اسکرین سے آنے والی روتی بلکتی، سسکیوں کے درمیان بے حسی، بے بسی کی موت مرنے والے ڈاکٹر فرقان کی بیوہ کی سسکتی ہوئی آواز سے قلم تھرا رہا ہے۔۔۔ وزیر اعظم عمران خان، صدر ِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، چاروں صوبوں کے گورنروں، وزرائے اعلیٰ، وزیروں، مشیروں، معاونین ِ صحت سے متعلق سرکاری اداروں، فلاحی تنظیموں کے بیان۔۔۔ سب بے معنی لگ رہے ہیں۔ ڈاکٹر فرقان کی بیوہ اسکرین پر کہہ رہی تھیں میں چار لڑکیوں کی ماں اور بوڑھی والدہ کے ساتھ رہتی ہوں۔ گھر میں میرے شوہر کے علاوہ کوئی اور مرد نہیں۔۔۔ اڑوس پڑوس میں اور کوئی قریبی عزیز بھی نہیں آیا۔ سارا دن کورونا سے متاثر میر ے شوہر اپنے دوست ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو ٹیلی فون کرتے رہے۔ سندھ حکومت، این ڈی ایم اے کی ہیلپ لائن پہ بھی یہ جواب آتا رہا کہ دوسرے نمبر پر فون کریں۔ رات کوئی ساڑھے نو بجے امن ایمبولینس آئی۔ سب سے پہلے سارے ملک میں شہرت رکھنے والے انڈس اسپتال کا رُخ کیا۔ خیال تھا کہ جس طرح صبح شان اسکرینوں پر انڈس اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر عبدالباری خان بڑی درد مندی سے عطیات کی اپیل کررہے ہوتے ہیں وہ نہیں تو اُن کا کوئی نائب ڈاکٹر، یا پھر، اسپتال میں مخصوص کورونا سنٹر کے استقبالئے پر کوئی اسٹریچر لئے کھڑا ہوگا۔ مگر باہر دروازے پر ہی جواب ملا، نہ بیڈ ہے، نہ وینٹی لیٹر۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کی تیز تیز سانسیں چل رہی تھیں۔ انہوں نے SIUT کی جانب چلنے کوکہا مگروہاں بھی باہر ہی سے جواب مل گیا۔۔۔ بیڈ نہ وینٹی لیٹر۔ ان دو بڑے اسپتالوں سے جن کا بڑا شہر ہ سنا تھا جب یہ جواب ملاتو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے گھر واپس چلو۔۔۔ تین گھنٹے بعد گھر واپس لوٹے تو ایمبولینس کے ڈرائیور نے اسٹریچر اٹھانے سے انکار کردیا۔ خود اپنے ہاتھوں سے ڈاکٹر صاحب کو اسٹریچر پر ڈالا۔ گھسیٹتے ہوئے گھر کے برآمدے میں پہنچیں تو ڈاکٹر صاحب بے ہوش ہوچکے تھے۔ بعد میں تدفین کے لئے کیا جتن کرنے پڑے۔ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر فرقان کی بیوہ کی آواز ہچکیوں اور آنسوؤں میں ڈوب گئی۔ 48 گھنٹے گزر گئے۔۔۔ کیوں کہ 18 ویں ترمیم کے سبب معاملہ صوبائی ہے، اس لئے صدر ِ پاکستان اور محترم وزیر اعظم عمران خان نے بھی نہ تو اس کا نوٹس لیا اور نہ ہی تعزیتی بیان کہ کراچی کی نواحی بستی میں رہنے والا غریب ڈاکٹر کوئی صاحب ِ ثروت یا صاحب ِ اقتدار کا دور پرے کا رشتہ دار نہ تھا۔ این ڈی ایم اے کے سربراہ جنرل افضل نے ڈاکٹر فرقان کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری حکومت ِ سندھ پر ڈال دی ہے۔۔۔ حکومت ِ سندھ نے حسب روایت اپنی ہی حکومت کے ایڈیشنل ہیلتھ کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔۔۔
ہمارے ماضی، حال کی ساری حکومتوں کے پاس بڑے سے بڑے سانحوں کا ایک ہی حل ہے۔۔۔"کمیٹی، کمیشن"۔۔۔ نہ جن کی رپورٹ آتی ہے اور اگر آتی بھی ہے تو اس میں نامزد اورنشاندہی کرنے والوں کی پکڑ ہوتی ہے۔ پچھلے ہی ہفتے کورونا وائرس کے ایک مریض کا ان ہی کالموں میں ذکر کیا تھا کہ جس نے کراچی کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں وینٹی لیٹر نہ ملنے کے سبب اسپتال کی تیسری منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی تھی۔ اسکرینوں پر شور اٹھا تو حکومت ِ سندھ جاگی اور اس سارے سانحہ کو ایک عدد کمیٹی کے سپرد کردیا۔ جس کی اور ڈاکٹر فرقان کی بھی جو رپورٹیں آئیں گی، اُس پر کسی مزید تبصرے کی گنجائش نہیں۔۔۔ یہ تو وہ دو بڑے واقعات اور سانحات تھے جو چینلوں میں آبھی گئے۔ اور ریٹنگ کی دوڑ کے سبب کراچی اور اسلام آباد کی حکومتوں کی کارکردگی پر بھی سوال چھوڑ گئے۔ مگر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ محض کراچی شہر ہی نہیں، سارے ملک کی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہوگی۔ ان دونوں کیسوں پر اسکرینوں پر جو ہا ہا کار مچی، اس کا زیادہ افسوس ناک اور المناک نتیجہ مستقبل میں یہ سامنے آئے گا کہ مستقبل میں کورونا سے متاثرین اپنے ہی گھر میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیں گے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ مرنے والے کے اہل خانہ اس بات ہی کو پوشیدہ رکھیں گے کہ مرنے والا اس موذی مرض کا شکار ہے۔ کہ بعد میں اُس سے زیادہ تکلیف دہ مرحلہ تدفین کا ہوتا ہے۔ کہ پڑوسی تو دور کی بات سگے خون کا رشتہ رکھنے والے بھی کاندھا دینے کے لئے شریک نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر فرقان کی موت جس بے حسی، سفاکی، لاچاری میں ہوئی ہے۔ اُس نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور ان سے وابستہ سرکاری و فلاحی اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر اس کی تصدیق 4 مئی کو چیف جسٹس آف پاکستان اور ان کے چار رکنی بینچ نے جو کورونا وائرس پر اپنے از خود ونوٹس پر وفاق اور چاروں صوبوں کے اٹارنی جنرلز اور صحت سے متعلق وزارتوں کے ترجمانوں کے سامنے جو ریمارکس دئیے ہیں، اُس نے گھنٹوں کے حساب سے اسکرینوں پر بیٹھے حکمرانوں اور اُن کے ترجمانوں کی کارگزاری کی معذرت کے ساتھ پول کھول کر رکھ دی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا یہ کہنا تھا کہ "سارے کام کاغذوں میں، کہیں شفافیت نہیں، ایک وزیر کچھ کہتا ہے، دوسرا کچھ۔"اور پھرچیف جسٹس کے اس ریمارکس پر اس صوبائی وزیر کو مستعفی ہوجانا چاہئے تھا کہ" ایک صوبائی وزیر کا دماغ آوٹ ہوگیاہے"۔۔۔ چیف جسٹس کا مزید فرمانا تھا کہ "ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کا ذاتی عناد لگتا ہے۔ تمام ایگزیکٹو ناکام ہوگئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی پالیسی صرف 25کلومیٹر تک ہے۔"محترم وزیر اعظم صاحب، یہ ریمارکس کسی آپ کی مخالف اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے بیان نہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف دو ٹوک الفاظ میں حکومت کی شفافیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ مزید اس پر ستم بلکہ ظلم دیکھیں کہ محترم وزیر اعظم صاحب آپ کے محترم وفاقی وزیر خزانہ ہمارے شہر کراچی کے اسد عمر پہلے ہی سے بے روز گاری، بھوک اور اس موذی مرض کا مقابلہ کرنے والے عوام کو یہ خوش خبری دے رہے ہیں کہ دس لاکھ ادارے بند ہوں گے، ایک کروڑ 20لاکھ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اور ذرا خان صاحب کی حکومت کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے نظر آنے والے وزیر موصوف کا فرمانا کہ کورونا سے جتنی اموات ہوئی ہیں اتنی تو کراچی میں ٹریفک حادثات میں ہوجاتی ہیں۔۔۔ وزیر موصوف اور اُن کی حکومت کے نزدیک کورونا کے مریضو ں کی اموات اگر ٹریفک کے حادثات میں مرنے والوں سے بھی کم ہیں تو پھر اسلام آباد سرکار اورخان صاحب کے وزیروں، مشیروں کا یہ سارا شور و غوغا کیوں۔۔۔ یہ ٹیلی تھانوں اور ساری دنیا کے سامنے کشکول لیے کیوں کھڑے ہیں؟ اوریوں بھی تو آپ کوسارا حساب کتا ب بھی تو دینا ہے۔۔۔ اربوں کھربوں روپے کا، راشن کے تھیلوں کا، ماسک اور وینٹی لیٹروں کی خریداری کا جو ایک ڈاکٹر کی جان نہ بچا سکے۔