سیاسی جماعتوں اور جمہوری اداروں پر کرپشن سمیت نا اہلی اور اقرباء پروری کے کتنے ہی الزامات لگائے جائیں، خوش آئند بات ایک تو یہ ہے کہ 2008ء اور 2013ء کی پی پی -ن لیگ کی حکومتوں نے اپنی اپنی مدتیں پوری کرلیں۔ تبدیلی سرکار یعنی تحریک انصاف کی حکومت بھی اپنی کمزوریوں اورخامیوں کے باوجود اپنی مدت پوری کرتی ہی نظر آتی ہے کہ اول تو اپوزیشن جماعتیں اُس اسٹریٹ پاور سے محروم ہوگئی ہیں جس پر "امپائر" کی خواہش اقتدار پر چھلکنے لگتی تھی۔ اُس سے بھی اہم تبدیلی یہ کہ اب وہ "مقدس گائے " نہیں ہیں۔۔۔ کہ جن پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں گفتگو کرنا ایک زمانے میں شجرِ ممنوع ہوتا تھا۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور پھر ایک حد تک جنرل پرویز مشرف کے دور کی تاریخ میں نہیں جاناچاہتا۔۔۔ ایک جنرل کو ریٹائرمنٹ کے بعد جب واہگہ پر ایک ارب 40 کروڑ روپے کی بارانی زمین ملی تو اس پر خبر بھی چھپی اور اس کے ترجمان ادارے کو وضاحت بھی کرنی پڑی۔
یہ ساری تمہید اس لئے باندھی کہ ان دنوں سپریم کورٹ کے جج محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شہ سرخیوں اور بریکنگ نیوز میں ہیں۔ سپریم کورٹ میں ہونے والی کارروائی کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ ہورہی ہے۔ اگر ہمارے محترم جج آئین کا حوالہ دیتے ہوئے حکومتی کونسل سے پوچھتے ہیں کہ "کس قانون کے تحت جج اپنے اثاثے ظاہر کریں "۔۔۔ تو حکومتی وکیل جو جوابی دلائل دیتے ہیں، وہ بھی شہ سرخی اور بریکنگ نیوز بنتے ہیں۔ تاہم عدلیہ ہی نہیں ریاستی و حکومتی امور کے حوالے سے بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر سیاستدانوں، تاجروں، صحافیوں، منتخب ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری افسروں کا احتساب ہوسکتا ہے۔ اوروہ سال بہ سال اثاثوں کی تفصیل جمع کرانے کے پابند ہوتے ہیں۔ تو ہمارے محترم اداروں سے وابستہ افراد بھی آئینی او ر قانونی طور پر اس کے پابند کیوں نہیں، جبکہ وہ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی طرح ریاست کی سب سے اونچی اور مقدس کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ کو تو اس بات کاکریڈٹ جائے گا ہی کہ انہوں نے اپنے اور اپنی اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ظاہر کئے اور پھر اسی بنیاد پر صدر ِ مملکت نے اُن کے خلاف ایک ریفرنس بھیجا۔۔۔ جسے سیاسی حلقے خاص طور پر اپوزیشن بددیانتی پر مبنی قرار دے رہے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ کیس یوں بھی ان دنوں زیر سماعت ہے۔ اس لئے اس پر گفتگو آئندہ کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ مگر یہ بھی تو اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ماضی میں ہمارے سیاست دانوں کا کردار بھی تو کوئی مثالی نہیں رہا۔۔۔ جب بھی جمہوری اداروں کا بسترا بوریا لپیٹا۔ ہماری معزز عدالتوں نے اس پر مہر ثبت کی۔ محترم جسٹس منیر کے تاریخی فیصلے پر تو بعد میں بات ہوگی۔ مگر اس وقت تو قائد اعظم کے دست راست لیاقت علی خان، بانی ٔ پاکستان مسلم لیگ صدر اور وزیر اعظم تھے۔ جب راولپنڈی سازش کیس کی سماعت کھُلی عدالت میں جیل کی چار دیواری میں ہوئی۔ اُس سے پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں مگر محض یادداشت تازہ کرنے کے لئے اس سازش کیس میں 16ایسے سینئر فوجی افسران شامل تھے جنہوں نے 1948ء کی تحریک ِ آزادی ٔ کشمیر میں حصہ لیا تھا۔ ساتھ ہی اس کے سرخیلوں میں ہمارے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیضؔ شامل تھے۔ آئینی قوانین سے بالا جو ٹریبونل بنا اُس کی سربراہی کوئی اور نہیں بلکہ جسٹس ایس اے رحمٰن جیسے پائے کے جج کررہے تھے۔ اور ہاں وکیل صفائی ہمارے سابق وزیر اعظم، ممتاز قانون دان حسین شہید سہروردی تھے۔ حیدر آباد جیل میں جب پنڈی سازش کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو۔۔۔ فوجی ملزمان میں سے ایک میجر محمد اسحاق جو بعد میں نیشنل عوامی پارٹی کے بانیوں میں شامل تھے۔ کھڑے ہوکر سوال کرتے ہیں "جج صاحب، میں ایک فوجی ہوں، میرا مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلنا چاہئے۔ جسٹس رحمٰن اس پر اپنے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔
بہر حال اس سازش کیس پر جیسا کہ کسی کو سزائے موت اور قید بامشقت نہیں ہوئی، سارے ملزمان کو چار سے چھ سال کی سزائیں دی گئیں۔ اس کیس کے حوالے سے فیض ؔ صاحب کے اس شعر نے بعد میں بڑی شہرت پائی :
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
مگر عدلیہ کی تاریخ میں جس کیس نے پاکستان کی سیاسی و جمہوری تاریخ کے تابوت میں پہلی کیل ٹھونکی اور جو ہمارے عدلیہ کی پہلی آزمائش تھی۔۔۔ پہلی دستور ساز اسمبلی کو گورنر جنرل غلام محمد کا پہلی دستور ساز پارلیمنٹ کا توڑنا تھا۔ اورپھر اُس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس منیر کا مہر ثبت کرناتھا۔ یہ ایک ایسا تاریخی کیس ہے، جس پر ذرا تفصیل سے گفتگو کرنا ضروری ہے کہ اس نے بعد کے برسوں میں آنے والے فوجی ڈکٹیٹروں کے لئے اس بات کی راہ ہموار کردی کہ وہ نہ صرف پارلیمنٹ توڑ سکتے ہیں بلکہ جسٹس منیر کیس کے حوالے سے اعلیٰ عدالتیں اس بات کی پابند بھی ہوگئیں کہ وہ غاصب حکمرانوں کے انداز ِ حکمرانی کی راہ میں حائل نہ ہوں اور جتنی مدت چاہیں، اپنی مرضی سے حکمرانی کریں۔ جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور ہاں جنرل پرویز مشرف کم و بیش دہائی دہائی اوپر حکومت کی۔ کوئی مائی لا ل ان کا "بال بھی بیکا" نہیں کرسکا۔ دہائی بعد جب ان کا اقتدار ختم ہوا تو اُس کی الگ الگ وجوہ تھیں۔
بات جسٹس منیر کیس کی ہورہی تھی۔ 1954ء میں ذہنی طور پر بیمار گورنر جنرل غلام محمد نے پارلیمنٹ کو بیک جنبش ِ قلم برطرف کردیا اوراس پارلیمنٹ کے اسپیکر مرحوم مولوی تمیز الدین خان نے اس کی برطرفی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کردی، عدالت نے اس برطرفی کو غلط قرار دے دیا جس پر بعد ازاں حکومت نے فیڈرل کورٹ کا رخ کیا اور وہاں اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کردی، جس پر اس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر نے سندھ چیف کورٹ کے مذکورہ فیصلہ کو رد کرتے ہوئے گورنر جنرل کی جانب سے اسمبلی کی برطرفی کے اقدام کو جائز قرار دے دیا۔ اس فیصلہ نے ہمارے ریاستی نظام میں ایک ایساشگاف ڈالا جو آج تک پُر ہونے میں نہیں آرہا، اس فیصلہ نے اصلاً انتظامیہ کو لامتناہی اختیارات تفویض کردئیے اور شخصی آمریت کے قیام کی ایک ایسی راہ ہموار کردی، جو بعد میں آمروں نے اختیار کئے رکھی۔ (جاری ہے)