اب صاحب ِ انصاف ہے خود طالب ِ انصاف
مہر اُس کی ہے میزاں بدستِ دگراں ہے
شاعر ِ بے مثال فیض احمد فیض ؔ نے یقینا یہ شعر اپنی اسیری کے دوران لکھا ہوگا۔۔۔ کہ جب وہ اپنے اوپر عائد مقدمے کی سماعت کے دوران فیصلے کے منتظر ہوں گے۔ آفاقی شاعر زماں و مکاں سے آگے، مستقبل میں برسوں نہیں، صدیوں بعد کی پیشن گوئی کررہے ہوتے ہیں۔۔۔
گزشتہ کالم میں جب فیضؔ صاحب کے اس مصرعے کو محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے موضوع بنا رہا تھا تو اس بات کی قطعی امید اور توقع نہیں تھی کہ محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ پر اثاثے ظاہر نہ کرنے کے ریفرنس میں بڑے پائے کے وکیل اور سپریم کورٹ کے سابق صدر منیراے ملک کو ڈائس سے ہٹا کر خود اعلیٰ عدالت کے رو بہ رو کھڑے ہو کر اپنا اور اپنی اہلیہ کا دفا ع کررہے ہوں گے۔
سیاست، صحافت اور ہاں، عدلیہ کی تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے جتنا میرا علم ہے، پھر بھی "غالباً" اور" شائد "کا لاحقہ لگا دیتا ہوں کہ کبھی کوئی جج اور وہ بھی محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پائے کا جج، جو انصاف کی اونچی کرسی پر بیٹھا ہے۔ جج کا چوغہ اتار کر وکالت کا کالا کوٹ پہن کر نہ صرف اپنی صفائی پیش کررہا ہوگا کہ مجھ پر اور میری اہلیہ پر تو لندن میں فلیٹ ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے، مگر اُن پر الزام لگانے والے بیرسٹر شہزاد اکبر کے بھی لندن میں چار، چار فلیٹ ہیں۔
منگل کی صبح قاضی صاحب فائز عیسیٰ کے پیش ہونے کے بعد اگر عدالتی کارروائی اس انتہائی ڈرامائی سین کے بعد ختم ہوجاتی تو۔۔۔ اتنا بڑا عدالتی ہنگامہ نہ ہوتا کہ اگلے دن محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اسپینش نژاد اہلیہ نے اپنے ویڈیو خطاب میں بیان دیا تو بدھ کو سپریم کورٹ کی دس رکنی بینچ پہ بھری عدالت میں سکتہ چھا گیا۔۔۔۔
سپریم کورٹ کی سیاسی تاریخ میں شاہراہ دستور نے بڑے بڑے ہنگامے دیکھے ہیں۔ اسی کمرہ ٔ سماعت میں مسلم لیگیوں نے اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ پر حملہ بھی کیا تھا۔۔۔ جو عدالتی تاریخ میں ہمیشہ سیاہ لفظوں میں لکھا جائے گا۔۔۔ اس بدقسمت قوم اور ملک کی بدقسمتی کہ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے چند برسوں بعد جمہوریت کی مہربانی سے اقتدار میں بھی آجاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ تاریخ کم از کم وطن ِ عزیزمیں ضرور اپنے آپ کو دہراتی ہے۔
سترہ سال بعد سپریم کورٹ کے اسی کٹہرے میں سپریم کورٹ پر حملہ کروانے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو عمر بھر کے لئے سیاست سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ اور تاریخ کا المیہ دیکھیں کہ اس سانحے میں اُن کے لاکھوں حامیوں کی اتنی تعداد بھی جمع نہ ہوئی کہ پولیس سے دھینگا مشتی میں کسی کی نکسیر بھی پھوٹتی۔۔۔
یہ لیجئے۔۔۔ پھر بھٹک گیا۔ یوں تو گزشتہ کالم میں جسٹس منیر کی دستور ساز اسمبلی کے توڑنے کا فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے ان تاریخی عدالتی فیصلوں کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہ رہا تھا کہ اگر ریاست کے اس سب سے مقدس ادارے نے سویلین اور فوجی ڈکٹیٹر وں کے آہنی ہاتھوں اور بوٹوں کا راستہ روک دیا ہوتا تو یہ بد نصیب قوم ایک کے بعد دوسری بد ترین جمہوری حکومتوں کے تجربے سے گذرتے ہوئے آج بوٹوں کی چاپیں مدھر دھنوں میں نہ سن رہی ہوتی۔۔۔۔
ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ میں یہ کوئی معمولی واقعہ بلکہ سانحہ نہیں۔۔۔ کہ نادان دوستوں کے مشورے سے ایوان ِ صدر نے ایک ایسا ریفرنس، ایک انتہائی سنیئر جج ہی نہیں اُس کے خاندان کے خلاف بھیجا ہے۔ لیکن اس سارے کیس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ایک سینیئر جج نے جس کی ماضی میں اس طرح مثال نہیں ملتی، نہ صرف سپریم کورٹ میں جاکر اپنا دفاع کیا بلکہ اپنی اہلیہ کو بھی راغب کیا کہ ناجائز اثاثے بنانے کے الزامات کا خود بھی دفاع کریں۔
عام طور پر وطن ِ عزیز میں اتنے اہم اداروں پر بیٹھنے والے اپنے خاندان کا نام آنے پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ اور اُس آئینی شق کا سہارا لیتے ہیں جو انہیں تحفظ پہنچاتی ہے۔ اس کیس میں ایک محترم معزز جج نے یہ ریمارکس دئیے بھی کہ "کس قانون کے تحت جج اپنے اثاثے ظاہر کرے"۔۔۔ بہرحال 1973ء کے آئین نے فوجیوں اور ججوں کو دوہری شہریت رکھنے کا حق بھی دیا ہے اور اس بات کا بھی کوئی "ایرا غیرا" چار سطروں میں معزز ادارے کے محترم رکن کو بغیر کسی مستند دستاویز ی ثبوت کے کٹہرے میں کھڑا کردے۔ اس حوالے سے قاضی فائز عیسیٰ اور پھر اُن کی اہلیہ نے ویڈیو لنک کے ذریعہ اپنی صفائی میں جو بیان ریکارڈ کرایا، اُس نے خو ش آئند روایت کی بنیاد ڈا ل دی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ان حساس لمحوں میں اپنی حسِ مزاح کو ہاتھ سے جانے نہیں اور کہا کہ ان کا اسپینش نام Cerinaہے۔ مگر پاکستانی مجھے اپنی آسانی کے لئے زرینہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ اُن کاکہنا تھا کہ کراچی میں وہ ایک امریکن اسکول میں ٹیچر تھیں۔ پھر کراچی، سندھ اوربلوچستان میں انہوں نے اپنی جائداد یں فروخت کرکے باقاعدہ بذریعہ بینک فارن کرنسی لندن ٹرانسفر کرائی اور جس سے 2003سے 2013کے دوران 17 لاکھ پاؤنڈ سے تین فلیٹ خریدے۔ جس کا ٹیکس کراچی میں بھی دیا اور لندن میں بھی۔
قاضی صاحب کی اہلیہ نے جس جرأت و استقامت سے اپنا موقف پیش کیا اس پر بینچ کے تمام ہی شرکاء نے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ مگر لگتاہے قاضی صاحب کے اس کیس نے ایک نیا پینڈورا بکس کھول دیا ہے کہ قاضی صاحب کے خلاف درخواست دائر کرنے والا ایک نامعلوم فرد وحید ڈوگر ہے۔ اور جسے یقینا اسی بات کے لئے تیار کیا کہ وہ یہ تماشہ لگائے۔
مگر وحید ڈوگر کے سرپرست کیا اس بات سے آگاہ نہیں کہ ایسے ہی نامعلوم افراد کے لئے انہوں نے راستہ کھول دیا ہے کہ وہ صدر، وزیر اعظم سمیت ہر کسی کو ایک درخواست کے ذریعہ کٹہرے میں کھڑا کردیں۔۔۔