اندھے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک پیدائشی اندھے اور دوسرے وہ جنکی بینائی کسی حادثے، بیماری یا صدمے کے باعث ضائع ہوگئی ہوتی ہے۔ ہمارا موضوع اندھوں کی اِن دوقسموں کے علاوہ تیسری قسم سے ہے جو باقاعدہ دوآنکھوں کے ہوتے ہوئے ساری زندگی اندھے رہتے ہیں۔ وہ اندھے جو رات کی تاریکی، دن کی روشنی، خریدوفروخت کے پیمانوں، قیمتی اور نسبتاً سستی سواریوں کی درجہ بندیوں، حسین اور دلکش بے حیائیوں کے تمام زاویوں، گندگی کے ڈھیروں اور صاف ستھری چمکتی راہداریوں، گولہ بارود کے انباروں اور طرح طرح کی بیماریوں کو ٹھیک ٹھیک دیکھنے کے باوجود مسلسل اور عمر بھر اندھے رہتے ہیں۔
ایک اندھا توہ ہوتاہے جسے کچھ دکھائی نہیں دیتا، جو رنگ برنگی دنیا کی دلکشیوں کو دیکھ نہیں سکتا، جو بلکتے ہوئے معصوم بچوں کی چیخ وپکار سن تو سکتا ہے لیکن اُن کا تڑپنا اور بلبلانا دیکھ نہیں سکتا، ، جو دنیا کی خوب روئی ور اس کے خوب رو چہروں کو نہیں دیکھ سکتا، جو ایک بے بس اور لاچار ماں کے سینے کی تپش محسوس تو کرسکتاہے لیکن اس کے چہرے کی بے بسی کرب اور اذیت کو دیکھ نہیں پاتا۔ جو کسی بے روزگار مجبور باپ کی دردناک تگ ودو دیکھنے سے قاصر تو ہوتاہے لیکن تنہائی میں اُس کا رونا سن ضرور لیتاہے۔
ہم ایسے کسی اندھے کی بات نہیں کررہے ہم اُن اندھوں کی بات کررہے ہیں جن کی دو بڑی بڑی آنکھیں آگے پیچھے، ارد گرد اور اُوپر نیچے ہر چیز ٹھیک ٹھیک نشانے پر پلک جھپکے بغیر دیکھ سکتی ہیں اور دن رات دیکھتی رہتی ہیں اس کے باوجود انھیں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہ بصارت کے نہیں بصیرت کے اندھے ہوتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ ہر چیز کو اپنی آنکھوں کی بجائے دوسرے کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
ان کی بینا ئی اپنی نہیں بلکہ ٹھیکے کی بینائی ہوتی ہے۔ اُن کی آنکھیں وہی کچھ دیکھتی ہیں جو انھیں دکھایا جاتاہے یعنی ان کی آنکھوں پر ایک ایسی عینک چسپاں کردی گئی ہوتی ہے جو انھیں ہر حال میں وہی کچھ اسی طرح دکھاتی ہے جس طرح سے عینک بنانے والا چاہتاہے کہ وہ چیزوں کو دیکھیں۔ یہ اندھا پن کوئی جدید ترقیاتی دور کی ایجاد نہیں ہے۔
یہ اندھا پن اُس وقت سے انسان کے ساتھ سا تھ رہاہے جس وقت سے انسان کو اللہ نے دیکھنے کے لئے دو آنکھوں سے نوازا ہے۔ بظاہر یہ بڑی مضحکہ خیز بات لگتی ہے کہ جب ایک طرف اللہ نے دیکھنے کے لئے دو آنکھیں دے رکھی ہیں تو پھر بنیا ئی کیسے متاثر ہوسکتی ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لئے اگر آنکھوں کے سامنے دن دیہاڑے ایک سکہ رکھدیا جائے تو ساری دنیا کو روشن کرنے والا سورج تک چھپ جاتا اور بڑی بڑی دوسالم اور ہر لحاظ سے ٹھیک ٹھاک آنکھوں والا بھی اُس وقت تک باقاعدہ طور اندھا رہتاہے جب تک کہ ا سکی آنکھو ں اور سورج کے درمیان سکہ اٹکا رہتاہے۔
آئیے اب یہاں پلٹا کھا کر بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے وزیرخارجہ پر سی این این کی انیکر پرسن اُس وقت اچانک برس پڑی جب انھوں نے کہا اسرائیل بین الاقوامی میڈیا پر اثر انداز ہوتاہے جس کے باعث عالمی سطح پر واقعات کی یکطرفہ رپورٹنگ ہوتی ہے تو فوراً شاہ محمود قریشی پر الزام لگادیا کہ وہ یہود مخالف اپنا عناداور بغض ظاہر کررہے ہیں جس پر قریشی صاحب مدافعانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ جبکہ نہایت اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے تھے کہ تمہارا مجھ سے یہ سوال ہی اس با ت کا ثبوت ہے کہ اسرائیل میڈیا پر کتنا واضح اثر رکھتاہے۔
نہ تو فلسطینیوں کے پاس ائر فورس ہے، نہ نیوی او ر نہ ہی بری فوج ہے اس کے باوجود جب نہتے عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے لئے حماس اسرائیل کے جدیدترین اسلحہ اور گولہ بارود کے مقابلے میں حملہ آور ہوتاہے تو اسرائیل کیلئے امریکہ بھی اعلان کرتاہے کہ اُسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے کیونکہ حماس کے"ــــ میزائل" اسرائیلوں پر "قہر " نازل کررہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں آنکھوں والے اندھے ایسے اندھوں کو اسرائیل کی خوفناک ترین تباہیاں اور بربادیاں مچانے والی بمباریاں، پھولوں کی برسات اور حماس کے پٹاخے بھی اسرائیل کے دفاعی نظام کو تہس نہس کرنے والے باقاعدہ خطرناک میزائل نظر آتے ہیں۔
کیا اِس سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ آنکھیں رکھنے کے باوجود عالمی طاقتیں اسرائیل کے حق میں اندھی ہوچکی ہیں؟ کشمیر کے معاملے پر بھارت کے حق میں اندھی رہتی ہیں، جنہیں روہنگیا کے کے لاغر ونحیف بھوکے ننگے مسلمان دہشت گرد نظر آتے ہیں وہ اندھے نہیں تو کیا ہیں؟ یہ اندھا پن صرف بین الاقوامی طاقتوں کو ہی لاحق نہیں ہے طاقت کا ہر سرچشمہ عام آدمی کو بھی اندھا کردیتاہے۔ دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں سے سند یافتہ نامی گرامی لوگ بھی اندھے رہتے ہیں کیونکہ وہ ماحول کو اپنی آنکھوں کی بجائے دوسرو ں کی نظر سے دیکھتے ہیں اس اندھیر نگر ی میں باپ اندھا ہوتاہے، بیٹا اندھا ہو تاہے، بھائی اندھا ہوتا ہے بہن اور ماں تک اندھے رہتے ہیں۔ بیوی سمجھتی ہے کہ ساس اندھی ہے جبکہ ساس بہو کو اندھا سمجھتی ہے۔ ہر رشتہ اندھا رہتا ہے اسلئے ضرورت سے زیادہ محبت اور بے جا نفرت ہر ایک کو اندھا بنا دیتی ہے۔
کیا مدرسے کے اندر معصوم طالب علم کو ذرا ذرا سی بات پر مار مارکر بالکل ہی ماردینے والا اُستاد اندھا نہیں ہوتا؟ کیا ماتحتوں کی زندگی اجیرن کرنے والاافسر اندھا نہیں ہوتا؟ کیاجاگیر دار، کارخانہ دار بیورپاری، رشوت خور اہلکار، ناجائز منافع خور دکاندار اور سبزی فروش اندھے نہیں ہوتے؟ کیا بیٹیوں اور بہنوں کا وراثتی جائیداد میں حق مارنے والے اندھے نہیں ہوتے؟ کیا انصاف دلانے کے بہانے لاکھوں روپے دن رات بٹورنے والے اندھے نہیں ہوتے؟ کئی جگہ انصاف اندھا ہو جاتا ہے اور حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا۔ کیا صحت اور تعلیم بیچنے والے اندھے نہیں ہیں، کیا دین فروش اور وطن فر وش اندھے نہیں ہیں؟
کیا ایک ہی چیز کو بیک وقت اچھا اور برا کہنے والے اندھے نہیں ہوتے۔ کیا قرآن نے صرف زمانہ جہالت کے لوگوں کے لئے ہی کہا ہے کہ اُن کی آنکھیں ہیں لیکن وہ دیکھ نہیں سکتے، اُن کے کان ہیں لیکن وہ سن نہیں سکتے، اُن کی زبانیں ہیں لیکن وہ بول نہیں سکتے۔ آنکھیں رکھنے کے باوجود نہ دیک سکنے والے بصیرت کے اندھے آج بھی کثرت سے موجود ہیں۔ آج بھی دنیا اندھی ہے، اسلئے کہ سیدھاراستہ نظر نہیں آتا۔
سیدھے راستے پر چلنے سے روکنے کے لئے تو شیطان اس پربیٹھا ہوا ہے جو اِس طرف کسی کو آنے ہی نہیں دیتا۔ حیرت اس با ت پر ہے کہ جسے واقعی اندھا ہونا چاہیے وہ دو کی بجائے چار آنکھوں سے دیکھتاہے۔