سب سے پہلے تو خدا ئے بابرکت سے یہ دعا کہ۔۔۔ ہماری سیاست کے سب سے colourful۔۔۔ انگریزی لفظ اس لئے استعمال کیا کہ رنگین مزاج کا لفظ استعمال کرتا تو بات دوسری طرف نکل جاتی۔ شیخ صاحب ماشاء اللہ کنوارے ہیں۔ ادھر ادھر سے چھینٹے بھی اڑتے رہے، خاص طور پر جب ایک دور میں اُن کی منسٹری میں فلم انڈسٹری بھی آگئی۔۔۔ اگر میری یادداشت درست ہے، جس پر اب اس عمر میں کبھی کبھی شک ہونے لگا ہے۔۔۔ کہ سوائے ایک الیکشن کے 1985ء کے بعد جتنے بھی انتخابات لڑے اُس میں نہ صرف واضح اکثریت سے کامیاب ہوئے بلکہ "منسٹری" بھی لال حویلی چل کر آئی۔ شیخ صاحب کی زبان کو کبھی بدزبانی کے زمرے میں بھی لیاجاتا ہے۔ مگر لال حویلی میں، عوام کے ہجوم میں یا کیمروں کے جھرمٹ میں ہمیشہ دو ٹوک بیانیہ دیتے ہیں۔ سبب یہ کہ اُن پر کبھی کرپشن کا الزام نہیں لگا۔۔۔ یہاں تک پہنچا ہوں تو "خلق خدا " کا خیال آئے گا کہ اس مدح سرائی کے سبب کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔
دو دہائی سے اسکرینوں پر درجنوں بار مکالمہ ہوا۔ بے تکلفی نہیں مگر نیاز مندی ضرور ہے۔ تو اُن سے درخواست گذار ہوں کہ انہیں جو وزارت ِ ریلوے ملی ہے تو اُس میں 90فیصد وہ پاکستانی عوام سفر کرتے ہیں جو غربت سے نیچے کی لکیر میں آتے ہیں۔ اور وہ بھی انتہائی ضرورت کے تحت۔ اس ریلوے کو اس مقام تک کس نے پہنچایا، اربوں کے بوجھ تلے اب یہ کس طرح رینگ رہی ہے۔۔۔ اس تفصیل میں جاتے مگر شیخ صاحب سے عرض ہے کہ وہ ممتاز بیوروکریٹ اور دانشور مسعود مفتی کے رپورتاژ "دومینار" کے چند اوراق پر نظر ڈال لیں۔ کہ جس میں پاکستانی ریلوے کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ آنکھیں مسل مسل کے دوبارہ پڑھا۔۔۔
شیخ صاحب کیا یہ سنہری دور واپس لایا جاسکتا ہے؟ مگر ذرا ایک نظر اس تحریر پر:"قیام ِپاکستان سے پہلے بھی مشرقی اور مغربی پاکستان میں مواصلات کا بہت مقبول اور موژر ذریعہ تھی، مگر قیام ِ پاکستان کے فوراً بعد اسے نئے ملک کی ضروریات کے مطابق بہت بہتر اورمزید مقبول بنادیا گیا۔ سب سے پہلے تو ریلوے نے یہ مشکل مرحلہ بطریق ِ احسن عبور کیا کہ ہندوستان نے کوئلے کی سپلائی بند کردی۔ تو متبادل انتظام ہونے تک لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو انجن میں جھونکا گیا۔ اس کے بعد پچاس کی دہائی شروع ہونے میں جرمنی اور فرانس سے ماڈرن ایئر کنڈیشنڈ کوچز (coaches)کی خریداری ہوئی۔ لاہوراور کراچی کے درمیان 26گھنٹے والے سفر کو19گھنٹے تک کم کرنے والی تیز گام کا اجراء ہوا۔ اور چار مقامات پر (راولپنڈی، پشاور، لاہور، ملتان) کے درمیان دو بوگیوں والی چار ریل کاروں کی دن میں دو دفعہ دوڑ شروع ہوئی۔ ان اقدامات نے پاکستان ریلوے کو یورپ کی ریلوں سے موازنے کے قابل بنا دیا۔ ان گاڑیوں میں جدید طرز کی ڈائننگ کار (Dining Car)کے علاوہ باقی تمام سہولتیں اور معاونین کی خدمات بھی بڑی چابک دستی سے دستیاب تھیں۔ 1959ء میں میرے انگلستان میں قیام کے دوران ایک انگریز افسر نے مجھے کہا تھا کہ، آپ کے ملک میں تو ریلوے کی رولز رائس (Rolls Royce)چلتی ہے۔ اُن دنوں وقت کی پابندی ریلوے کا طرۂ امتیاز تھا۔ اسی لیے گوجرانوالہ اور سیالکوٹ سے چلنے والی بابو ٹرین وہاں رہائش پذیر ملازمین کو لاہور کے دفاترمیں عین وقت پر پہنچاتی تھی اور چھٹی کے اوقات کے فوراً بعد انہیں واپس لے جاتی تھی۔ ریلوے کے متعدد ورکشاپوں اور تربیت یافتہ مستعد عملے کی وجہ سے گاڑیوں کی مرمت اور صفائی قابل ِ رشک رہتی تھی۔ لائن کلیئر کے لئے انجن کی کوُک، گارڈ کے ہاتھ کی جھنڈی اور منہ کی سیٹی کے علاوہ سڑکوں پر عین وقت پر پابندی سے کھلنے اور بند ہونے والے پھاٹک اس ادارے کی رگ رگ میں رچے ہوئے نظم و ضبط کا احساس دلاتے رہتے تھے۔
"ریاست کے جسم کی شریانوں میں دوڑنے والے تازہ خون کی طرح ریل گاڑیاں نہ صرف ہر وقت دوڑتی رہتی تھیں بلکہ ان کا جال بھی تیزی سے پھیل رہا تھااور اس کی مال گاڑیاں مشینری کی نقل و حمل سے تیز صنعت کاری میں مدد کررہی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ پہلے چار پانچ برس میں ہی لاہور اور گجرات کے درمیان جرنیلی سڑک کے دونوں طرف بجلی کے پنکھوں کی فیکٹریاں جا بجا کھڑی ہونے لگیں۔ سیالکوٹ میں کٹلری (cutler)، کھیلوں کے سامان اور پینسل بنانے کے کام ہونے لگے اور لائل پور میں دھاگے اور کپڑے کا کاروبار زور پکڑنے لگے۔ کراچی کے گرد و نواح کے بارے میں بھی ہم ایسی ہی خبریں سنتے تھے۔
"ریلوے کے دیو ہیکل محکمے کا سالانہ بجٹ اپنی علیحدہ شناخت کے ساتھ قومی بجٹ کے ساتھ ہی پیش کیا جاتا اور طویل چھان پھٹک والی بحث کے بعد منظورہوتا۔ قدیم داستانوں کے انداز میں اس دیو کی جان جس چھوٹے سے طوطے میں تھی اسے ریلوے کا ٹائم ٹیبل (time table)کہا جاتا تھا۔ دو اڑھائی سوصفحات کے حجم اور آٹھ آنے کی مالیت کی یہ کتاب نہ صرف گاڑیوں کے اوقات کی مفصل اطلاعات بہم پہنچاتی تھی بلکہ شہریوں سے اس محکمے کا شفاف رشتہ بھی قائم کرتی تھی۔ اس میں محکمانہ کارکردگی کے جملہ قواعد و ضوابط کا واضح اندراج ہوتا تھا مع متعلقہ دفاتر یا افسروں کے رابطے کے، تاکہ ناقص کارکردگی کے متعلق فوراً شکایت کی جاسکے۔ ساتھ ہی مسافروں کے جملہ حقوق کا بہت تفصیل سے ادراج ہوتاتھا۔ مثلا ً یہ کہ ڈائننگ کار یا ریل کے ڈبے کی کھڑکی سے ٹرے میں خریدے ہوئے کھانے میں ٹھنڈے پانی سمیت کیا شامل ہوگا اور اگر وہ نہ ہو تو کس طرح فوری شکایت سے ازالہ ہوسکتا ہے۔ چناں چہ یہ کتابچہ لوگوں کے ہاتھ میں احتساب کا ایک چھوٹا سا تازیانہ بھی دے دیتا تھا۔
ریلوے کا مذکورہ بالا بندوبست تو قیام پاکستان سے پہلے انگریز حاکموں کا قائم کردہ تھا، مگر اس کے قد و قامت کا تعین ان کے اپنے استعماری قبضے کی ضروریات کے مطابق ہوتا تھا۔ جب پاکستان بنا تو ریلوے کی بیوروکریسی اسے ایک آزاد اور ترقی پذیر ملک کے شایان ِ شان بنانے پر تل گئی اور چند ہی برسوں میں حسن ِ صورت اور حسنِ انتظام میں کئی گنا اضافہ کردیا۔ اسی آزمودہ طریق کار سے جس نے وسیع برٹش امپائر کو تین صدیوں کا ثبات اور استحکام دیا تھا کہ ہر محکمہ قواعد و ضوابط کی ایک چھوٹی سی کتاب کو اپنا ایمان بنالیتا تھا اور اس پر سختی سے عمل کرتا تھا۔ ریلوے ٹائم ٹیبل بھی ایسی ہی کتا ب تھی۔ جس کی اصل اہمیت سے میں ان دنوں تو لاعلم تھا۔ مگر چند برس بعد جب میں مزید تعلیم اور سول سروس کی ٹریننگ کے لیے انگلستان گیا اور وہاں مختلف محکموں کی کارکردگی دیکھی، تو اس قسم کے کتابچے کی حکمت سمجھ میں آئی اور پھر کیمبرج یونیورسٹی میں کرسٹفر اینڈرسن سے تبادلہ ٔ خیالا ت کے بعد احساس ہوا کہ یہ کتابچہ تو برٹش ایمپائر کی Good governanceکی کنجی ہے۔۔۔ (جاری ہے)