تحریک انصاف کی حکومت کے آنے کے سوا سال بعد پہلی بار ایسا لگا کہ پارلیمنٹ میں سرے سے کوئی اپوزیشن ہی نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان انتہائی خاموشی سے آئے۔۔۔ اور اپنی کرسی پر روایتی تمکنت کے ساتھ آکے بیٹھے۔ یاد رہے کہ خاں صاحب پچھلے کئی ماہ سے پارلیمنٹ اس لئے نہیں آرہے تھے کہ ان کے کہنے مطابق اپوزیشن کے ارکان نہ صرف ان سے بدتمیزی اور بد تہذیبی سے پیش آتے ہیں بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ نوبت ہاتھا پائی تک آجائے۔ کپتان کا یہ موقف سن کر ہنسی بھی آتی تھی اور رونا بھی۔۔۔ یعنی ایک منتخب وزیر اعظم اور وہ بھی عمران خان جیسا دبنگ لیڈر اپوزیشن کے خوف سے پارلیمنٹ میں حاضری نہیں لگا رہا۔ اور اس طرح وہ ان آئینی، پارلیمانی روایات کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس میں اُس کے اولین فرائض منصبی میں شامل ہے کہ وہ باقاعدگی سے پارلیمنٹ آئے، اپوزیشن کے تلخ و ترش خیالات بھی سنے اور اُن کے گلے شکوے دور کرنے کی بھی کوشش کرے۔ مگر یہاں تو نوبت اس حدتک آگئی تھی کہ خود تحریک انصاف کے اراکین کی اکثریت اپنے وزیر اعظم اور قائد کی شکل دیکھنے کو ترس گئی تھی۔ کہ بنی گالہ اور وزیر اعظم ہاؤس میں یوں بھی ہر ایرے غیرے کا آنا جانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
وزیر اعظم کی موجودگی میں جس خوش اسلوبی سے آرمی ایکٹ کی تبدیلی کا بل پاس ہوا ہے، اُس پر معروف اصطلاح میں "گیم پلانر" کو داد دینی ہی پڑے گی، بلکہ دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجا کر ان کی قائدانہ عظمت اور حکمت ِ عملی کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی رخصتی سے دو ہفتے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت پر جو پینڈورا بکس کھولا تھا، اُس سے تو ایسا لگتا تھا کہ خاں صاحب کی حکومت کے خلاف ایک ایسا طوفان کھڑا ہوگا جو اُن کی وزرات عظمیٰ کو ہی بہا کر لے جائے گا۔ یہاں تک کہ مائنس وَن کے فارمولے پر گفتگو ہونے لگی تھی اور خان صاحب کی جگہ لینے والے وزیر اعظم کے نام کی بھی سرگوشیاں سنائی دینے لگی تھیں۔ یقینا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرمی چیف کے حوالے سے جو فیصلہ سنایا، اُس کی پاکستان کی 72سالہ سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ خود چیف جسٹس اور اُن کے برادر جج بھی یہ کہہ رہے تھے کہ اگر سات دہائی میں اس نوعیت کا معاملہ اُن کے سامنے نہیں آیا اور اب جب یہ ان کی عدالت میں آہی گیا ہے تو وہ اِسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ ماضی میں جنرل حضرات بذات خود اپنی مدت ملازمت میں اضافہ کرتے رہے۔ مگر ہمارے محترم چیف جسٹس نے اپنے سابقہ، حاضر اور مرحوم ججوں کے بارے میں یہ کہنے سے گریز کیا کہ آخر جب جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف اپنی مدت ملازمت کا خود ہی تعین کر رہے تھے تو ہماری سب سے بڑی عدالت نہ صرف خاموشی اختیار رکھی بلکہ جب جب جو جنرل آئینی اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر آتا تو نہ صرف نظریہ ٔ ضرورت کے تحت اُس کے لائے ہوئے مارشل لاء کی توثیق کی جاتی بلکہ اُس کے اشاروں پر ہر وہ فیصلہ دیا جاتا جس سے اس کی مطلق العنانیت مزید مستحکم ہوتی۔ اور پھر پاکستان کی سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ تو بدنما داغ بن گیا ہے کہ عدالتی زبان میں سے جوڈیشل مرڈر کانام دیا جاتا ہے۔ جہاں تک ہمارے محترم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہے تو اُس پر اپوزیشن، خاص طور پر ماضی میں دو، دو بلکہ تین، تین بار حکومت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے شدید رد عمل بلکہ شور و غوغا پر ایک بار پھر مجھے مناسب الفاظ یہی لگ رہے ہیں کہ اس پر ہنسی سے زیادہ رونا آیا۔۔۔
ن لیگ کے سرخیل رہنما سابق وزیر دفاع خواجہ آصف جب پہلی بار میڈیا کے سامنے اس پر اپنے رد عمل کا اظہارکررہے تھے تو اُن کے چہرے کی شکنیں اتنی لال بھبھوکا ہورہی تھیں کہ بس خون ٹپکنا رہ گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی جب اپنے تئیں انتہائی فاضلانہ انداز میں اس مسئلے کے حوالے سے اپنا موقف بیان کررہے تھے کہ جیسے پاکستان کے عوام اور میڈیا اس بات سے بالکل بے خبر ہے کہ وہ اور اب ان کی حلیف پارٹی کا ماضی میں فوجی جنرلوں کے بارے میں کیا موقف رہا ہے۔ چلیں، پیپلز پارٹی کو تو اس حد تک رعایت دی جاسکتی ہے کہ انہوں نے جنرل پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں ایک ایسے وقت میں توسیع کی جب یقینا فاٹا سمیت قبائلی علاقوں میں جنگجو طالبان ہماری ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے در پہ تھے۔ مگر ن لیگ اور اس کی قیادت جس ڈھٹائی سے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت پر آہ و زاریاں کر رہی تھی، تو اس سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ اس بات سے بے خبر ہوں کہ اُن کے قائد کی سیاسی پیدائش اور پرور ش کس گملے میں ہوئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بے چاری غریب عوام کی یادداشت تو یوں بھی بڑی کمزور ہے۔ مگر ہمارے میڈیا کے سرخیل بھی اپنے ٹاک شوز میں ن لیگ کے قائدین سے یہ پوچھتے نظرنہیں آتے تھے کہ حضور، محترم میاں صاحب کے سر پر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پگڑی پہنانے والا کوئی اور نہیں جنرل ضیاء الحق کا دست و بازو جنرل غلام جیلانی تھا اور پھر جنرل ضیاء الحق نے شریف خاندان سے جس محبت اور عقیدت کا اظہار کیا کہ ایک بھری محفل میں جنرل صاحب نے یہ تاریخی جملہ فرمایا تھا کہ اُ ن کی عمر بھی نوجوان نواز شریف کو لگ جائے۔۔۔ اور بہر حال اس پر تو میاں صاحب کو خراج تحسین پیش کرنا پڑے گا کہ انہوں نے جنرل صاحب کی اس محبت اورشفقت کا بدلہ اس طرح دیا کہ جب جنرل ضیاء ایک ناگہانی موت کا شکار ہوئے تو ہمارے "قائد اعظمِ ثانی میاں نواز شریف" لاکھوں کے جلسوں میں سینہ ٹھوک کر کہا کرتے تھے کہ وہ جنرل ضیاء الحق کا مشن پورا کریں گے۔ یہ ضرور ہے کہ نہ اُن سے کبھی کسی نے پوچھا اور نہ ہی کبھی انہوں نے وضاحت کی کہ ہمارے محترم مرحوم جنرل کا وہ کون سا مشن تھا جس کی تکمیل ملک کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی کا قائد کرنا چاہتا تھا۔
اس سارے تناظر میں بات کو سمیٹتے ہوئے صرف یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ جب جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی، اور اس میں یقینا حکومت کی نالائقی اور نااہلی کا بھی دخل تھا تو آخر کس منہ سے ہماری ن لیگ کے سرخیل جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت کو چیلنج کررہے تھے؟ دعویٰ نہیں کرتا، مگر یقین کیجئے کہ صحافت اور سیاست کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے یہ علم اور ادراک تھا کہ جب یہ معاملہ پارلیمنٹ میں آئے گا تو اس سے پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار پارٹی سب سے پہلے یہ اعلان کرے گی کہ وہ پارلیمنٹ میں اُس بل کی غیر مشروط حمایت کرے گی، جو جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں ہی نہیں بلکہ مستقبل میں بھی جب جب کوئی حکومت کسی جنرل کی ملازمت میں توسیع کرے گی تو وہ منتخب حکومت کے لئے قابل قبول ہوگا۔ سو، میڈیا نے، محاورے کی زبان میں، چائے کی پیالی پر جو طوفان اٹھایا تھا، وہ اسطرح بیٹھا ہے کہ یہ خبر ہیڈلائن سے نکل کر اسپورٹس کے بعد کی خبروں میں آگئی۔