کتنا عجیب موضوع ہے۔ بظاہر مضحکہ خیز بھی لگتاہے بھلا بدبختی کے کرشمے بھی ہوسکتے ہیں؟ جب بدبختیوں کو آدمی خوش بختی کی علامت سمجھ بیٹھے تو اسی کو بدبختی کا کرشمہ کہا جائے گا۔ جب آدمی اپنی پستیوں کو بلندیوں سے تعبیر کرے اور لوگ ایسے شخص کو پاگل سمجھنے کی بجائے اُسکی عقلمندی کی داد دیں تو سمجھ لیجے کہ بدبختیاں اپنے کرشمے دکھانے لگ گئی ہیں۔ یہ بات آسانی کے ساتھ سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔ نواز شریف صاحب جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ اُس وقت بھی اُوپر تلے عمرہ کرنے کے شوقین تھے۔
عمروں کی ادائیگی کا تسلسل اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ پنجاب کے درمیانے درجے کے اہلکار جن کے لئے نواز شریف صاحب کا ملنا محال ہوتا تھاوہ اُن سے ملنے اور ذاتی طور پر درخواست پیش کرنے کے لئے مختلف حیلے بہانوں اور طور طریقے آزما کے وزیراعلیٰ کے دورے کے دوارن ہی سعودی عرب چلے جاتے اور خانہ کعبہ کے طواف کے دوران یا اُس کے بعد کسی نا کسی طرح اُن سے بالمشافہ ملاقات کرکے اپنا مدعا بیان کرتے۔ اُس وقت کے ایک ڈی ایس پی صاحب اپنا قصہ سناتے ہوئے فرمارہے تھے "دیکھو جی میں کتنا بدقسمت ہوں، کتنا بدبخت ہوں، کتنا ناکام اور نامراد شخص ہوں۔ میں نے سعودی عرب جانے کے لئے کون کون سے جتن نہیں کئے کہاں کہاں منت سماجت نہیں کی، خود پولیس افسر ہوتے ہوئے کیسے کیسے لوگوں کو سعودی عرب کا ویزہ لینے اور پھر پروگرام کے مطابق پی آئی اے کی سیٹ لینے کے لئے رشوتیں نہیں دیں اپنے دفتر میں مجھے ملنے کے لئے ترسنے والوں تک کو میں نے کیا کیا تحایف نہیں دئیے صرف اِسلئے کہ میں وقت پر خانہ کعبہ پہنچ جائوں۔
اب آپ خود ہی بتائیں کہ مجھ سے بڑا بدبخت کون ہوگا کہ جونہی میں خانہ کعبہ میں داخل ہوا مجھے پتہ چلا کہ صرف دومنٹ پہلے میاں صاحب چلے گئے تھے۔ آپ بتائیں اِس سے بڑی کوئی بدنصیبی ہوسکتی ہے؟ کیا مجھ سے بڑ ابھی کوئی بدقسمت ہوسکتاہے؟ اپنی اِس محرومی کے بارے میں سوچ سوچ کر مجھے راتوں کو اب نیند بھی نہیں آتی" کیا یہ بدبختی کا کرشمہ نہیں ہے؟
ماں کے پیرو ں تلے جنت ہوتی ہے۔" ماواں تے ٹھنڈیا ں چھاواں " محبت اور خلوص کا دوسر نام ماں جانا جاتاہے۔ مسلمان تو اللہ کے رحم وکرم کو بھی ماں کے پیارسے تشبیہ دیکر سمجھتا ہے تبھی تو کہتاہے کہ اللہ ستر مائوں سے زیادہ اپنے بندے سے پیار کرتاہے۔ اسی پس منظر میں علی مرتضیٰ کا یہ قول کہ "لڑکیا ں نیکیاں ہوتی ہیں اور لڑکے نعمتیں۔ نیکیوں پر ثواب ملتاہے اور نعمتوں کا حساب لیا جائے گا" کو سمجھے کی ضرورت ہے۔ انگریزی میں بھی ایک مشہورکہاوت ہے
A son is a son till he gets a wife، a daughter is daungter all her life
یعنی بیٹا اُس وقت تک بیٹا رہتاہے جب تک کہ بیوی نا آجائے جبکہ بیٹی زندگی بھر بیٹی رہتی ہے۔ یہی بیٹی ماں کی حیثیت سے بالکل مختلف ہوجاتی ہے اور بیوی بن کر اس سے بھی زیادہ مختلف ہوجاتی ہے۔ یہی بیٹی اگرکبھی سوتیلی ما ں بن بیٹھے تو ایک خونخوار درندے کا روپ دھارنے میں اکثر اوقات دیر نہیں لگاتی۔ لیکن جو بات سب سے حیران کن ہوگئی ہے وہ یہ کہ اب مائیں بھی وہ مائیں نہیں رہیں جس طرح کی مائوں نے ہماری نسل کو پالاتھا۔ ابلاغ عامہ کے جدید ترین دور میں چونکہ چیزیں اپنی تمام تر باریکیوں کے ساتھ سامنے آرہی ہیں یا لائی جارہی ہیں، یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ یا مائیں بدل گئی ہیں یا مائوں کے بارے میں اب تک کا رائج تصّور غلط تھا۔
ٹی وی پروگراموں کے ذریعے اُن مظلوم، لاچار اور بے بس بچیوں کو سامنے لایا جارہاہے جن کے ساتھ ایک دل دہلا دینے والا درندگی اور ظلم وبربریت کا سلوک اورکوئی نہیں بلکہ اُن کی اپنی سگی مائوں نے روارکھا ہے۔ روپوں کی چند گھڑیوں کے عوض دس دس گیارہ گیارہ سالہ پھول جیسی نازک اور معصوم بچیوں کو طرح طرح کے نشوں میں مست، بے رحم اور خونخوار بھیڑیوں کوپیش کرنے والیاں ان کو اپنی کوکھ سے جنم دینے والی مائیں ہی ہوتی ہیں۔ کوئی اور نہیں۔ آئے دن ایسیواقعات سننے کو ملتے ہیں جن میں اُن مقامات، علاقوں، جگہوں اوراڈوں کی ثبوتوں کے ساتھ نشاندھی کرائی جاتی ہے۔ جہاں نوجوان عورتوں اور معصوم بچیوں کی اکیسیویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی باقاعدہ خریدوفروخت ہوتی ہے۔ یہ خریدوفروخت ڈھکے چھپے نہیں بلکہ مقامی انتظامیہ کی مدد اور تعاون کے ساتھ کھلے بندوں ہوتی ہے بکنے والی بندنصیب خواتین مائیں بھی ہوتی ہیں، بہنیں بھی اور بیٹیاں بھی ہوتی ہیں۔
کسی کوڑے کے ڈھیر سے یا نالے کے کنارے سے ملنے والی چار پانچ سالہ معصوم بچی کی مسخ شدہ لاش جسے زیادتی اور بربریت کے نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ تفتیش کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ کام کسی اور نے نہیں بلکہ اپنے سگے چچا یا ماموں یا گھر ہی کے کسی اور بڑے نے انجام دیا تھا۔ اگریہ بدبختی کا کرشمہ نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ بدبختیوں کے کرشمے ہی تو ہوتے ہیں کہ جن رشتوں پرتکیہ کرنا ہر دین دھرم میں ایک تسلیم شدہ امرہو، وہی رشتے گھر ہی کی عزتوں سے کھیلنے والے آدم خور جانوروں کا روپ دھارلیں۔ یہ سارے بدترین کام کرنے والے لوگ اپنے طرح طرح کے ذاتی فائدوں کے لئے ہی کرتے ہیں۔ اللہ ہمارے ملک عزیز کو ایسے بدبختوں سے نجات عطا فرمائے۔