ساری دنیا میں اپنی شاعری سے شہرت رکھنے والے۔۔۔ ہمارے فیض احمد فیضؔ جب فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں پکڑے گئے تو شاہی قلعے میں جاسوسی، روسی ایمنسٹی کے علاوہ اور بھی بہت سارے سوال ہوئے۔ یہ تفتیش فیض صاحب کے ذہن میں ایک عرصہ محفوظ رہی اور پھر ان چار سطروں کی صورت میں اتری:
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا وہ سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاک جگر ہونٹوں پہ ہے خون ِ حسرتِ مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹا ئے دیتے ہیں
فیض صاحب نے بیشتر وقت تو جیل اور جلاوطنی میں گذارا۔۔۔ کراچی میں ایک عرصہ کرائے کے گھر میں۔۔۔ اور پھر آخری دنوں میں لاہور میں اپنی بیٹی کے گھر میں رہے۔ بین الاقوامی شہرت رکھنے والے شاعر کے پاس نہ ذاتی گھر اور نہ بینک بیلنس۔
شاعر عوام حبیب جالبؔ تو ساری زندگی کی قید و مشقت بھگتنے کے بعد یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے:
روٹی، کپڑا اور دوا
گھر رہنے کو چھوٹا سا
مفت مجھے تعلیم دلا
میں بھی مسلماں ہوں واللہ
پاکستان کا مطلب کیا
لا الٰہ الااللہ
یہ جو مجھے فیض صاحب اور جالب ؔ صاحب یاد آئے تو اس حوالے سے جب حکمرانوں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں اور اُن کی آل اولاد کی جائیدادوں، غیر ملکی اثاثوں کی تفصیل میں پڑتا ہوں تو جھر جھری آجاتی ہے۔ یوں تو خود ہماری میڈیا برادری کے سرخیل اینکروں اور کالم کاروں کے مال و منال سُن کر بھی یقین نہیں آتا کہ ابھی سال دو پہلے کراچی میں ایک لاہوری اینکر میری شام کی محفل ِہاؤ ہو دیکھ کر افسردگی سے کہنے لگے، "بڑا افسوس ہوا، آئندہ ہفتے جب اپنے ہیلی کاپٹر میں آؤں گا تو ایک کیس اُس مشروب کا لاؤں گا جو جنرل یحییٰ خان پیتا تھا۔"
کچھ عرصے پہلے جب پاکستان کے 50بڑے امیر گھرانوں کے بارے میں ایک تحریر دیکھی تو کم از کم پاکستان کے پانچ میڈیا گھرانے اس میں شامل تھے۔ یہ ساری تمہید اس لئے باندھی کہ حال ہی میں شریف خاندا ن کے مالی اثاثوں اور غیر ملکی جائیدادوں کی تفصیل پڑھی تو دانتوں میں انگلیاں لہولہان ہوگئیں۔ اس سے پہلے کہ شریف خاندان کے غیر ملکی اثاثوں اور بینکوں میں رکھی کروڑوں کی رقم پرآؤں۔۔۔ تو یہ سوال اپنی جگہ رہتا ہے کہ نیب کے پاس اگر سارے ثبوتوں کے ساتھ شریفوں کی منی لانڈرنگ اور ناجائز ہتھکنڈوں سے بنائی دستاویزوں کے انبار ہیں تو۔۔۔ سانوں کی۔۔۔؟
سابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم پر 569ارب کی منی لانڈرنگ کا الزام تھا۔ سال بھر جیل میں رہے۔ جن محترم سینئر وکیل نے انہیں ضمانت دلائی، دروغ برگردن راوی، 5کروڑ روپے فیس لی۔ ہمارے ڈاکٹر عاصم ہر دوسرے ہفتے علاج کے لئے دوبئی اور لندن جارہے ہوتے۔ سندھ کے سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن پر 546ارب روپے اشتہاروں کی مد میں گھپلے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ عرصہ جلا وطن رہے۔ لندن سے واپسی پر اسلام آباد میں گرفتار ہوئے۔ پھر اسپتال میں زیر علاج رہے جہا ںسیب کا جوس اور شہد دن رات پیتے اور کسی نے نہیں چیف جسٹس ثاقب نثار نے پکڑا۔ ہفتہ نہیں گذرا تھا کہ ضمانت ہوئی۔ اپنے آبائی گاؤں باجوں تاشوں سے پہنچے تو سونے میں تولہ گیا۔ پراپرٹی ٹائیکون کا ذکر کرتے پَرجلتے ہیں۔ صرف ایک کیس میں، جی ہاں، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کراچی کی ایک زمین ہتھیانے پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا:" ایک ہزار ارب سے کم پر نہیں چھوڑوں گا۔" 465ارب پر سمجھوتہ ہوا۔ مگر 25ارب سال کی قسط لگی۔ صرف25ارب۔ 100فلیٹوں کی مار۔ شریف خاندان کے غیر ملکی اثاثوں، جائیدادوں اوربینک اکاؤنٹس میں رقوم کے قصے "طوطا مینا" کی کہانی لگتے ہیں۔ صرف ایک کیس پڑھا کہ ایک پاپڑ والے نے میاں شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں 17لاکھ 60ہزار ڈالر جمع کرائے۔
حال ہی میں نیب کا تازہ ترین انکشاف سامنے آیا ہے۔ اُس کے مطابق ہمارے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور کسی این آر او کی صورت میں مستقبل کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی 16کمپنیوں میں 12ارب 66ہزار کےشیئرز ہیں۔ 8کمپنیوں میں 51کروڑ 15لاکھ کی سرمایہ کاری۔ پاکستان میں 10جبکہ لندن کے ایک اکاؤنٹ میں ڈالروں کی صورت میں لاکھوں ڈالر ہیں۔ آگے بھی بہت کچھ ہے۔ اور یہ بھی صرف شریف خاندان کے ایک ہونہار بیٹےکا، مریم بی بی، اُن کے شوہر، والد، چچا اورکزن کی کوئی بھی جائیداد اور اکاؤنٹ کروڑوں سے کم میں نہیں۔ پی پی اور تحریک انصاف کی قیادت کی جائیدادوں اور اثاثوں کی تفصیل میں گیا تو کالم کی تنگ دامنی آڑے آجائے گی۔ مگر اس پر سب سے بڑی ڈکیتی یہ کہ ان دنوں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان۔"نیب کی کارکردگی اورحدود و قیود" پر ایک بل قومی اسمبلی میں زیر بحث ہے۔ اپوزیشن نے یہ35ترامیم حکومت کے سامنے پیش کی ہیں۔ اگر یہ ساری نہیں تو آدھی بھی تسلیم کرلی جائیں تو پھر "نیب" کی حیثیت ہماری الا ماشاء اللہ "ایف آئی اے" اور پولیس کی اسپیشل سے برانچ سے زیادہ نہیں رہ جائے گی۔
ذرا ہماری اپوزیشن کی ترامیم پر ایک نظر ڈالیں
:1گرفتار ی سے متعلق چیئرمین نیب کا اختیار کم کیا جاتا ہے
2گرفتار ملزموں کا ریمانڈ 90دن کے بجائے 14دن رکھیں
3جس ملزم کی کرپشن میں پکڑ ہو، اُسے اسی صوبے میں رکھا جائے (تاکہ اُس صوبے کی حکومت سے وہ تمام مراعات حاصل کرسکے)
4 نیب افسر کے خلاف ہراساں کرنے اور تشدد پر مقدمہ درج ہو
5 نیب پر ایک ارب یعنی 100کروڑ سے کم کی کرپشن کا کیس کرنے پر پابندی ہو
6 نیب سے سزایافتہ مجرم سے الیکشن لڑنے کا حق نہ چھینا جائے۔
(جاری ہے )