میرے لئے21اگست 2021 کا دن المناک دن تھا جب میراپیارا اورقابل فخر دوست، جس نے زندگی کے ہر موڑ پرساتھ دینے میں کوئی کسرنہیں اٹھا رکھی، رضائے الہٰی سے ساتھ چھوڑ گیا۔ اس افسوسناک خبر کی اطلاع گذشتہ چار دہائیوں سے زیادہ پر محیط چار دوستوں کی ٹولی میں سے ہمارے ایک دوست اشفاق خٹک نے دی۔ میری بدقسمتی کہ کورونا کے حملے کا شکار ہونے کے باعث میں بستر سے ہلنے کے قابل بھی نہیں تھا، کچھ ہی عرصہ پہلے دوستوں کی اِس ٹولی کو شفیق اللہ خان جدائی کا غم دے گیا اور اب گویا جسٹس ریاض کی اچانک موت نے اس ٹولی کو ختم ہی کرکے رکھ دیا۔
دوستوں کے بغیر آدمی بکھر کر رہ جاتاہے۔ خود کو جوڑنا بھی چاہے تونہیں جوڑ سکتا۔ خونی رشتوں کے بارے میں طرح طرح کی توجیحات کی جاسکتی ہیں، خون کا رشتہ آسانی سے اس لئے سمجھ میں آجاتاہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اس رشتے کی چاشنی سے آشنا ہوتا ہے اسکی مٹھاس اور اُس کی تپش سے واقف ہوتا ہے جبکہ دوستی اپنی اپنی ہوتی ہے۔ رشتوں کی تعداد معین ہوسکتی ہے دوستی کی نہیں۔ رشتوں کے بندھن میں تلخیاں بھی بندھی ہوتی ہیں لیکن دوستی کے تعلقات ان تلخیوں کے بندھن سے آزاد ہوتے ہیں۔ بھائی بہنوں کے تعلقات میں اکثر اوقات وراثتی معاملات تلخیاں پیدا کردیتے ہیں جبکہ دوستیاں ان فضولیات سے آزاد ہوتی ہیں۔ خون کے رشتے اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ ہر قسم کے لڑائی جھگڑوں کے باوجود قائم رہتے ہیں۔ بھائی کو قتل کرنے والا پھر بھی بھائی ہی رہتا ہے لیکن ایک معمولی سا غیر دوستانہ اقدام دوستی کو فوراً ختم کردیتاہے۔ ہمارامعاشرہ ایک بڑ ا مربوط معاشرہ ہے۔ ہمارے ہاں رشتہ داریاں بھی بڑی شدومد سے نبھائی جاتی ہیں اور دوستیاں بھی پوری آب وتاب کے ساتھ نبھائی جاتی ہیں۔
چونکہ زمانے نے ایک عجیب وغریب کروٹ بدلی ہے جس نے رشتہ داریوں اور دوستیوں سب کچھ کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ پہلے دوستی اور رشتے کے تعلقات آدمی کو اکیلا نہیں ہونے دیتے تھے۔ ا ب چونکہ ان دونوں تعلقات کی گہرائیاں اپنی وسعتیں کھو چکی ہیں اس لئے آدمی اکیلا ہوگیا ہے۔ موبائل فون آدمی کا دوست بھی بن گیا ہے اور رشتہ دار بھی۔ جن رشتوں نے ذہن ودماغ کے خلائوں کو مسلسل پُر رکھا ہوتاتھا وہ رشتے پیچ سے نکل چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گھر کے چار پانچ لوگ اس گھر میں اکیلے اکیلے زندگیاں بسر کررہے ہیں۔ شاید اسلئے پہلے زندگی سے خوف نہیں آتا تھا اب زندگی سے ڈر لگتا ہے پہلے زندگی زندگی تھی اب زندگی تنہائی بن چکی ہے۔
ہم اس دنیا میں جب تک زندہ ہیں رہنے پر مجبور ہیں۔ زندگی کا مزہ تب ہی آتا ہے جب وہ اپنی مرضی سے گذاری جائے۔ اپنی مرضی سے زندگی گذارنے مقصد کیاہوتاہے؟ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گذرانے کا مقصد "میرا جسم میری مرضی" نہیں۔ انسانوں کے بنیادی حقوق کی نشاند ہی کی جا چکی ہے جن کے تحت زندگی گزارنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ ان حقوق کی حفاظت عدالتوں کے ذریعے انجام دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے نچلی سطح پر ہمارے عدالتی نظام سے لوگوں کو بہت زیادہ شکایات ہیں۔ ایک دفعہ جسٹس رستم کیانی مرحوم نے کوئی فیصلہ سنایا جس بوڑھی خاتون کے خلاف فیصلہ سنایا گیا وہ عدالت میں پھٹ پڑی اور بولی "کیا یہ کوئی عدالت ہے؟ " بعد ازاں جناب جسٹس محمد رستم کیانی نے اُسے اپنے پاس بلایا اور کیا "بی بی یہ عدالت نہیں کچہری ہے " انھوں نے ایک دکھی خاتون کو نہایت تسلی بخش انداز میں فیصلوں میں مدنظر رکھی گئی قانونی باریکیوں کے بارے میں آگاہ کردیا تھا۔
دوسر ی طرف مجھے جسٹس ریاض احمد خان مرحوم نے ایک ایسا واقعہ سنایا تھا کہ جو آج تک میرے ذہن سے محو نہیں ہوسکا۔ ایک قتل کے مجرم کو فیصلہ سناتے وقت کسی جج صاحب نے اُسے کہا کہ " مجھے تم کو سزائے موت دیتے وقت کوئی خوشی محسوس نہیں ہورہی لیکن تم اس بات پر غور کرو کہ عدالت میں موجود اس وقت اس بارہ سالہ معصوم بچے کا وہ باپ تھا اس کے اور اس کے بھائی بہنوں اوران کی ماں کا واحد کفیل تھا ان بچوں اور ان کی والدہ پر جو مصیبت کے پہاڑ ٹوٹے ہیں وہ اس وجہ سے ٹوٹے ہیں کہ تم نے اُن کے باپ کو قتل کردیا ہے اگر تم خود بھی غور کروتو اُن کے باپ نے تمہارے ساتھ کوئی اتنی بڑی زیادتی نہیں کی تھی کہ جس کی سزا تم نے اُسے قتل کردینے کی صورت میں دی۔ اس لئے میں مجبور ہوں کہ تمہیں قانون کے مطابق سزائے موت سنائوں " جوبا ت نہ بھولنے والی ہے وہ یہ ہے کہ مرحوم جسٹس ریاض کے مطابق جس مجرم کے خلاف فیصلہ سنایا گیا، وہ جج صاحب کو اونچی آواز میں دعائیں دیتے ہوئے بھر ی عدالت میں کہتا رہا کہ "حضور آپ نے فیصلہ بالکل انصاف کے مطابق کیا ہے اللہ آپ کو اسکا اجر دے"
جسٹس ریاض احمد خان میرے بیج میٹ تھے۔ وہ ان چند دوستوں میں سے تھے جو میری زندگی کی ہر خوشی میں شریک ہوئے۔ سی ایس ایس کے بعد ان کی تعیناتی پاکستان ریلوے گروپ میں ہوئی، بہرحال کچھ عرصہ کے بعد انھیں ریلوے کی ملازمت کو خیر باد کہا اور عدلیہ میں چلے گئے۔ جہاں سے رفتہ رفتہ وہ پہلے اسلام آبا د ہائی کورٹ کے جج اور پھر فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ اپنی قابلیت اور علم کے ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم انسان تھے، ہمیشہ غیر متنازعہ رہے۔ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قو ل کے مطابق " تمہارا وہ ذکر خیر جو تمہارے بعد کیا جائے اس مال ودولت سے کہیں بہتر ہے جو تم دوسروں کے لئے چھوڑ کر مرو" کے مصداق تھے۔ ملک قمرافضل جو پاکستان سپریم کورٹ کے سنیئر ترین نامی گرامی وکلاء میں سے ہیں، جسٹس ریاض کی موت کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ ان جیسی خوش اخلاق اور ملنسار شخصیت کم کم ہی پیدا ہوتی ہے۔ حق مغفرت کرے، عجیب آزاد مرد تھا۔
دوستوں نے آپس میں جائیدادیں نہیں بانٹنی ہوتیں۔ دوست صرف خوشیاں اور غم بانٹتے ہیں۔ میری بیٹی زینب افندی جب ایک وکیل کی حیثیت سے ان کی عدالت میں پیش ہوتی تھی تو بتاتی تھی کہ جسٹس ریاض خاتون وکلاء کے دلائل جج سے زیادہ ایک باپ کی طرح سنتے تھے اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے جب اپنے گھر یاکبھی میرے گھر پر ملاقات ہوتی ضرور کہتے " زینب کو جج بننا چاہئے"اللہ تعالیٰ مر حوم جسٹس ریاض احمد خان کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین