Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Shukriya Modi

Shukriya Modi

بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں 72سال سے آزادی کے نعرے تو لگ ہی رہے تھے اور جس کے لئے ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری اپنے خون کا نذرانہ دے چکے ہیں، اور 8لاکھ بھارتی غاصب فوج جن کو اب تک دبانے اور کچلنے میں ناکام رہی ہے، آج سرینگر اور مقبوضہ کشمیر میں لگنے والے نعرے سارے ہندوستان میں دہلی سرکار کے زیر تسلط ریاستوں میں لگ رہے ہیں۔ دہلی میں شاہین باغ کی خواتین کا ذکر ذرا بعد میں کروں گا، جو بھارت کی تاریخ کے سرد ترین دنوں میں گذشتہ چالیس دن سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے بچوں کو گودمیں لیے بھارتی ترنگا اٹھائے سراپا احتجاج ہیں۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کی مثال بھارتی تاریخ ہی کیا، برصغیر بلکہ ساری دنیا میں شاید ہی ملے۔ یوں تو دنیا بھر میں جو خودمختاری اور آزادی کی جنگیں لڑی گئیں، ان میں مردوں کے ساتھ ایک حد تک شانہ بہ شانہ خواتین بھی ہوتی تھیں۔ مگر دہلی میں رہنے والی مڈل کلاس، بلکہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی وہ خواتین جو اول تو گھروں سے کم ہی نکلتی تھیں، اور اگر نکلتی بھی تھیں تو روایتی برقعوں اور حجابوں میں۔ مگر مودی سرکار کا اس اعتبار سے شکر گذار ہی ہونا چاہئے کہ انہوں نے نہ صرف دہلی بلکہ بہار، بنگال، لکھنئو میں ان مسلمان خواتین کو ہزاروں کی تعداد میں دھرنے پہ لابٹھایا کہ جو عموماً صرف ووٹ ڈالنے کی حد تک ہی اپنا کردار ادا کرتی تھیں۔

اسے مودی سرکار کی خودسری اور بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ شہریت ترمیمی بل لاکر ہندوستان کی کروڑوں کی تعداد میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو جو ہندوتوا کے تابع لانا چاہتے تھے، وہ الٹا اُن کے گلے پڑ گیاکہ بہرحال اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان میں ابھی بھی سول سوسائٹی نہ صرف ایک موثر قوت ہے بلکہ اُس نے مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ اس بل کی مخالفت میں دھرنوں اور ریلیوں میں شرکت کر کے یہ ثابت کیا کہ اگر ایک طرف انتہا پسندمودی کا بھارت ہے تو دوسری طرف گاندھی وادی بھی ان کے مقابل ہیں۔ عموماً ایک عام سوال یہ کیا جاتا تھا کہ کشمیری مسلمان جو دہلی سرکار کے خلاف برسوں سے مزاحمت کررہے ہیں، اُس پر ہندوستانی مسلمان اور سول سوسائٹی سڑکوں پر احتجاج کیوں نہیں کرتی۔۔۔ اس وقت میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کشمیر کیس اور کاز کو نقصان پہچانے میں پاکستانی حکمرانوں خاص طور پر مہم جو لشکروں، سپاہوں اور حزبوں نے بھی بڑا کردار اد ا کیا۔ اول تو تقسیم ہند کے بعدجب کشمیری مجاہدین سرینگر سے چند میل کے فاصلے پر رہ گئے تھے تو اُس وقت کے مسلم لیگی رہنماؤں کی ساری توجہ جائیدادوں اور اقتدار کی بندر بانٹ میں تھی۔ یہ تو اقوام متحدہ میں اس وقت کے پاکستان کے مستقل نمائندے سر ظفر اللہ خان کو کریڈٹ جائے گا کہ انہوں نے جواہر لال نہرو جیسے کرشمہ ساز اور عالمی سطح کے سیاسی رہنما کو سلامتی کونسل میں ایسا گھیرا کہ وزیر اعظم جواہر لال نہرو اس بات پر مجبور ہوگئے کہ وہ اس قرار داد کو قبول کرلیں۔ جس میں واضح طور پر کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دیتے ہوئے اس کا واضح حل رائے شماری کہا گیا تھا۔

ہندوستان کے مقابلے میں معاشی اور سیاسی طور پہ غیر مستحکم نوزائیدہ پاکستان کی سفارتی محاذ پر یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ مگر بانی ِ پاکستان قائد اعظم کی رحلت کے بعد ہمارے مسلم لیگی حکمراں تنازعۂ کشمیر کو حل کرنے کے بجائے اپنے اقتدار کو طول دینے میں لگے تھے۔ مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ مخالف متحدہ اپوزیشن کی حکومت کو توڑنا اور پھر پہلی دستور ساز اسمبلی کو لپیٹ کر عنان ِ اقتدار انگریز کے چار پروردہ بیوروکریٹس یعنی گورنر جنرل غلام محمد، سکریٹری دفاع اسکندر مرزا، سکریٹری جنرل چوہدری محمد علی اور ہاں، مشتاق احمد گورمانی نے محض ہماری آزادی کے آٹھ سال بعد ہی وہاں کھڑا کردیا جہاں اقوام ِ عالم کے سامنے ہم کشمیر کا کیس لے کر کیا جاتے۔۔۔ خود پاکستان ہی کو ایک غیر آئینی، غیر جمہوری ریاست بنا کر ایک مذاق بنا چکے تھے۔ رہی سہی کسر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے طول طویل مارشل لاء نے پوری کردی۔ بھلے سن1965ء کی جنگ سے آپریشن جبرالٹر کو ایک سازش ہی قرار دیا جائے مگر بہر حا ل پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے سن 1948ء کی جنگ بندی کے بعد کشمیر کے تنازع کو ایک بار پھر ساری دنیا میں زندہ کردیا۔ تاشقند ڈکلیریشن بھی اس بات کا ثبوت تھا کہ اس وقت کی سپر پاور سوویت یونین نے یہ تسلیم کیا کہ کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے۔۔۔

میں اس وقت افغان جنگ کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔۔ کہ جس نے خود کشمیر کاز کو کتنا بڑا نقصان پہنچایا۔ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں ہونے والے سن1988ء کے الیکشن کے بعد، جس میں دہلی سرکار سرینگرمیں اپنی پٹھو حکومت لائی تھی، اُس پر جو عوامی رد عمل سامنے آیا، اُس نے 1990ء کی دہائی کے آغاز میں ایک ایسی پاپولر عوامی تحریک کی بنیاد ڈال دی جسے دبانے کے لئے بھارت کو اُس وقت کم از کم اپنی چار لاکھ فوجوں کو بھیجنا پڑا۔ مگر یہی وہ مرحلہ تھا جب ہماری اسلام آباد سرکار سے یہ چوُک ہوئی کہ جنہوں نے کابل کو فتح کرنے کے دعویدار دینی مذہبی جماعتوں اور ان کے ملٹینٹ لشکروں، سپاہوں اور حزبوں کی پیٹھ ٹھونکی کہ وہ کابل سے سرینگر کی جانب روانہ ہوجائیں۔ یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گا کہ اس وقت کی تحریک ِ آزادیِ کشمیر سیکولر تو نہیں کہوں گا لیکن مسلکی اور مذہبی نہیں تھی۔ مقبوضہ کشمیرمیں کشمیری مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتیں بھی آزادی کی تحریک میں شامل تھیں۔۔۔ مگر اس طرف سے جانے والے لشکروں اور سپاہوں اور حزبوں نے تحریک ِ آزادی ِ کشمیرکو مذہبی بلکہ مسلکی رنگ دے کر ہائی جیک کرلیااور پھر جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چالاک و مکار بھارتی حکمرانوں کو اس بات کا موقع مل گیا کہ وہ پوری تحریک کو پاکستان کی پراکسی وار قرار دیتے ہوئے اسے ہماری ایجنسیوں کے کھاتے میں ڈال دیں۔ کشمیریوں نے 90ء کی دہائی میں جو بے پناہ قربانیاں دیں، بدقسمتی سے اکیسویں دہائی کے آتے آتے وہ دم توڑ گئیں۔ اور پھر نوبت یہ آئی کہ امریکہ سمیت محض مغربی ممالک ہی نہیں بلکہ ہمارے برادر مسلم ممالک نے بھی اس تحریک کا ساتھ اس لئے چھوڑ دیا کہ بھارت عالمی سطح پر یہ قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ کشمیریوں کی اپنی indigenous یعنی مقامی جدو جہد نہیں ہے۔

کشمیر کا مسئلہ ہی ایسا ہے کہ جب اس کا ذکر چھڑتا ہے تو پھر سمیٹا نہیں جاتا۔ 5 اگست 2019 میں مودی سرکار نے آرٹیکل 370 ختم کرکے ایک بار پھر تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونک دی۔ چھ ماہ ہوگئے۔ سخت کرفیو کے باوجود اب اپنے گھروں سے نکلنے والے کشمیری نوجوان واپس لوٹنے کے لئے تیار نہیں۔ برحان وانی کی نوجوان قیادت اب بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ نہ اُسے پاکستان کی ضرورت ہے اور نہ عالمی رائے عامہ کی۔ اور پھر سی اے اے بل نے تو مودی سرکار سے ہمالیہ سے اونچی وہ غلطی کروائی کہ آج محض کشمیر نہیں تقریباً ساری ہی ہندوستا ن کی ریاستیں آزادی کے نعروں سے گونج رہی ہیں۔ نہرو کے سیکولر بھارت کی موت کبھی کی ہوچکی اور اب مودی کے بھارت کا تابوت تیار ہوچکا ہے۔ اس کے لئے کسی اور کو نہیں، مودی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔

About Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi is a veteran journalist from Pakistan. He has a current, daily evening show, "Doosra Pehlu", for CNBC Pakistan. He founded Sonehra Daur Karachi in the 80's. Bankari was a monthly that would help a political activist know about the economic and fiscal realities.