سرور ؔبارہ بنکوی یاد آرہے ہیں۔ تھے تو روایتی غزل کے شاعر مگر ستّر کی دہائی میں جب محنت کشوں کی تحریک تھی تو ہمارے مطالبے پر سرور ؔ صاحب نے یوم ِ مئی کے مشاعرے کے لئے، جو نظم پڑھی وہ آج بھی مصرعہ بہ مصرعہ یاد ہے۔۔۔
آج مئی کا پہلا دن ہے
آج کا دن مزدور کا دن ہے
سرور ؔ صاحب خوبصورت لہجے کے شاعر تو تھے ہی مگر فلم ڈائریکٹر اور اس سے بھی زیادہ نہایت نفیس انسان تھے۔ ڈھاکہ میں کئی یاد گار فلمیں بنائیں۔ ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کے افسانے پر فلم "آخری اسٹیشن " بنائی۔ ہیروئن اداکارہ شبنم تھیں۔ مشرقی پاکستان میں بڑ ی شاہانہ زندگی گذارتے تھے۔ مگر سقوط ِ ڈھاکہ کے بعد جب اردو زبان ہی کا بنگلہ دیش میں کوئی مستقبل نہ رہا تو اردو فلمیں کس کے لئے بنائی جاتیں۔۔۔ سقوط ِ ڈھاکہ کے بعد کراچی آبسے۔ بڑی تگ و دو کی۔ ایک مشہور اشتہارکمپنی کے مالک کے سرمائے سے فلم بنانا چاہتے تھے کہ گھر کا چولہا بھی جلتا رہے اور فلم سے جو جنون تھا اُس کی تسکین بھی ہوتی رہے مگر اللہ اُس اشتہاری کمپنی کے مالک کومعاف کرے، سرورؔصاحب جیسے وضع دار، مہذب شاعر اور اُس سے بڑھ کر نفیس انسان سے ایسا ناروا سلوک کیا کہ ہارٹ اٹیک سے منٹوں، سیکنڈوں میں خالق ِ حقیقی سے جا ملے۔ ہئے ہئے، چالیس برس تو ہونے کو آرہے ہیں۔ جب بھی یاد آتے ہیں تو دل بیٹھ سا جاتا ہے۔ سرورؔ صاحب اُن لوگوں میں سے تھے کہ
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شائد نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں اُن کی وفات کا دن تو یاد نہیں رہتا۔ مگر ہر سال یکم مئی کو وہ اپنی نظم سے یاد آتے ہیں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔۔۔ آج مئی کا پہلا دن ہےشکاگو کے محنت کشوں کا یہ دن۔۔۔ اشتراکی روس کی حیاتی تک تو یہ دن دنیا بھر میں بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ ساری دنیا کی طرح ہزاروں محنت کش سرخ جھنڈے لہراتے ہمارے ملک میں بھی مارچ کرتے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں "یکم مئی " کو تعطیل کا دن قرار دیا گیا تھا کہ فیکٹریوں کا رخانوں، کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنے والے ہاری، مزدور۔۔۔ اسے جشن کے طور پر منائیں۔ مگر اشتراکی روس کے خاتمے اور ماؤزے تنگ کے چین کے سرمایہ دار ملک بننے کے بعدسال بہ سال "سرخ جھنڈوں " کی تعداد کم ہوتی گئی۔
ساری دنیا میں بچے کھچے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سوشلسٹ اور مزدور تنظیمیں اب بھی "یوم مئی " تو مناتی ہیں۔۔۔ مگر اب یہ محض ایک دم توڑتی رسم رہ گئی ہے۔ نہ وہ پہلی جیسی مضبوط ٹریڈ یونین۔۔۔ کہ اگر کسی ایک ادارے سے ایک مزدور یا محنت کش کو غیر قانونی طور پر نکالا جاتا تو اُس ادارے پر تالا لگ جاتا۔ برطرف ہونے والے مزدور کی حمایت میں ایسا دھرنا اور احتجا ج ہوتا کہ نکالے جانے والے مزدور گلے میں پھولوں کا ہار ڈال کر سرخ پھریرا لہراتے نوکری پر واپس آتے۔ خود کراچی میں، میں نے پاکستان اسٹیل مل، پورٹ قاسم، ولیکا ٹیکسٹائل مل، مشین ٹول فیکٹری اور ہاں پی آئی اے کی ٹریڈ یونین کو اپنے مطالبوں کی حمایت اور اپنے ساتھیوں کی ناجائز برطرفی کے خلاف ہڑتالیں کر تے دیکھا ہے۔ جس کا اختتام حکومت اور مالکان کے گھٹنے ٹیکنے پر ہوتا تھا۔ دور کیوں جائیں، ہمارے سامنے ہی دیکھتے ہی دیکھتے ٹریڈ یونینز لمیٹڈ کمپنیاں اور ان کے قائدین اسکوٹر سے پجیرو اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں آگئے۔ اسی دور میں ایک مقبول ٹریڈ یونین لیڈرکی ایک وسیع و عریض پارک میں شادی کا ولیمہ ہوا۔ دس ہزار سے زیادہ تومہمان ہوں گے ہی۔ وہ جو ایسے موقعوں پر گلابی لفافوں میں سو، دو سو روپے دئیے جاتے تھے۔ اُسے دینے کے لئے ایک لمبی قطار لگی تھی۔ اور لفافے میں بھی کم سے کم ہزار کے چار پانچ نوٹ تو ہوں گے ہی۔
نظریہ چاہے left کا ہو یا right کا، اگر سیاسی جماعتوں، محنت کش تنظیموں سے نکل جائے تو اُس کا جو حشر ہوتا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ کراچی اور لاہور کی ٹریڈ یونین کے گڑھ جو ہوتے تھے، ان کی تنظیم اور قیادت سے سرمایہ دار کانپتے تھے۔ سیاسی جماعتیں خاص طور پر لیفٹ کی پاکستان پیپلز پارٹی اور رائٹ کی جماعت اسلامی کی تنظیم سازی بھی محلے، گاؤں کی سطح پر تھی۔ آج یہ تنظیمیں کہاں کھڑی ہیں۔ اُس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا۔ جوخود تار تار ہوچکا ہے۔۔۔
رکھیوں غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
کورونا تو خیر ایک ناگہانی آفت ہے۔ جس نے ساری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ جیسی سپر پاور نے اعلان کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں 2کروڑ 20لاکھ ملازمتیں ختم ہوجائیں گی۔ برٹش ایئر ویز نے 36 ہزار ملازموں کی چھانٹی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کے دعویدار بھارت کے میڈیا اسکرینوں پر دکھارہا ہوتا ہے کہ ہزاروں غریب، محنت کش اپنا سامان سرپر اٹھائے، اپنے بچوں کی انگلیاں پکڑے، اپنے اپنے آبائی گھروں کو لوٹ رہے ہیں، کہ بڑے شہر روزگار اورر چھتر چھا یہ دینے سے قاصر ہیں۔ کورونا وائرس کے آغاز ہی میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں ہی کہہ دیا تھا کہ وہ لاک ڈاؤن سے زیادہ بے روزگار ی اور بھوک سے خوفزدہ ہیں کہ پاکستانی معیشت دس کروڑ دیہاڑی، یعنی روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں کی کفالت رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ گھنٹوں کے حساب سے حکومتی ترجمان اسکرینوں پر کورونا وائرس کے اعداد و شمار اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ حکومت معاشی سدھار اور کاروبار کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بے روزگار وں کے لئے کیا اقدام اب تک اٹھا چکی ہے۔ اور مستقبل میں کیا کیا پُر کشش منصوبے رکھتی ہے۔۔۔
آج یکم مئی یعنی یوم ِ مزدورکے دن سارے ہی اخبارات کے صفحہ ٔ اول پر وہ تصویر دیکھ رہا ہوں جس میں پھاؤڑے، کدال اور بُرش پکڑے بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنے، بے روزگار قطار در قطار بیٹھے تھے۔ محترم وزیر اعظم کا آج ہی بیان پڑھ رہاتھا۔۔۔ ایک لاکھ دیں، چارلاکھ حکومت شامل کرکے معیشت اور روزگار صحت مند رکھے گی۔ محترم وزیر اعظم صاحب اس سے کتنا آپ جمع کرلیں گے، سو کروڑ، ہزار کروڑ۔۔۔؟ خود آپ کے وزیر شیخ رشید کا فرمانا ہے کہ انرجی سیکٹر میں 6ہزار کروڑ کی کرپشن ہوئی ہے۔ آپ کی سول انتظامیہ سے تو نہیں ہوسکے گا۔ شیخ رشید نے جن پر الزام لگا یا ہے انہیں ملٹری کورٹ میں الٹا لٹکا دیں۔ دنوں نہیں، گھنٹوں میں پورے نہیں آدھے تو آجائیں گے۔ مگر آپ ایسا نہیں کریں گے کہ ان میں سے بیشتر آپ کے دائیں، بائیں بیٹھے ہیں۔