جس طرح تاریخ کا اپنا انتقام ہوتا ہے کہ جو اُس سے سیکھتے نہیں اُسے وہ روند دیتی ہے۔ اس حوالے سے میں برصغیر پاک و ہند کے ان اہم کرداروں کا ذکر کررہا تھا جو تقسیم ِ ہند کے بعد پاکستان کو دولخت کرنے کے محرک بنے۔ اسی طرح کہاجاتا ہے کہ انقلاب اگر خونیں ہو تو سب سے پہلے وہ اپنے بچوں کو نگل جاتا ہے۔ اگر برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بانی ِ پاکستان قائد ِ اعظم محمد علی جناح اور جدید بھارت کے بانی وزیر اعظم جواہرلال نہرونے بھی ایک طویل لڑائی انگریزوں کے خلاف لڑی۔ لیکن انہوں نے کبھی تشدد اور انتقام کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس لئے ان دونوں اپنے اپنے ملکوں کے عظیم رہنماؤں کی طبعی موت ہوئی۔
اس کے مقابلے میں سن1970ء میں جب پاکستان دو لخت ہواتو ان کے تین اہم کردار یعنی جنرل یحییٰ خان، بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو کا انجام کو بھی ایک Greek Tragedy کا ہی نام دیا جائے گا۔ اور ہاں، گزشتہ کالم میں پاکستان کے دولخت کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا تو ذکر ہی رہ گیا۔ جس پر معذرت کہ پاکستان کو تقسیم کرنے اورپھر اس المیئے میں لاکھوں عوام کا خون بہانے میں مسز اندرا گاندھی کے ہاتھ بھی پورے پورے رنگے ہوئے تھے۔
جنرل یحییٰ خان کا میں گزشتہ کالم میں ذکر کر چکاہوں۔۔۔ کہ آج اس جنرل کی آل اولاد کا نام و نشان ہی نہیں ملتا۔ اور اگر وہ ہونگے بھی تو اس لئے گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوں گے کہ کہیں اس بات کا سراغ نہ لگ جائے کہ ان کا اس جنرل سے کوئی تعلق بھی تھا کہ جو سقوطِ ڈھاکہ کے وقت سرمستی و سرشاری کی نیند میں ڈوبا ہوا تھا۔
بھارتی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی نے خود اپنے وطن ِ عزیز میں ہنگامی حالت کے نفاذ اور ہزاروں سکھوں کو کچلنے میں جو سفاکانہ کردار اد ا کیا سو کیا، مگر انہیں اس بات سے پوری آگاہی تھی کہ ڈھاکہ میں بھارتی فوجیں داخل ہوں گی تو لاکھوں بے گناہوں کا خون بھی بہے گا۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جواہر لال نہرو کی بیٹی کا قتل انہی کے محافظوں نے کیا۔ اور اُس سے بھی بڑھ کر یہ ان کے دونوں بیٹوں، سنجے اور راجیو گاندھی کی موت بھی ایک المناک سانحہ تھی۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت کروڑوں بنگالیوں کے دلوں پر راج کرنے والے بنگلہ بندھو صرف چار سال بعد ہی بنگالی عوام میں اتنے غیر مقبول ہوگئے تھے کہ جب فوجیوں کے ایک گروہ نے ان کی رہائش گاہ دھان منڈی میں ان کے خاندان کے 18 افراد کے ساتھ گولیوں سے چھلنی کیا، تو 48 گھنٹے تک بے گور و کفن ان کی لاش پڑی رہی۔
بنگلہ دیش میں سابق سفیر افراسیاب مہدی اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ جن فوجیوں نے شیخ مجیب کو براہ راست گولیوں سے چھلنی کیا، وہ انہیں پہچانتے نہیں تھے۔ 15 اگست کی صبح پھوٹی نہیں تھی۔ شیخ مجیب سمیت سارا خاندان برآمدے میں جب شور اٹھا تو نیچے اٹھ کر آیا۔
شیخ مجیب کے منہ میں حسبِ روایت پائپ تھا۔ جو اُن کی روح پرواز کرجانے کے بعد بھی ان کے ہونٹوں میں جما رہا۔ اور پھر ان فوجیوں کی سفاکی دیکھیں کہ آزادی دلانے والے بنگلہ بندھو کے چہرے کو انہوں نے بوٹوں سے کچلا۔ ڈھاکہ میں اُس وقت بھی عوامی لیگ کے ہزاروں کارکن تھے۔ خاص طور پر ڈھاکہ یونیورسٹی میں بھی عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم کی یونین تھی۔ مگر خوف اور دہشت کے سبب 48 گھنٹے تک کسی نے مردہ بنگلہ بندھو کی آخری رسومات کے لئے ان کے گھر کا رخ نہیں کیا۔ اور پھرفوجیوں کے ہی ایک گروپ نے انہیں ان کے آبائی گاؤں "سنتوش" لے جاکر دفن کیا۔
نماز ِ جنازہ پڑھانے والوں کی تعداد درجن بھر بھی نہیں تھی۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی بھیانک ہلاکت کے بعد خود عوامی لیگ قائدین میں سے کبھی ایک تو کبھی دوسرا فوجیوں کے گروپ سے گٹھ جوڑ کرکے اقتدار میں آجاتا۔ اور پھر یہ بھی المیہ دیکھیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل کے بعد بنگلہ دیش کے پہلے وزیر اعظم تاج الدین احمد، نائب سید نذرالاسلام اور عوامی لیگ کے دو بڑے منصور علی اور قمرالزماں کا انجام بھی شیخ مجیب الرحمٰن سے کچھ مختلف نہ تھا۔ چاروں کو ایک ہی سیل میں رکھا گیا۔ اور پھر انہیں اسی کال کوٹھڑی میں انتہائی سفاکی سے گولیوں سے بھون دیا گیا۔
شیخ مجیب اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے بعد بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ لڑنے والی مکتی باہنی کے سربراہ جنرل ضیاء الرحمٰن جو سن 1977ء سے 1981ء تک بنگلہ دیش کے صدر رہے، تاریخ کا المیہ دیکھیں کہ چٹاگانگ میں ان کا قتل بھی ان کے فوجی افسران کے ہاتھو ں ہوا۔ اور وہ بھی اس جگہ جہاں سے انہوں نے پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کر کے آزادی کا اعلان کیا تھا۔ جنرل ضیاء الرحمٰن کے بیٹے عرفات رحمٰن کی بھی محض 24سال کی عمر میں پراسرار حالت میں انتقال ہوا۔ یقینا بنگلہ دیش کی سیاسی تاریخ نے کروٹ بدلی۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی صاحبزادی شیخ حسینہ واجد اپنے والد کے قتل کے وقت جرمنی میں تھیں، جس کے بعد وہ دہلی منتقل ہوگئیں۔
اور پھر یقینا یہ دہلی سرکا ر ہی تھی کہ جس کے کاندھوں پر سوار ہوکر شیخ حسینہ ڈھاکہ لوٹیں۔ اور اس بات کا اعتراف کرنے میں حرج نہیں کہ نوجوان شیخ حسینہ نے اپنے والد کی سیاسی وراثت کو زند ہ بھی کیا اور ان کے قاتلوں کو انجام تک پہنچایا۔ گذشتہ ایک دہائی سے وہ ووٹ کے ذریعے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بنتی رہی ہیں۔ جنرل ضیاء الرحمٰن کی بیوہ خالدہ ضیاء جو ایک غیر سیاسی خاتون تھیں، بہر حال عوامی لیگ مخالفین کو ایک پرچم تلے لاکر نہ صرف ایک مقبول سیاسی رہنما بنیں بلکہ بعد میں انہیں دوبار وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو اور پھر ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو اور پھر ان کے دونوں بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو جس المناک انجام سے گذرے، اُس پر بہت کچھ لکھا بھی جاچکا ہے اور اسے دوبارہ رقم کرتے ہوئے انگلیاں کانپ اٹھتی ہیں۔
آج بھٹو کی پارٹی کے جو وارثان ہیں، اُن کے بارے میں زیادہ تفصیل سے نہیں لکھوں گا۔ محترم آصف علی زرداری شدید بیمار ہیں۔ نوجوان بلاول بھٹو، آصفہ او ر بختاور بھٹو پاکستانی سیاست میں بتدریج مقام حاصل کرنے کی جنگ لڑرہے ہیں۔
کم از کم میری روایت اور تہذیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ذوالفقارعلی بھٹواور بے نظیر بھٹو کی سیاست اور پالیسیوں سے لاکھ اختلاف کے باوجود ان کے کارنامے، اُن کی خامیوں سے زیادہ بڑے ہیں۔ اور پھر اسی سبب، بھٹو کے نواسے نواسیاں اور بے نظیر بھٹو کے بیٹے اور بیٹیوں کے بارے میں اسلئے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا کہ کم عمری میں وہ جس المیئے سے گذرے اُس کے بعد اُن کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے محض نیک خواہشات اور دعا ہی کرنی چاہئے۔
ابتداء میں لکھا تھا کہ آج کے حکمراں کیا ماضی کی تاریخ سے کچھ سیکھیں گے؟ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ہمارے کپتان وزیر اعظم اور ان کی ٹیم جو کررہی ہے، اُس پر معذرت کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ انہوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ تو پھر انہیں تیار رہنا چاہئے کہ جو تاریخ ان سے انتقام لے گی۔