اس سے پہلے کہ پاکستان کے داخلی امور کے حوالے سے گزرے ہوئے سال کی تفصیل میں جاؤں۔۔۔ برصغیر پاک و ہند او ر پھر پاکستان کے حوالے سے سب سے اہم سیاسی تنازع کشمیر کا ذکر ذرا تفصیل سے کرلیا جائے۔ 1990ء کی دہائی میں جو کشمیر میں مزاحمتی تحریک چلی تھی۔۔۔ اور جسے بزور طاقت دبا دیا گیا تھا، 5اگست کو سال گزشتہ میں اس بڑے پیمانے پر ابھر کرسامنے آئی کہ آج پانچ ماہ بعد بھی بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں مکمل کرفیو نافذ ہے۔ گو کہ عمران خان کی حکومت نے ملکی اور بین ا لاقوامی طور پر اسے ایک موثر انداز میں اٹھایا، خاص طور پر اقوام متحدہ کے اجلاس میں کشمیر کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کا خطاب تاریخی قرار دیا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی پہلی بار کشمیر کے ایشو کو بڑے پیمانے پر اجاگر کیا۔ مگر بھارت نے آرٹیکل 370کی دفعہ 35aکے تحت کشمیر کو بھارت کے اٹوٹ انگ میں تبدیل کردیا۔ جس پر کشمیریوں نے نہتے ہاتھوں سے بھارتی فوجیوں کی بربریت کا جس طرح مقابلہ کیا، اُس پر سلامتی کونسل اور اس میں بھی برادر اسلامی ملکوں نے جو مجرمانہ کردار ادا کیا، اُسے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہی ٹھہرایا جائے گا۔ سلامتی کونسل کے 16ممالک، جن میں اکثریت مسلم ممالک کی تھی، پاکستان کی وزارت خارجہ کے بابو اور ان کے سرخیل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یہ قائل کرنے میں ناکام رہے کہ کم از کم ایک ایسی قرارداد کا مسودہ ہی تیار ہوجائے جس میں کشمیر میں ہونے والے مظالم کی مذمت کی جائے۔ مگر اگست اور ستمبر جب سارا کشمیر خاص طور پر سرینگر سے بغاوت کے شعلے آسمان کو چھو رہے تھے، ٹھیک انہی دنوں میں ہمارے برادر اسلامی ملک سعودی عرب اور پھر متحدہ عرب امارات نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے ملک کے بلند ترین ایوارڈ سے نوازا۔۔۔
ہمارے حکمرانوں کی بے بسی دیکھئے کہ سفارتی سطح تک بھی اس پر احتجاج نہیں کیاگیا۔ بلکہ جب جب سعودی، متحدہ عرب اماراتی، قطری شہزادے اسلام آباد پہنچے تو ہمارے وزیر اعظم نے تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر انہیں میزبانی کا شرف بخشا۔
اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہماری خارجہ پالیسی کے نصاب ہی سے مسئلہ کشمیرکو لپیٹا جارہا ہے۔ گزشتہ ماہ کوالالمپور میں ہونے والی کانفرنس کا جس طرح پاکستان نے بائیکاٹ کیا، اُس سے تو 1950ء کی دہائی کی تاریخ یاد آگئی جب ہم اسی طرح امریکہ کے تابع ہوکر سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں میں جکڑ جانے کے بعد اپنی غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کو بالائے طاق رکھ چکے تھے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے تو بین الاقوامی میڈیا کے سامنے ہماری خارجہ پالیسی کی جس طرح دھجیاں بکھیریں۔۔۔ اس سے بڑی بین الاقوامی محاذ پر پاکستا نیوں کو شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہوگا۔
ترکی کے صدر نے دوٹو ک الفاظ میں کہا کہ سعودی عرب نے براہ راست وزیر اعظم عمران خان کو یہ دھمکی دی تھی کہ اگر وہ کولالمپور گئے تو چالیس لاکھ پاکستانیوں کو سعودی عرب سے واپس بھیج دیا جائے گا۔ اور تین ارب ڈالر کی مشروط امداد بھی واپس لے لی جائے گی۔
چلتے چلتے خارجہ پالیسی کے حوالے سے یہ دلچسپ بات بھی ریکارڈ پر آجائے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر کہ وہ کشمیر پر ثالثی کرانے کے لئے تیار ہیں، ایک ایسا تاریخی مذاق کیا تھا جس کی مثال نہیں ملتی۔ بھارت کا جو رد عمل آیا، وہ تو خیر فطری اور روایتی تھا۔۔۔ بلکہ چار قدم بڑھ کر وہ تو پہلے ہی آرٹیکل 370کے ذریعے کشمیر کو بھارت کی ایک ریاست بنانے کا اعلان کرچکا تھا۔۔۔ مگر اس پر ہماری وزارت خارجہ کے بابوؤں نے جو بغلیں بجائیں، کیا اُن سے ٹرمپ کے ثالثی کے بیان کے چھ ماہ بعد یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ اس ثالثی میں ہمارے حصے کی کتنی پیش رفت ہوئی؟ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے، جس کے سبب گزشتہ دو دہائی سے پاکستان کی معیشت کو تو بے پناہ نقصان پہنچا ہی مگر ہزاروں فوجی جوان اور شہری شہید ہوئے۔۔۔ جب اس پر بھی مذاکرات کا مرحلہ آیا، تو پاکستان کو اس سے باہر رکھا گیا۔ یہی نہیں بلکہ افغانستان کے روئیے میں وہی نفرت اور انتقام نظر آیا جسکا سامنا ہم بھارتی محاذ پر کررہے ہیں۔ داخلی حوالے سے سال 2019ء کی سب سے بڑی خبر تو وہ backlash ہے جو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت کو جھیلنا پڑا۔ پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں کبھی بھی وہ مرحلہ نہیں آیا جب کسی بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت کے تنازع کو اعلیٰ عدالتوں میں کھینچا جائے۔۔۔
گو اسے بھی تحریک انصاف کی حکومت کے وزارت قانون کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے، کہ یہ سب کچھ ان کی نالائقی بلکہ نااہلی کے سبب ہوا۔ مگر اس کا ذمہ دار تو وزیر اعظم اور صدر کو ہی ٹھہرایا جائے گا کہ ایک معمول کی روایتی کارروائی کو انہوں نے اتنا الجھا دیا کہ آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کے ہاتھ میں چلا گیا۔ جس کا یہ سخت ترین الفاظ میں فیصلہ آیا کہ چھ ماہ کے اندر اگر پارلیمنٹ آرمی چیف کا مسئلہ حل نہیں کرے گی تو وہ ریٹائرڈ سمجھے جائیں گے۔ اس طرح کی مداخلت کی اس سے پہلے کوئی تاریخ نہیں ملتی۔۔۔
داخلی حوالے سے دیکھا جائے تو ایک حلقے کی رائے میں سال 2019ء کی سب سے بڑی خبر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو لاہور ہائی کورٹ سے سزائے موت کی سزا دینا ہے۔ پھر اس پر جو غیر معمولی رد عمل افواج پاکستان کے ترجمان کی جانب سے آیا، اُس کی مثال بھی ماضی کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دبئی میں بیمار، ایک بستر پہ لیٹے سابق صدر مشرف کو دی جانے والی سزائے موت کے فیصلے پر اعلیٰ عدالتیں کس رد عمل کا اظہار کریں گی۔۔۔ اُس کا فیصلہ تو سال رواں میں ہوجائے گا۔
مگر اب 2019ء کو الوداع کہتے ہوئے اور 2020ء کو خوش آمدید کہتے ہوئے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ: سال 2019ء میں حکومت کی داخلی اور خارجہ محاذ پر کارکردگی کے حوالے جو ناکامیاں رہیں، اُس کے بعد بھی سال2020ء بھی تحریک انصاف کی حکومت کھینچ جائے گی؟ خود وزیر اعظم تو سال2020ء کے حوالے سے بڑے پر امید نظر آتے ہیں۔ مگر جو اشارے سامنے آرہے ہیں، اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ سال 2020ء بھی 2019ء کی طرح اس قوم پر گذرے گا۔ (ختم شد)