ہیتھرو ایئرپورٹ پر جب حسب، روایت بیرسٹر صبغت اللہ قادری اور اُن کی بیگم کریتا کے انتظار میں تھا۔۔۔ سالِ گزشتہ جب فیض ؔ میلے میں شرکت کے لئے آمد ہوئی تو امارات کی فلائٹ بھی ہماری قومی ایئر لائن کی طرح تین گھنٹے کی تاخیر سے پہنچی۔۔۔ مگر ہفتے کی شب نہ صرف فلائٹ آدھے گھنٹے پہلے پہنچی بلکہ لمبی قطار اور امیگریشن کے ہاتھوں سے گذرنے میں چند منٹ ہی لگے مگر ہاں۔۔۔ اسلام آباد میں بیٹھے کپتان وزیر اعظم عمران خان کو خبر ہو کہ اُن کی حکومت کے ہلنے کے بارے میں اُن کے جوانی کے دنوں کے لندن میں بھی اچھی خبرسننے کو نہیں مل رہی کہ اور تو اور۔۔۔ انگریز امیگریشن افسر نے بھی پوچھا :
"How is the Captain's Government?"
یہی نہیں بلکہ اُس نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ:
"I think the main reason is price hike."
مگر ساتھ ہی اُس نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ہمارا وزیر اعظم سابقہ حکمرانوں کی طرح کرپٹ نہیں۔۔۔ یہ لیجئے، جس کمبل یعنی سیاست کو چھوڑ کر لندن میں چند دن سرد شامیں بیتے دنوں کے دوستوں کے ساتھ گذارنے آئے تھے۔۔۔ اور یہ طے کر بیٹھے تھے کہ خان صاحب کی حکومت کے ہلنے، گرنے یا سنبھلنے کے بارے میں کتنے ہی سوال ہوں ہونٹ سی کر بیٹھیں گے۔ مگر پاکستانی دوستوں کو تو چھوڑیں۔۔۔ ہزاروں میل دور بیٹھے گورے نے لندن میں داخل ہونے سے پہلے ہی "دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا"۔ ادھر لندن میں ہمارے مرشد بیرسٹر صبغت اللہ قادری نے ہاتھ ملانے سے پہلے ہی یہ اندوہناک خبر دی کہ آئندہ دو دن آپ کو گھر میں بیٹھنا ہوگا کہ Ciara Storm سارے برطانیہ سے ٹکرانے والا ہے۔
یہ لیجئے، یوں لندن کے پارکوں، پبوں اور کلبوں میں بھی اگلے دو دن بندش کی دوسری بری خبر ملی۔ منفرد لہجے کے شاعر ن۔ م۔ راشد یاد آگئے (ذرا ترمیم کے ساتھ):
زندگی سے بھاگ کر آیاہوں میں
اے میری ہم رقص مجھ کو تھام لے
مگر ادھر نہ پب، نہ کلب، نہ ہم رقص۔۔۔ بس رہے نام اللہ کا۔ سو، اے عزیزو۔۔۔ جس طوفان سے ہمارے بیرسٹر صاحب خوفزدہ کررہے تھے۔ اور ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ "یہ طوفان بڑی تباہی پھیلان دے گا"۔۔۔ اس پر سر تسلیم ِ خم کرنا پڑا۔۔۔ کہ جو احباب بیرسٹر صبغت اللہ قادری کو جانتے ہیں، اُن کے سامنے بحث کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ورنہ ہم پاکستانی اب اتنے ڈھیٹ بن چکے ہیں کہ آسمانی طوفان آئیں یا زمینی طوفان تباہی لائیں۔۔۔ ہمارے لبوں پر اس کے بعد بھی یہی ترانہ ہوتا ہے:
ہم زندہ قوم ہیں / پائندہ قوم ہیں
سو، پہلی شب تو سیارہ طوفان کے انتظار میں گذ ر گئی۔ دوسرے دن واجد بھائی یعنی سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن سے ملاقات فرائض میں شامل تھی۔ بیرسٹر صبغت اللہ قادری اور واجد شمس الحسن ہمارے پیغمبری دورکے بزرگ دوست ہیں۔ بیرسٹر، ایوب خان کے دور میں جیلیں اور شہر شہر بدری سے تنگ آکر لندن آگئے۔ یہاں نہ صرف بیرسٹر ہوئے بلکہ پہلے مسلم QCیعنی Queen's Councilکا اعزاز حاصل کیا۔ ایوب خان اور پھر جنرل ضیاء الحق کے ہی نہیں سویلین حکمرانوں کی مطلق العنانیت کے خلاف دہائیوں سے لندن میں صفِ اول میں کھڑے ہوتے ہیں۔ بظاہر اب ریٹائرڈ لائف ہے۔۔۔ مگر زندگی سے بھرپور شامیں گزارنے کے مشتاق کراچی آئیں تب بھی ایسی ہی محفلِ ہاؤ ہو چاہتے ہیں۔ کوشش تو ہوتی ہے۔ مگر بیرسٹر کی طرح کی میزبانی ساری جمع پونجی اور بس دو تین شاموں کی مار ہوتی ہے۔۔۔۔ مگر بیرسٹر جب کراچی آتے ہیں، جہاں ہوتے ہیں، وہاں ان کے احباب سبیل لگا دیتے ہیں۔ رہے واجد بھائی تو بھٹو خاندان کی وفاداری میں جبریہ جلا وطنی گزاررہے ہیں۔ ادھر بیماری نے آن پکڑا ہے۔ مگر قلم اور "کی بورڈ" نہیں چھٹتا۔
اتوار کو بیچ طوفان کے تھپیڑوں میں لندن میں ہماری منڈلی میں نئے نئے شامل ہونے والے سجاد بٹ جس طرح اپنی گاڑی میں واجد بھائی کے ہاں لے گئے۔۔۔ یہ کام بس کوئی بٹ، ہی کرسکتا ہے۔ ایسے ہی جیسے جو کام ماڈل ٹاؤن میں گلُو بٹ نے کیا وہ کوئی جیالہ، متوالہ اور کھلاڑیوں کاکھلاڑی ہی کرسکتا تھا۔۔۔
سو، فنچلے کے ایک گرما گرم ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر طوفان اپنی آنکھوں سے گذرتا دیکھا۔۔۔ پیشن گوئی تو اگلے دن کی بھی تھی۔ مگر موسم اتنا خوشگوار کہ آتی جاتی دھوپ بڑا لطف دے رہی تھی۔ وہ بھی دریا ئے ٹیمز کے کنارے۔ ہئے ہئے۔۔۔ جب بھی اور جتنے بار بھی دریائے ٹیمز سے گذریں، منفرد لہجے کے شاعر مصطفیٰ زیدی کا یہ پہلا شعر بڑا Hauntکرتا ہے۔۔۔
ساحلِ ٹیمز پہ سنگم کا صنم یاد رہاوقتِ رخصت وہ تیرا دیدۂ تر یاد رہالندن میں تیسری شام ہے۔۔۔ فیض میلہ والے اکرم قائم خانی کا خاص بلاوا ہے۔۔۔ چوتھی اور پانچویں شام کے لئے بھی فون آرہے ہیں۔۔۔
راتاں چھوٹیاں تے یار بہت
تو کنوں کنوں کا مان رکھئے
ارے ہاں، احباب اور دوستوں کے قصوں میں یہ تو بھول ہی گیا کہ اس وقت برطانوی عوام نے بریگزٹ کے خلاف بھاری تعداد میں ووٹ تو دے دئیے۔۔۔ اوربرطانوی وزیر اعظم کے مطابق کم از کم ایک سال میں علیحدگی کا پراسیس مکمل ہوگا۔ لیکن لندن کے صحافتی سرخیلوں کا کہنا ہے کہ۔۔۔ مستقبل میں برطانوی معیشت پر بریگزٹ کے سبب گہرے اثرات پڑیں گے۔ نہ صرف اس سے براہ راست ٹریڈ پر اثر پڑے گا، اور اس سے بھی زیادہ اُن تارکین ِ وطن پر جو اب دہائیوں بعد اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے تھے۔ یوں بھی برطانیہ میں جو قوانین لائے جارہے ہیں، اُس سے لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی طور پر آنے والوں پر شدید پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ گوروں میں بحیثیت ِ مجموعی امتیازی سلوک نہیں پایا جاتا۔
سو فی الحال تو پاکستانیوں کو خبر ہو کہ اُن کے آنے جانے پر کوئی بڑی پابندی نہیں لگنے جارہی۔۔۔ اورہاں، چلتے چلتے کرونا وائرس کے بارے میں بھی بتاتا چلوں کہ برسہا برس سے آرہا ہوں، مگر ایئر پورٹ پر امیگریشن کے بعد پاسپورٹ کی ایسی چیکنگ نہیں دیکھی گئی کہ صرف چینی ہی نہیں۔۔۔ اُن سے ملتے جلتے جاپانی، کوریائی، ویتنامی، انڈونیشین اور ملائیشین کی ایک بار نہیں، چار چار بار پاسپورٹ الٹ پلٹ کر دیکھے جاتے ہیں۔۔۔ کرونا وائرس سے برطانیہ میں بھی پیر تک ہلاکتوں کی تعداد دس تک پہنچ گئی ہے۔ جس طوفان کا ذکر کیا تھا۔۔۔ اُس نے بھی لندن تو نہیں، مگر اطراف کے شہروں میں بڑی تباہی اور بربادی پھیلائی۔ جس کا ذکر آئندہ کالم میں کہ برطانیہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی ناگہانی آفات کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔