Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Alvida 2019 (1)

Alvida 2019 (1)

2019ء کے آغاز پر سب سے بڑی امید تو یہی تھی کہ دہائیوں بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومت کے بعد آنے والی تحریک انصاف کی حکومت پاکستان کے عوام کے لئے تبدیلی کا سال ثابت ہوگا۔ 28جولائی 2018ء کو ہونے والے الیکشن کے بعد مہینہ، تین تو حکومت سازی میں ہی لگ گئے۔۔۔ کہ ایک خیبر پختونخواہ کو چھوڑ کر نہ تو وفاق میں اورنہ ہی پنجاب اور بلوچستان میں تحریک انصاف اکثریت حاصل کرسکی۔ سندھ میں قومی و صوبائی اسمبلی میں ایک موثر کامیابی کے باوجود اُسے اپوزیشن میں تو بیٹھنا ہی تھا۔ 18ستمبر 2018کو جب کپتان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو اسلام آباد کے سیاسی پنڈتوں کا کہنا تھا کہ خاں صاحب نے وہی غلطی کی جو دسمبر1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے دس سالہ جد و جہد کے بعد ایک لنگڑی لولی حکومت کو قبول کیا تھا۔۔۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نہ صرف عالم ِ اسلام کی پہلی خاتون سربراہ ِ مملکت ہونے کا اعزاز حاصل کررہی تھیں، بلکہ خود وطن ِ عزیز میں بھی اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی مگر اس منفرد اعلیٰ اعزاز کو حاصل کرنے کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو کو نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے بھاری بھرکم نامزد کردہ صدر غلام اسحاق خان کو قبول کرنا پڑا، صاحبزادہ یعقوب علی خان کو وزیر خارجہ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سندھ کے شہری علاقوں کی پاپولر، متشدد نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے 22ارکان کے لئے ایک ایسا معاہدہ قبول کیا جو قطعی طور پر نامکمل تھا۔ دوسری جانب پنجاب میں ن لیگ کی حکومت اور پھر روایتی انتہا پسند دینی و مذہبی جماعتیں۔۔۔ سو، ایک نہیں دو نہیں، چہار جانب کے محاذوں کے مقابل تن تنہا بے نظیر بھٹونے وزارت ِ عظمیٰ تو حاصل کرلی، مگر معروف اصطلاح میں یہ منصب ایک ایسا کانٹوں بھرا تاج تھا جسے پہن کر و ہ ایک دن بھی صبر و سکون سے حکومت نہ کرسکیں۔۔۔ پھر پارٹی کے جیالے دس سال سے مار کھاتے ہوئے اتنے بے صبرے ہوچکے تھے کہ سالوں کی قربانیوں کے ثمرات ہفتوں، بلکہ دنوں میں حاصل کرنے کے لئے بے تاب و بے قرار تھے۔ یوں محترمہ کا یہ اقتدار محض سولہ ماہ چلا۔ اور یہ کوئی اتنا غیر متوقع بھی نہیں تھا کہ اتنے سارے سمجھوتوں کے بعد یوں بھی اقتدار کی مدت پوری کرنا معجزہ ہی ہوتا۔

یہ لیجئے۔۔۔ میں خاں صاحب کی آمد کو تو پیچھے ہی چھوڑ آیا۔ مگر جس حوالے سے بھی دیکھا جائے، محترمہ بے نظیر بھٹو اور خاں صاحب کے اقتدار سنبھالنے میں بڑی مماثلت تھی۔ خاں صاحب کو بھی صرف چھ ووٹوں کے لئے کئی بار آزمائی ہوئی ایم کیو ایم کے پاس جانا پڑا۔ دو ارکان ِ اسمبلی کے لئے ہمیشہ سے سرکش وغصیلے سردار اختر مینگل کے پاس۔۔۔ پھرچار ووٹوں کے لئے چوہدریوں کی منہ کھولے مطالبات کی بوریاں۔۔۔ اس کے بعد بھی گنتی نہ پوری ہونے کے بعد ن لیگ، پی پی پی، پرویز مشرف کے ایسے ایسے ما ضی کے سیاہ کاروں کو ملمع چڑھا کر بڑی بڑی پیشکشوں کے ساتھ حکومت بنانے کے لئے لانا پڑا۔ پھر یہ اپنی ہیئت، کردار کے حوالے سے ماضی کی شریفوں اور زرداریوں کی حکومت سے مختلف نہیں تھی۔۔۔ پہلے سو دن ہمارے پر جوش کپتان یہ واویلا کرتے رہے کہ جو ٹیم انہیں بنانی پڑی وہ ان کی مجبوری تھی۔ پھر ملک کو درپیش سب سے بڑے معاشی بحران کے حوالے سے ان کے پاس ایک ہی رٹا رٹایا بیانیہ تھا۔۔۔ کہ انہیں اربوں کے قرضے اور تباہ حال ادارے ماضی کی حکومتوں سے ورثے میں ملے ہیں۔ پہلے 100دن تو تبدیلی کا خواب دیکھنے والے غریب عوام اور اُن کے حامی ان کے پرکشش بیانیے کے سحر میں رہے۔۔۔ مگر جب ڈالر آسمان سے باتیں کرنے لگا، پٹرول سمیت روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں سو گنا اضافہ جھیلنا پڑا تو سن 2019کے آتے آتے ایک اور معروف اصطلاح میں عوام کی چیخیں نکلنی شروع ہوگئیں۔ جس کی بازگشت سن کر خاں صاحب نے ایک کے بعد دوسرے یوٹرن، لینے شروع کئے۔ اور سال بھر میں اتنے یو ٹرن لئے کہ یہ وہ تحریک انصاف نہ رہی جس کے پیچھے محض سال بھر پہلے ہی کروڑوں عوام کھڑے تھے۔

خاں صاحب تواتر سے دعویٰ کرتے تھے کہ وہ آئی ایم ایف سمیت کسی غیر ملک حتیٰ کہ دوست ممالک کے پاس بھی کشکو ل لے کر نہیں جائیں گے۔ خاں صاحب کو نہ صرف اپنے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کی قربانی دے کر آئی ایم ایف کے پاس انہی کی شرائط پر جانا پڑا۔۔۔ بلکہ ایک ارب اور دو ارب ڈالر کے لئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین، ترکی کے پاس جانا پڑا۔ مگر ان سب سے آنے والی معذرت کے ساتھ میں بازاری لفط بھیک، استعمال کرنا چاہ رہا تھا مگرلغوی معنوں میں اس کے لئے امداد کا لفظ استعمال کروں گا۔ سب سے بڑی ناکامی خاں صاحب کی حکومت کو سیاسی محاذ پر ہوئی۔ کنٹینروں پر کھڑے ہوکر وہ برسو ں دعوی کرتے رہے کہ وہ دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین کو جیلوں میں ڈال کر، ان کے پیٹ پھاڑ کر، ان کی ملک کے اندر اور باہر جمع اتنی بڑی بڑی ر قوم قومی خزانے میں جمع کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس سے ملکی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی۔ اعتراف کرنے کہ اس میں عدالتوں اور بدنام ِ زمانہ نیب نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔۔۔ مگرخاں صاحب کو شاید یہ علم نہیں تھا کہ سسٹم بدلنے یعنی تبدیلی لانے کے لئے وہ جو پروگرام پیش کرتے تھے یا نعرے لگاتے تھے، وہ اُسی سسٹم کے اسیر ہوگئے۔ کیونکہ دہائیوں میں کرپشن کی جوگند جمع ہوئی تھی اُسے جڑ سے اکھاڑنے کے لئے انقلا بی اصلاحات اور تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر جب دائیں بائیں پرانے نظام کوچلانے والی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ کردار ہی وزیر، مشیر اور معاون ہوجائیں۔۔۔ تو پھر یہ تبدیل کیسے آتی۔۔۔؟

یہ موضوع معیشت کے حوالے سے ایک بحر بیکراں ہے۔۔۔ جسے ایک کالم میں کس طرح سمیٹا جاسکتا ہے۔۔۔ آ ج ہی کے اخبارات کی شہ سرخیاں چیخ چیخ کر پیغا م دے رہی ہیں کہ وطن عزیز معاشی لحاظ سے دنیا میں سال گزشتہ 41ویں نمبرپر تھا اور مستقبل میں بھی بہتری کی امید نہ رکھی جائے۔۔۔ کہ آئندہ چند برسوں بعد یہ پچاسویں نمبر پر ہوگا۔۔۔ (جاری ہے)

About Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi is a veteran journalist from Pakistan. He has a current, daily evening show, "Doosra Pehlu", for CNBC Pakistan. He founded Sonehra Daur Karachi in the 80's. Bankari was a monthly that would help a political activist know about the economic and fiscal realities.