی، مگر وطن ِ عزیز کو بھی خون میں نہلا گئے۔
سن 1970ء میں اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر سازشوں کے باوجود جو پہلے انتخابات ہوئے، اُن میں دونوں حصوں کے عوام نے اپنے ووٹو ں سے جو فیصلہ دیا، اگر اُسے تسلیم کرلیا جاتا تو نہ تو مشرقی بازو ہم سے علیحدہ ہوتا، اور نہ ہی چاروں صوبوں پہ مشتمل بچا کھچا پاکستان آج، 2020ء میں، وہاں کھڑانظر آتا کہ جس کا مستقبل بدقسمتی سے سوالیہ نشان بناہوا ہے۔۔۔
تاریخ سے لڑنے والے اس بات سے ناواقف ہوتے ہیں کہ اس کا اپنا انتقام ہوتا ہے۔ جنرل یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو۔۔۔ جن کے ہاتھ میں پہلے منتخب پاکستان کا مستقبل تھا، ایک معتدل راہ تلاش کرنے کے بجائے اپنی اپنی خواہشوں اور مفادات کے لئے ایک دوسرے سے دست وگریباں ہوگئے۔ مگر یہ بھی کتنا بڑا تاریخ کا انتقام ہے کہ اگر وطن ِ عزیز ٹوٹا اور خون میں نہلایا گیا تو اس سانحے کے تینوں کرداروں کا انجام بھی عبرتناک ہوا۔ سب سے پہلے ذکر یحییٰ خان اور اس کے ٹولے کاکروں گا۔ ہمارا ایک حلقہ بڑے فخر و انبساط سے یہ ذکر کرتا ہے کہ یحییٰ خان کرپٹ نہیں تھا۔ پاکستان کے صدر اور کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کا چیئر مین ہونے کے باوجود اسلام آباد میں اس کا کوئی بنگلہ نہیں تھا۔ اُن کے صاحبزادے کو اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لئے ملازمت کے لئے کسی اور نہیں ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے دست ِ سوال درازکرنا پڑا۔ کیا محض کرپٹ نہ ہونے اور ایک بنگلہ نہ لینے کے سبب یحییٰ خان کے اس جرم کو معاف کردیا جائے کہ جب مشرقی پاکستان میں فوج کشی ہورہی تھی تو اُن کا ایوانِ صدر حرم بنا ہوا تھا۔ فقیر اعجاز الدین نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ انہیں اس وقت یحییٰ خان کے صاحبزادے کی شادی میں شرکت کا موقع ملا تو ایک وسیع ہال میں جنرل یحییٰ خان ایک بڑے سے صوفے پہ براجمان تھے اور ان کے ارد گرد جنرلوں کا جمگھٹا ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور انتظار ہورہا تھا ملکہ ترنم نور جہاں اور اقلیم اختر رانی، کا، جنہیں ہمارے جنرل یحییٰ خان نے اپنے تعلق سے "جنرل رانی" کا اعزاز دے رکھا تھا، باجوں تاشوں کے ساتھ ملکہ ترنم نے رات گئے تک اپنے سریلے سروں سے سماں باندھ دیا۔ پھر آپ یقین کریں گے کہ جنرل یحییٰ خان نے اپنے کمانڈروں کو حکم دیا کہ وہ اپنے جلو میں لے کر ملکہ ترنم کو گاڑی میں بٹھا کر آئیں۔۔۔
اتنا بڑا المیہ ہے کہ جن کو وطن ِعزیز کو دو لخت ہونے سے بچانے کے لئے محاذ ِ جنگ پہ ہونا تھا، وہ ایک گلوکارہ کی مصاحبی میں مصروف تھے۔
کیا جنرل یحییٰ خان کے اس گناہ ِ عظیم کو معاف کیا جاسکتا ہے؟ مگر، ہوا کیا۔۔۔ گمنامی میں دفنایا تو پورے اعزاز ہی کے ساتھ۔ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں اگر یحییٰ خان کو درس ِعبرت بنادیا جاتا تو شاید کوئی دوسرا مستقبل میں مہم جوئی کرنے کی جرأت نہ کرتا۔
یحییٰ خان کے ساتھ اُن کے ٹولے کے سرکردہ افراد نے بھی کچھ کم جرائم نہ کئے۔ افسوس کہ ان میں سے ایک جنرل کے دو صاحبزادگان جن میں سے ایک ن لیگ کے گورنر ہوئے اور دوسرے تحریک انصاف کے وفاقی وزیر ہیں۔۔۔ آج بھی بڑے فخر سے اپنے اپنے ڈرائنگ روموں میں اپنے والد کی تصویر یں سجائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں کہ وہ کتنے بڑے باپ کے بیٹے ہیں۔ اور ہاں، 70ء کے المیے کے سب سے اہم کردار جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو تو بھول ہی گیا۔۔۔
15دسمبر کی شام تک جنرل نیازی اپنے ہاتھوں میں چھڑی لئے للکار رہا ہوتا تھا کہ ہم آخری سپاہی تک لڑیں گے۔ مشرقی پاکستان کے دور دراز علاقوں میں آخری سپاہی تو آخری وقت تک لڑتے رہے، مگر ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالتے ہوئے آج بھی اس تصویر پر نظر ڈالی جائے کہ جس میں جنرل نیازی کے چہرے پر دکھ کی ایک رمق بھی نظر نہیں آتی۔۔۔
70ء کے المیے کے دوسرے بڑے کردار بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار اور پھر انجام کے لئے ایک الگ مضمون باندھنا پڑے گا جس کے لئے اگلے کالم میں انتظار کریں۔۔۔ (جاری ہے)