اس سے پہلے کئی بار لکھ چکاہوں کہ کسی بھی ملکی یا غیر ملکی مسئلے پر بھارت کا حوالہ دیتے ہوئے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ اُس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے پچاس کی دہائی میں پاکستان کے وزرائے اعظم کی ہر چند ماہ میں تبدیلی پر پھبتی کستے ہوئے کہا تھا کہ اتنی میں شیروانیاں تبدیل نہیں کرتا اُس سے کم وقت میں پاکستان کا وزیر اعظم تبدیل ہوجاتا ہے۔۔۔
جی ہاں، 1951سے 1958کے دوران سات سال میں آٹھ وزرائے اعظم۔۔۔ کپتان وزیر اعظم ان دنوں اپنے وزیروں، مشیروں اور سکریٹریوں کو بیٹنگ یا باؤلنگ آرڈر کی طرح تبدیل کررہے ہوتے ہیں۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وزیر اعظم جیسے عہد ہ ٔ جلیلہ پر پہنچنے کے باوجود اُن کے اندر سے کرکٹ نہیں نکلتا۔ ہر وقیع اور دقیع مسئلے پر بات کا آغاز کرکٹ ورلڈ کپ سے ہوتا ہے۔ مگر کرکٹ محض ایک کھیل، بلکہ جُواہوتا ہے۔ جبکہ سیاست۔۔۔ سیاست میں وقت پر اور حقائق کی بنیاد پر فیصلے نہ ہوں اور تیز رفتار تبدیلی پر نظر اور نبض پر ہاتھ نہ ہو تو کُرسی سے منہ کے بل گرنے سے چند منٹ بلکہ لمحوں پہلے بھی خوش فہمی ہوتی ہے کہ" جس کُرسی پر وہ بیٹھا ہے، وہ بڑی مضبوط ہے"۔۔۔
سب سے بڑا حوالہ تو بھٹو صاحب ہی ہیں اور پھر ہمارے "میاں۔۔۔ بی بی "۔ یہ ساری تمہید اس لئے باندھی کہ ہمارے کپتان باقی محکموں اور شعبوں سے تو کھلوا ڑ کر تے رہے ہیں۔۔۔ مگر کم از کم "کشمیر کاز " (Kashmir cause) کے ساتھ یہ سلوک روا نہ رکھیں۔ کہ اس وقت نہتے مظلوم کشمیری ایک لاکھ جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ اگست 2019ء سے لگے کرفیو اور پھر کورونا وائرس جیسی ناگہانی آفات بھی اُن کے حوصلے پست نہ کرسکے۔ اور یہا ں سنجیدگی کا عالم دیکھیں کہ "کشمیرکمیٹی " کا سربراہ۔۔۔ شہریار آفریدی جیسے خارجہ تعلقات میں بارہویں کھلاڑی کو لگا دیا گیا ہے۔ اُن سے قبل اس کمیٹی کے کے چیئر مین ہمارے شریف النفس فخر امام تھے۔۔۔ جنہیں ہمارے وزیر اعظم نے اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ کم ازکم سلامتی کونسل کے سالانہ اجلاس میں ہی ساتھ امریکہ لے جاتے کہ اُس وقت نریندر مودی کے اگست میں کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جاری رکھنے کے لئے آرٹیکل کی تبدیلی پر ساری دنیا میں شدید رد عمل کا اظہار کیا جارہا تھا۔ مگر ایک ہمارے کپتان وزیر اعظم پر ہی کیا منحصر ہے۔۔۔ ماضی کے حکمرانوں نے "کشمیر" پر سیاست تو ضرور کی مگر۔۔۔"کشمیریوں " کو اُن لشکروں، سپاہوں اور اداروں پر چھوڑدیا کہ جن کا اپنا ایجنڈا اور اپنی ترجیحات ہیں۔۔۔ اس حوالے سے مزید کچھ نہیں کہوں گاکہ اس پر "آدھاپیج" لکھنے سے بھی فائدہ کم نقصان زیادہ ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ جب آ زاد کشمیر کی اپنی ایک منتخب حکومت ہے جس کے کم از کم اس قوت کے وزیر اعظم اور خاص طور پر صدر ایسے کمیٹڈ لوگ ہیں تو۔۔۔ آخر قومی اسمبلی اور سینیٹ کی درجنوں ارکان پر مشتمل کمیٹیوں کا اس کے علاوہ اور کوئی جوا ز نظر نہیں آتا کہ "اپنوں اپنوں " کو کس طرح نوازا جائے۔ معذرت کے ساتھ۔۔۔"اپنوں اپنوں " کو نوازنے کے لئے 50 سے زیادہ وزارتوں، محکموں، ان کے وزیروں، مشیروں اور معاونین کی فوج ظفر موج کیا کم ہے کہ برصغیر پاک و ہند ہی نہیں عالمی سطح پر اس خونی تنازعہ تک کو نہ بخشا جائے کہ جسے پاکستان کی شہ رگ کہا جاتاہے اور جس سے 73سال سے خون رِس رہا ہے۔۔۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس کشمیر کمیٹی اور خود ان کے سربراہان کا یہی موقف ہوتا ہے کہ " مسئلہ کشمیر" کو ساری دنیا میں اجاگر کرنے کے لئے ملکوں ملکوں اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں۔
واہ واہ! سبحان اللہ۔۔۔ میر ؔ کیا سادہ ہیں۔۔۔ !بصد احترام۔۔۔ کشمیر کو ایک متنازعہ مسئلہ اور رائے شماری کے ذریعہ اس کا حل کرانے کی قرار داد تو اکتوبر 1948ء میں ہی اُس وقت اکثریت سے منظور کرالی گئی تھی جب کوئی اور نہیں۔۔۔ جواہر لال نہرو جیسا ذہین و فطین عالمی سطح کا لیڈر بھارت کا وزیر اعظم تھا۔ یقینا اس کا اُس وقت کریڈٹ اقوام ِ متحدہ میں ہمارے پہلے مستقل مندوب سر ظفر اللہ خان کو دیا گیا تھا کہ جنہوں نے اپنی علمیت، ذہانت اور جوش خطابت سے "کشمیر" کا کیس اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ بعد میں بھارت کے اُس وقت کے اقوام ِ متحدہ میں نمائندے نے تسلیم کیا کہ بزور ِ طاقت سرینگر ہم نے ضرور فتح کرلیا۔۔۔ مگر اخلاقی اور قانونی طور پر سر ظفر اللہ خان کے دلائل کے سامنے ہم سرینڈر ہوگئے!
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس قرار داد کی منظوری کے بعد دونوں محاذوں پر یعنی سفارتی اور عسکری۔۔۔ ہم اپنا دباؤ جاری رکھتے۔۔۔ مگر یہاں صورت ِ حال یہ تھی کہ بانی ِ پاکستان کی رحلت کے بعد آنے والے حکمرانوں کو کشمیریوں سے زیادہ شیروانیوں کی فکر تھی۔۔۔ بانی ِ پیپلزپارٹی کو اس کا بہرحال کریڈٹ جائے گا کہ 1965ء کی جنگ اور پھر بعد کے برسوں میں انہوں نے "کشمیر کاز" کو محض زبانی ہی زندہ نہیں رکھا بلکہ پاکستان کو جوہری قوت بنانے کی بنیاد بھی رکھ دی جس کے سبب پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے۔
کشمیر کمیٹی کے حوالے سے سب سے زیادہ شہرت ہمارے حضرت مولانا فضل الرحمان نے پائی جو 2008ء کے بعد میاں، بی بی دونوں کی حکومت میں اس کے سربراہ رہے۔ یہ بات بھی حیرت کی ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمان کا تعلق جس مسلک و مکتبہ ٔ فکر سے ہے، میری مراد دیوبندسے ہے۔۔۔ جنہوں نے قیام ِ پاکستان کی ببانگ دہل مخالفت کی تھی۔۔۔ یقینا اس وقت علمائے دیو بند کا یہ ایک اصولی موقف تھا۔۔۔ علمائے اہل دیوبند کی اکثریت نے بعد میں بھارت میں رہنے کو ترجیح بھی دی۔ اور بلا شبہ آج یہ اہل دیو بند کا مدرسہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے مشعل ِراہ بھی ہے۔ مگر ہمارے حضرت مولانا فضل الرحمان، اُن کے آبااور اکابرین نے ہجرت اختیار کرکے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شہریت تو اختیار کی۔ یہی تضاد اُن کی سیاست میں بھی رہا۔ ان کی واسکٹ کی ایک جیب میں پی پی کا تیرہے تو دوسری جیب میں جاتی امراء کی دی ہوئی سونے کی کنجی۔ دلچسپ بات نہیں کہ حضرت مولانا فضل الرحمان دونوں جماعتوں کے ادوار میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے اور وہ بھی اس شان سے کہ رتبہ وفاقی وزیر کا رکھتے تھے اور قیام بھی منسٹرز انکلیو میں۔۔۔ حضرت مولانا کے پورے ادوار میں کشمیر کمیٹی کی صرف تین میٹنگیں ہوئیں اور ان کے غیر ملکی دورے پر 175 ملین روپے۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ 17کروڑ50لاکھ۔ ان کے دوروں کی سفارتکاری کے ثمرات دیکھیں کہ سال ِگذشتہ ستمبر میں سلامتی کونسل کے سولہ ارکان نے ایک مذمتی قرار داد بھی بھارتی مظالم کے خلاف قبول کرنے سے انکار کردیا۔۔۔ (جاری ہے)